فداحسین بالہامی
اسلامی معاشرے کا تصور اس قدر جامع اور ہمہ جہت ہے کہ جس میں انسان کی تمام مادی اور معنوی ضرورتوں کا بدرجہ اتم خیال رکھا گیا ہے۔ بالفاظِ دیگر اسلام ایک ایسے مثالی معاشرے کا تصور پیش کرتا ہے کہ جو ایک انسان کے لئے ہر لحاظ سے فائدہ بخش ہو۔ دیگر ادیان کے ساتھ دین اسلام کا تقابلی جائزہ کیا جائے تو اسلام کا اجتماعی پہلواور بھی زیادہ روشن و تابناک دکھائی دیتا ہے، معتدد ایسے ادیان جن کے ماننے والوں کی اچھی خاصی تعداد اس وقت دنیا میں موجود ہے۔ انسان کے معنوی اور انفرادی پہلو کی کسی حد تک توتشفی کرتے ہیں مگر ان مذاہب میں اجتماعیت کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ملتا ہے گویا وہاں مذہب ایک ذاتی اور انفرادی چیز ہے۔ممکن ہے کہ بعض مذاہب فلسفی ، نظریاتی،معنوی اعتبار سے کافی مالا مال دکھائی دیں۔ مگر ان میں معاشرتی پہلو کا فقدان صاف طور پر دکھائی پڑتاہے۔
اسلام چونکہ دین اعتدال ہے، اس میں انفرادی اور اجتماعی دونوں پہلووں کا خیال رکھا گیا ہے۔ بلکہ ان دو پہلوؤں کے مابین بھی ایک خوبصورت توازن پایا جاتا ہے۔ اگر ہم جدید مکتب ہائے فکر کو بھی اسلام کے روبرو کریں تو ان میں بھی بیشتر مکتب ہائے فکر افراط و تفریط سے دوچار نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر شوشلزم (اشتراکیت) اور کیپٹلزم (سرمایہ دارانہ نظام) کو ہی لیجئے، ان میں سے اول الذکر مکتب انسان کی انفرادی حیثیت کو کلی طور پر نظر انداز کرتا ہے جبکہ ثانی الذکر مکتبۂ فکر معاشرے کی فلاح و بہبود کے بجائے تمام تر توانائی ایک فرد کی ضروریات اور حیثیت پر صرف کرتا ہے۔ مگر اسلام اس افراط و تفریط سے مبراء ایک ایسا الٰہی دین ہے کہ جسے بجاطوردین ِوسط یا متوازن مذہب کہا جاسکتا ہے۔ جہاں تعمیرِ شخصیت اور تذکیۂ نفس کی تاکید ہے، وہاں اصلاحِ معاشرہ کی بھی ذمہ داری ایک فرد کو سونپی گئی ہے۔ ایک جانب حُبِ ذات (جوہرجاندار وجود کا فطری میلان ہے)کی تشفی کا اہتمام ہے، دوسری جانب جذبۂ ایثار کے ذریعے اپنی ذات کو معاشرے کے تئیں وقف کرنے کا بھی اثر انگیز درس ہے کہ جو ایک فرد کو ذاتی منفعات پر اجتماعی مفادات کو ترجیح دینے پر آمادہ کرتا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام میں ایک فرد کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ صرف اور صرف اپنے فائدے کی سوچے۔اسے دوسروں کے نفع و نقصان کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں،جبکہ اشترکیت نے جن اقدار کو اپنے منشور میں بڑھا چڑھا کر پیش کے انکے مطابق ایک فرد کی اجتماع کے سامنے کوئی اہمیت و حیثیت ہی نہیں ہے۔ اس لئے انفرادی سطح پر ایک فرد کتنی بھی امتیازی خوبیوں کا حامل کیوں نہ ہو اور دوسروں کی بہ نسبت کتنا بھی زیاہ محنت کش اور سخت کوش ہی کیوں نہ ہو، اسےوہی کچھ ملے گا جو ایک غبی ذہن ، سست ، اور کام چور کے حصے میں آئے گا۔اور اسی چیز کو یہاں پر مساوات کا نام دیا جاتا ہے۔ نتیجتاً سرمایہ دارانہ نظام نے ایک انسان کو ’’خود غرضی اور خود خواہی ‘‘کے اس سحرا میں لا کھڑا کر دیا کہ جہاں اسے اپنی ذات کے سوا کوئی دکھائی نہیں دیتا۔وہ خواب و بیداری کی حالت میں صرف اور صرف اپنے بارے میں سوچتا ہے ۔جبکہ دوسری جانب اشتراکیت نے ‘‘ حبِ ذات ‘‘ جیسی فطری اور بنیادی جبلت پر کا ری ضرب لگاکرایک فرد کو ’’ بے غرضی اور بے التفاتی ‘‘کی جھکڑ بندیوں میں قید کر کے رکھ دیا ۔اس افراط وتفریط سے مبراء اسلامی نظام ِ معاشرت میں اگرچہ ایک فرد کو انفرادی طور پر کوئی قدغن نہیں ہے کہ وہ مادی ا ور معنوی اعتبار سے اوجِ کمال تک پہنچے۔لیکن اس کا اوج کمال تک پہنچنا اسی صورت میں قابلِ تعظیم و تکریم ہے، جب اس نے فلا ح و کمال کے راستے پر گامزن رہنے کے ساتھ ساتھ دیگر افراد کو بھی اسی راستے پر چلنے کی دعوت دی ہو۔اور انہیںو قتاً فوقتاً ہر لازمی کمک و امداد بہم پہنچائی ہو۔اسلامی اصول کی رو سے’’ خود غرضانہ نیکی‘‘ بھی کو ئی وقعت نہیں رکھتی۔ یعنی اگر کوئی شخص محض یہ چاہے کہ وہ تمام تر نیکیوں کو اپنے دامنِ کردار میں سمیٹے اور اپنے معاشرے کے ساتھ اس کا کوئی سروکار نہ ہو تو چاہے وہ کوہ ہمالیہ جیسی نیکیاں کیوں نہ اپنے ارد گرد جمع کرے، اسے کسی قسم کی جزا نہیں ملنے والی۔
خداوندعالم نے قرآن کریم میں ایک بہترین اور مثالی انسانی معاشرے کا خاصہ بیان کیا ہے کہ اس معاشرے کے افراد ایک دوسرے کو بُرائیوں سے روکتے ہیں اور اچھائیوں کی دعوت دیتے ہیں،اور اسی بنیاد پر امت مسلمہ کو بہتریں امت قرار دیا ہے۔چنانچہ خداوند عالم امت مسلمہ سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ ’’ تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظرعام پر لایا گیا ہے تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اوربُرائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی تفسیر نمونہ میں درج بالا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ اس آیت میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ اُمت کے بہترین ہونے کی دلیل کو امربالمعروف ، نہی عن المنکر اور خدا پر ایمان بیان کیا گیا ہے اور اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو’’ خدا پر ایمان‘‘کے اوپر مقدم کیا ہے ، تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ ان دونوں فرائض کے بغیر دلوں میں خدا پر ایمان کی بنیادیں سُست ہوجاتی ہیں اور اس کے ستون گر جاتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ خدا پر ایمان انہی دو فریضوں پر استوار ہے ۔ جس طرح معاشرہ کے تمام امور کی اصلاح بھی انہی دونوں کے اوپر استوار ہے۔یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو زندہ کرنے والوں کو زمین پر خدا کا نمائندہ ، پیغمبر اور کتاب کا جانشین کہا ہے : حضرت علی علیہ السلام نے دوسرے تمام فرائض سے مقایسہ کرتے ہوئے ان دونوں فرائض کی بہت زیادہ اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’تمام نیک کام یہاں تک کہ خدا کی راہ میں جہاد بھی امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے مقابلہ میں ایسا ہے جیسے دریا کے سامنے انسان کا لعاب دہن۔‘‘
نہ صرف معاملات بلکہ عبادات میں بھی اجتماعیت کا ایک واضع تصور ہے۔ کسی بھی عبادت پر غور و فکر کریں، ہر عبادت میں جماعت و اجتماع کی کوئی نہ کوئی صورت دکھائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے نماز اگر ایک جانب فرد کا خالق کے ساتھ راز و نیاز کا نام ہے۔ مگر اسی نماز کے ذریعہ جماعت کا خوبصورت گلدستہ بھی روحِ عبادت کو معطر کردیتا ہے۔سورہ حمد جس کی تلاوت ہر نماز گزار کرتا ہے ۔اس سورہ میں ایک بندہ جب خدا سے مخاطب ہو کر اس کی ربوبیت کا اقرار کرتا تو وہ یعنی چاہے ایک اکیلا ہی نماز کیوں نہ ادا کر رہا ہو۔وہ بھی ’’ ایاک نعبد وایاک نستعین ‘‘جیسی آیات میں چند ایک جمع صیغے ادا کر تا۔صاحبِ تفسیر نمونہ اس بات کی وضاحت خوبصورت انداز میں کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’یہ (جمع کے صیغے)اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عبادت اور خصوصاً نماز کی اساس جمع و جماعت پر رکھی گئی ہے، یہاں تک کہ جب بندہ خدا کے سامنے راز و نیاز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اسے چاہئے کہ اپنے آپ کو جماعت و اجتماع کے ساتھ شمار کرے، چہ جائیکہ اس کی زندگی کے دیگر کام۔ اس بنا پر ہر قسم کی انفرادیت ،علحٰیدگی ،گوشہ نشینی اوراس قسم کی چیزیں قرآن اور اسلام کی نظر میں مردود قرار پاتی ہیں۔‘‘
روزہ ایک ذاتی اور انفرادی عمل ہونے کے ساتھ ساتھ اس لحاظ سے اجتماعی عمل کے ساتھ گہرا ربط و تعلق رکھتا ہے کہ تمام مسلمانوں کے لئے ایک خاص اور مقررہ وقت میں روزہ فرض کیا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک مسلمان ایک ماہ میں روزہ رکھے اور دوسرا مسلمان دوسرے ماہ میں روزے کی سعادت سے مستفید ہو۔ اس کے علاوہ علماء نے روزہ دار کی گرسنگی اور تشنگی کے متعلق یہ خوبصورت اور معنی خیز توجیہ بھی پیش کی ہے کہ روزے دار کے فاقوں کا ایک مدعا یہ بھی ہے کہ اس کے دل میں دوسرے فاقہ کشوں اور محتاجوں کے متعلق احساس ہمدردی جاگ اٹھے۔ اسی طرح حج تو سراسر اجتماعیت کا آئینہ دار ہے۔ حج تمام ذاتی و انفرادی رنگ و ڈھنگ کے لباس کو اتار کر اجتماعی یعنی الہٰی رنگ میں رنگ جانے کی بہترین مثال ہے، اسی رنگ کو’’ صبغتہ اللہ ‘‘ قرآنی اصطلاح میں کہا گیا ہے۔(جاری)
رابطہ۔ 7006889184
[email protected]