ہارون الرشید
انسان کے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ جس عظیم ذات نے اس کو تخلیق کیا، اس نے اسے افضل ترین مخلوق قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کا درجہ انسانیت ہی کی وجہ سے انسان کو عطا کیا ہے ۔ اس لئے ایک اچھے انسان کی پہچان ہی انسانیت کی وجہ سے ہے، اگر انسانیت کی کوئی شۓ اس میں نہیں ہے تو انسان اور باقی وحشی درندوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا ۔ قرآن پاک و احادیث میں بھی متعدد مقامات پر لفظ انسانیت پر ہی زور دیتے ہو ئے فرمایا ہے: ’’ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے‘‘۔ تو ہمیں دیکھنا ہو گا کہ خدا نے جو مقام و مرتبہ ہمیں عطا کیا تھا کیا ہم اس منزل پر موجود ہیں؟ بالکل بھی نہیں۔ آج ہم اور جنگلی درندوں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ درندے ایک خطرناک اور خونخوار جا نور ہیں، ان کو صرف اور صرف اپنی خوراک سے غرض ہو تا ہے، یہ کبھی بھی دوسروں کے بارے میں نہیں سوچتے اور نہ ہی دوسروں کے لیے پریشان ہو تے رہتےہیں۔ ایک انسان ہی توہے جس میں وہ حِس موجود ہو تی ہےجس کے با وصف وہ کسی کے دُکھ سُکھ میں میں شامل ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک معاشرہ انسان سے تشکیل پا تا ہے کیونکہ جب ایک انسان پیدا ہو تا ہے تو نہ وہ پیدائشی طور پر شریف ہو تا ہے اور نہ ہی مجرم بلکہ اس کے اچھے انسان بننے اور مجرم بننے میں یہ معاشرہ اہم کر دارادا کر تا ہے۔ اگر بچہ ایک با اخلاق اور تربیت یا فتہ گھرا نے میں پیدا ہو جا ئے تو وہ ایک اچھا انسان بنے گا۔
ہمارے معاشرے میں بڑھتی اخلاقی خرابیاں ہیں جو تسلسل کے ساتھ انسان کو انسانیت کے دائرے سے با ہر دھکیلتی رہتی ہیں۔جس رفتار سے انسانوں میں اخلاقی پستی بڑھتی جاتی ہے، اسی رفتار سے انسان اور دوسری مخلوقات کے مابین انسانیت کی قائم کردہ دیواروں کی بنیا دیں کمزور پڑ جا تی ہیں۔ آج یہی نظر آرہا ہے کہ انسان حیوانیت کاپیکر، اوردرندہ صفت بن کر ظُلم وبربریت کی داستانیں رقم کررہا ہے ۔اور پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسانیت مرچکی ہے؟
<[email protected]>