الطاف حسین جنجوعہ
کسی بھی ترقی یافتہ قوم کی کامیابی اُس کے صحت مند اور تعلیم یافتہ شہریوں پر منحصر ہے۔ لوگ جتنے زیادہ صحت مند اور خواند ہ ہوں گے۔ اُتنا ہی وہ اپنی صلاحیتوں کا ملک وقوم کی تعمیر وترقی اور خوشحالی کے لئے بہتر استعمال کرسکیں گے۔ تعلیم بھی تبھی ممکن ہوگی جب انسان صحت مند ہو۔ ایک بیمار شخص کبھی پڑھ بھی نہیں سکتا، اسی لئے کہاجاتا ہے کہ ’تندرستی ہزار نعت ہے‘۔اقوام ِ عالم میں اُنہیں قوموں نے ترقی کے جھنڈے گاڑے جنہوں نے اپنے شہریوں کی صحت اور تعلیم پر خاص توجہ دی کیونکہ یہ وہ دو شعبے ہیں، اگر ان پر خصوصی توجہ دی جائے، ان سے کوئی سمجھوتہ نہ کیاجائے تو پھر آپ کو زندگی کے کسی بھی شعبہ میں سمجھوتے نہیں کرنے پڑتے۔
آپ نے اکثر ایسا سُناہوگا اور کچھ حد تک حقیقت بھی ہے کہ شہر وقصبہ جات کی بہ نسبت دیہات میں پُرسکون فضا، صاف وشفاف ماحول اور معیاری وغیر ملاوٹی غذا کی وجہ سے لوگ صحت مند ہوتے ہیں لیکن اب ایسا نہیں، صورتحال کافی حد تک بدل چکی ہے۔ دیہات میں بھی غیر معیار ی اور ملاوٹی خوراک اور غیر صحت مند طرز ِ زندگی سے امراض تیزی کے ساتھ پھیلنا شروع ہوگئے ہیں۔پولٹری فارم مرغے ، کولڈرنکس اور فاسٹ فوڈ کے استعمال نے گاؤں دیہات کی صحت مند زندگی کو بھی بے حد متاثر کر دیا ہے اور اس کے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
حکومتی دعوے اپنی جگہ لیکن یہ چشم کُشا حقیقت ہے کہ جموں وکشمیر کے سینکڑوں گاؤں، دیہات ایسے ہیں جہاں بنیادی طبی سہولیات دستیاب ہی نہیں۔ کئی جگہوں پر ہیلتھ سینٹرز ہیں تو ڈاکٹرز نہیں، عمارت نہیں، ادویات نہیں، مطلوبہ مشینری نہیں۔ ہرجگہ کوئی نہ کوئی کمی ضرور ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ سرکاری ڈاکٹرتعیناتی کے لئے تو ایڑی چوٹی کا زور لگادیتے ہیں مگر وہ گاؤں میں ڈیوٹی دینے کو راضی نہیں ہوتے۔این آر ایچ ایم کے تحت دور دراز علاقوں میں ڈاکٹروں کو تعیناتی پر اضافی مالی مراعات بھی حکومت کی طرف سے دی جارہی ہیںلیکن اس کے باوجود صورتحال میں کوئی زیادہ بہتری نہیں آئی۔
امراض ِ قلب، مختلف اقسام کے سرطان،ذیابیطس، جوڑوں کا درد، یوریک ایسیڈ، بلڈپریشر، گردوں میں انفیکشن، چھاتی کا انفیکشن، تھائی رائڈ،معدے کے امراض، ذہنی امراض وغیرہ عام ہوگئے ہیں۔بلا شبہ حکومت کی طرف سے درجنوں اسکیمیں دیہی صحت مشن کے تحت چلائی توجارہی ہیں لیکن عام لوگوں کو ان کی جانکاری بہت کم ہے۔ گاؤں دیہات میں متذکرہ بالا موذی امراض میں تیزی سے اضافہ کی بڑی وجہ لوگوں کی عدم جانکاری بھی ہے۔ گاؤں میں یہ معمول ہے کہ اگر کوئی درد ہوا تو مقامی دوا فروشوں کے پاس جاکر Anti bioticدوا لے لی، جس سے درد سے کچھ حد تک راحت مل جاتی ہے لیکن بیماری دور نہیں ہوجاتی،بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ موذی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب کوئی کسی مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو انٹی بائیوٹیک دوائیں لیکر وہ فوری طور درد سے نجات تو پا لیتا ہے لیکن بیماری سے چھٹکارا حاصل نہیں کرپاتا۔ گاؤں میں لوگ درد سے نجات پانے کی ادویات مقامی دوافروشوں سےہی خریدتے ہیںاور پھر جب’’مرض بڑھتا گیا جُوں جُوں دوا سے‘‘کے مصداق ہوجاتا ہے،تو ضلع یا میڈیکل کالج اسپتال کا رُخ کرتے ہیں، جہاں صحت یابی کے امکانات کم رہ جاتے ہیں ۔چنانچہ تیزی کے ساتھ موذی امراض میں اضافے کی وجہ سے ضلع اسپتال، میڈیکل کالجوں پر دباؤ بڑ ھ جاتا ہے اور وہاں پر بھی معقول عملہ اور طبی مشینری نہ ہونے سے مریضوں کو بروقت علاج ومعالجہ نہیں مل پاتا۔ اس لئے گاؤں سے متعلق ہیلتھ پالیسی میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ جتنے بھی پرائمری ہیلتھ سینٹرز، نیو ٹائپ پرائمری ہیلتھ سینٹرز اور سب ہیلتھ سینٹرز ہیں، اُن میں یہ لازمی قرار دیا جائے کہ وہ اپنے حد اختیار والے علاقوں میں کم سے کم ہر ہفتے ایک بیداری کیمپ لگائیں ،جس میں لوگوں کو مختلف اقسام کے امراض کی علامات، وجوہات،احتیاطی تدابیر اور علاج کی جانکاری دیں۔ حکومت کو چاہئے کہ گاؤں سطح پر موجود صحت اداروں میں بنیادی میڈیکل ٹیسٹ کی سہولت دستیاب رکھی جائے ،جہاں پر خون، شوگر، یوریک ایسیڈ، ایل ایف ٹی، ای سی جی، کے ایف ٹی ، تھائی رائیڈ جیسے بنیادی ٹیسٹ ہوں اور ہر دو ماہ کے بعد ہر شہری کے لئے لازمی قرار دیاجائے کہ وہ اپنے باڈی پروفائل ٹیسٹ کرائیں تاکہ وقت پر مرض کا پتہ لگ سکے ۔ انسان کے جسم میں ہرچیز کی ایک مقدار متعین ہے۔ ٹیسٹ کے دوران اگر اُس میں کمی یا بیشی نظر آتی ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ تندرست نہیں۔ طبی تشخیص کے دوران اُتار چڑھاؤ میں آنے والے بدلاؤ میں توازن لانے کے لئے فوری اقدام بھی اُٹھائے جاسکتے ہیں۔ جموں وکشمیر کے اندر گاؤں سطح پر طبی اداروں کی بات کریں تو صوبہ جموں میں 164پرائمری ہیلتھ سینٹر(PHC)، 274نیو ٹائپ پرائمری ہیلتھ سینٹر(NTPHC) اور1369سب سینٹرز ہیں۔اسی طرح کشمیر میں229پرائمری ہیلتھ سینٹر، 121نیو ٹائپ پرائمری ہیلتھ سینٹر(NTPHC)، سب سینٹرز 1468،ایم اے سی 222، ایس سی 951اور نیو ایس سی 396ہیں۔ ان اداروں میں اگر طبی عملہ کو متحرک کیاجائے اور بنیادی ٹیسٹ سہولیات دستیاب ہوں تو صحت میں انقلابی بہتری آسکتی ہے۔
حکومت ِ ہند نے ہر شہری کو بہترعلاج ومعالجہ فراہم کرنے کے لئے آیوشمان بھارت جن آروگیہ یوجنا شروع کی، جس کے تحت ایک سال میں مفت پانچ لاکھ روپے تک کا علاج ومعالجہ فراہم کیاجارہا ہے۔ اس سے لوگوں کو بہت راحت ملی لیکن یہ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے کہ گاؤں میں جس تیزی کے ساتھ موذی امراض میں مبتلا لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، اُس سے یہ رقم بھی کم پڑتی دکھائی دیتی ہے۔ اس لئے حکومت کو دیہی علاقہ جات پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، جس کے لئے صحت پالیسی میں ضروری اصلاحات لائے جائیں۔ اس میں ایسا کیاجاسکتا ہے کہ،۱۔ آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت سالانہ پانچ لاکھ روپے مفت علاج ومعالجہ کی جس رقم کی ہرشہری کو ضمانت دی گئی ہے، اسی پانچ لاکھ میں سے دس ہزار روپے نکال کر پرائمری ہیلتھ سینٹرز اور سب ہیلتھ سینٹرز میں بنیادی میڈیکل ٹسٹوں کی سہولت دستیاب رکھنے کے انتظامات کئے جائیں،۲۔کم سے کم ہر تین ماہ میں ایک مرتبہ گاؤں سطح کے طبی شفاخانہ میں مفت باڈل پروفائل ٹسٹ کی سہولت ہرشہری کے لئے دستیاب کی جائے اور۳۔ سب سے اہم مختلف امراض کی علامات، علاج، احتیاطی ، تدابیر، وجوہات متعلق عوام کو بیدارکرنے کے لئے بیداری پروگراموں کو لازمی قرار دیاجائے اور اِس کی مکمل مانیٹرنگ ہو۔
حدیث مبارکہ ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’کسی انسان نے اپنے پیٹ سے بُرا برتن کبھی نہیں بھرا۔ ابن آدم کے لیے چند نوالے کافی ہیں جو اس کی کمر سیدھی رکھیں اور اگر زیادہ کھانا ضروری ہو تو ایک تہائی حصہ (پیٹ) کھانے کے لیے، ایک تہائی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے مختص کر دے‘‘۔ پرہیز ایک اہم طبی اصول ہے جس سے انسان اپنی صحت کی حفاظت کر سکتا ہے اور وہ ہے کھانے میں کمی کرنا۔ بلکہ انسان کو چاہیے کہ وہ اتنا کھائے جس سے اس کی سانس باقی رہ سکے اور جو اسے ضروری کام نمٹانے کی قوت فراہم کرے۔ سب سے گندہ برتن جسے بھرا گیا ہو، وہ پیٹ ہے۔ کیونکہ خوب سیر ہو کر کھانے سے مہلک قسم کے امراض جنم لیتے ہیں ۔ ان میں سے کچھ تو فوری پیدا ہوتے ہیں اورکچھ تاخیر سے اور کچھ باطنی ہوتے ہیں اور کچھ ظاہری۔
دیہات میں بہتر زندگی جینے کے لئے قدرتی ماحول تو دستیاب ہے لیکن اس میں صحت مند طرز زندگی اپنانے کے لئے بیداری پھیلانا بہت ضروری ہے۔ یہ بات سمجھانا بھی ضروری ہے کہ ہم کتنا کھائیں، کب کھائیں، کیا کیا کھائیں ۔ علاوہ ازیں چھوٹے چھوٹے جھگڑے جن کاگاؤں میں معمول ہوتا ہے،اُس سے بھی انسان کی صحت پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔گاؤں سطح پر پنچایتی اراکین کو بھی چاہئے کہ وہ صحت شعبہ پر خو د بھی توجہ دیں اور حکومت کی توجہ بھی اس طرف مبذول کرائیں۔محکمہ دیہات سُدھار اور پنچایتی راج میں وافر مقدار میں فنڈز خزانہ عامرہ سے سالانہ واگذار ہوتے ہیں، ان کے منصفانہ استعمال سے بھی گاؤں سطح پر بنیادی مطلوبہ طبی خدمات کی فراہمی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔
(مضمون نگار صحافی اور ہائی کورٹ وکیل ہیں)
رابطہ۔7006541602
:[email protected]