منظور احمد گنائی
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی وپرداخت کے لیے نوجوان طبقہ کا نمایاں رول رہتا ہے۔ٹھیک اسی طرح جس طرح ایک جسم کے لیے سانس کی ضرورت ہوتی ہے۔بنی نوع انسان کی تعمیر وترقی دنیاومافیہا کی مال ودولت پر ہی نہ صرف منحصر ہے بلکہ ا س دنیائے آب وگل کا پورا ایمان وایقان صحت مند معاشرے اور معاشرے میں زندہ اقوام کی ظاہری وباطنی ساخت یا ڈھانچہ کی دھوپ چھاؤں میں مضمر ہے۔صحت مند اور متحرک معاشرے کی ضمانت جہاںہر انسان کے ظاہری اُٹھک بیٹھک پر مشروط ہے وہیں دوسری طرف ہر قوم اور معاشرے کے لیے استاد ایک سچا رہنما،معلمِ اول،رہبرکامل اور معمارِ اعظم کے طور پر جانا جاتا ہے۔ آج کے اس سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں جہاں ہر چیز کی عظمت اور انفرادیت میں بے حد وسعت اور بے ساختگی برتی جاتی ہے لیکن فی زمانہ استاد کی عظمت کا فقدان ضرور دیکھنے کو ملتا ہے۔ہر عہد اور قوم کا معمارِاعظم جسے عرف ِعام میں ـ’استاد‘کہا جاتا ہے کی عظمت،اہمیت،انفرادیت اور تعظیم وتوقیر کا عالم یہ ہے کہ زمانہ سن لے دنیا کا کوئی بھی شعبہ استاد کے شعبے کا ثانی نہیں ہوسکتا بلکہ ا س کی عظمت کا راز یہ ہے کہ اس نے دنیا میں اعلیٰ اخلاق وکردار کی بستیاں آباد کرنے میں ایک عظیم تاریخ رقم کی ہے ۔آئے دن اس اعلیٰ پیشے کے ساتھ جس قسم کی بے راہ روی کا اظہار کیا جاتا ہے ،اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ آہستہ آہستہ اب اس عظیم پیشے کا جنازہ اٹھ رہا ہے۔ اس بات کو میں ایک مثال کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کروں گا بشرطیکہ میری شعور میں ان ساری باتوں کا اعادہ ہوجائے جو میں نے اپنی آنکھوں سے یا میرے ساتھ وقتاََ فوقتاََ پیش آئے ہیں۔ آج کل کے اس بیروزگاری کے عالم میں جہاں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اپنی دووقت کی روٹی کے لیے زمین وآسمان کے قلابے ملانے میں جہدِ مسلسل کررہا ہے وہیں ایک پڑھا لکھا جب آج کل کے نام نہاد نجی اسکولوں میںاپنے روزگار کو یقینی بنانے کے لیے مختلف اسکولوں میں خالی پڑی اسامیوں کے لیے اپلائی کرتا ہے تو وہاں اسکول یا کالج کا انتظامیہ اس پڑھے لکھے نوجوان کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کر لیتے ہیں جو بیان سے باہر ہے۔گویا وہاں اس پی۔ایچ۔ڈی ،نیٹ اور دیگر ڈگریوں سے لیس اسکالر کو اسکول میں موجود گریجویشن یا اس سے زیادہ تعلیم یافتہ استاذ کے سامنے کلاس دینی پڑتی ہے جو میرے خیال میں آج کے پڑھے لکھے ڈگری ہولڈر کے ساتھ ناانصافی ہے۔حالانکہ اسکول میں موجود استاد جس کے سامنے ان ڈگری یافتہ اسکالروں کو کلاس دینی پڑتی ہے وہ کسی بھی حال میں ان نئے اسکالرس کے مدِمقابل زیادہ نالج کے حامل نہیں ہوتے ہیں ۔ بلکہ یہ آج کی اس نئی جنریشن کے ساتھ ذہنی کوفت اور احساسِ کمتری کا احساس دلانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔اس کے علاوہ اگر اب کسی استاد نے اپنے لیے جگہ بنا بھی لی تو رہی بچی کسر پھر تنخواہ کی قلیل مقدار دیتے ہوئے مکمل کر لیتے ہیں۔مجھے یہ کہنے میں کسی قسم کا چنداں مضائقہ نہیں ہوتا کہ رواں سال میں اننت ناگ کے ایک ماڈل اسکول میں جب کام کرنے کے لیے گیا تو وہاں موجود انتظامیہ نے میری کلاس میں ایسے اساتذہ کو رکھا جو کسی بھی حال میں مجھ سے زیادہ علم نہیں رکھتے بلکہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انہیں میرے سبجیکٹ کی نالج کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں تھا اور وہیں لوگ پھر یہ طے کرتے ہیں کہ آیا اُستاد کو بچوں کی درس وتدریس کے لیے منتخب کیا جائے گا یا نہیں جو میرے خیال میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اسکالرس کے ساتھ مذاق اور ان کا دل مجروح کرنے سے کم نہیں ہے۔ہاں اتنا ضرور ہے کہ کلاس میں کسی کسی مخصوص سبجیکٹ کے ماہر ین کو رکھا جائے جو اس بات کا علم رکھتے ہیں کہ استاد کے اندر کتنی ذہنی صلاحیت اور درس وتدریس کا ہنرموجود ہے اور بچوں کو کسی استاد کے انتخاب کرنے میں پوری آزادی ہونی چاہیے جو سب سے اعلیٰ اور مستند طریقہ کار ہوسکتا ہے۔
اتنا ہی نہیں اب اگر ان اسکولوں میں جاتے وقت ذلت اور رسوائی اب کسی نے برداشت بھی کی تو رہی بچی کسر پھر کم تنخواہ دے کر پوری کرلیتے ہیں ۔جہاں ان اسکولوں کا عالم یہ ہے کہ ایک گریجویٹ یا ایم۔اے کو جتنی تنخواہ ماہانہ دی جاتی ہے ،اُتنی ہی تنخواہ یا اس سے بھی کم ایک پی۔ایچ۔ڈی یا نیٹ کالیفائر کو بھی دی جاتی ہے جو میرے خیال میں اس نئی جنریشن کے ساتھ ہنسی مذاق کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ان اسکولوں میں حد یہاں تک ہے کہ صنفِ نازک کو اس سے بھی کم تنخواہ دے کر اس کے احساسات کو مجروح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔بلکہ ان کی انتھک کوشش یہی رہتی ہے کہ صرف خواتین کو ہی اسکولوں میں منتخب کرکے ان پر اپنی من مانی چلاکر کام چلانا ہے۔حالانکہ ان اسکولوں میں زیرِ تعلیم طلبہ وطالبات کے والدین اپنی محنت اور کوششوں سے دن رات ایک کرکے اپنے بچوں کے لیے قلم ،کاپی اور ماہانہ فیس کی ادائیگی مہیا کرانے میں لگے رہتے ہیں لیکن ان سارے لوازمات کو بالائے تاک رکھ کر اسکول منجیمنٹ صرف اپنی دولت جمع کرنے میںلگے رہتے ہیں اور انہیں اسکول میں زیرِ تعلیم بچوں کے مستقبل کی کوئی فکر نہیں رہتی اور صرف بچوں کو ظاہری ہاو ٔبھاؤ دکھا کر انہیں کسی حد تک مطمئن کیا جاتا ہے لیکن اندر کی کہانی کچھ اور ہی ہے جسے ہر کوئی سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔
بچوں کی درس وتدریس کے معاملے میں اگر قابل اور ہنر مند استاد کا انتخاب کیا جاتا تو وہ دن دور نہیں جب ان اسکولوں کی رونق کچھ اور ہی ہوتی۔میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پیسوں پر کم اور بچوں کی تعلیم پر اگر زیادہ توجہ دی جائے تو وہ ہر حال میں تسلی بخش ثابت ہوسکتاہے۔اس کے علاوہ کچھ اسکولوں میں بچوں کی ذہنی صلاحیت کو دبا کر ان سے رٹا لگانے کے لیے کہا جاتا ہے جس کا میں نے خود مشاہدہ کیا۔اگر اس قسم کی تعلیم کا معیار جموں وکشمیر میں عام کیا گیا جہاں کچھ پیسوں کو بچا کر کم تعلیم یافتہ اساتذہ کا انتخاب کیا گیا تو بچوں کے مستقبل کا پھر خدا ہی حافظ ہے ۔آخر میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ حکومت کو بھی ایسے معاملات پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور ان اسکولوں کے خلاف قدغن کرنی چاہیے جہاں بچوں کی تعلیم پر کم توجہ دیتے ہوئے صرف پیسوں کی لالچ میں اسکولوں کو زیر تعمیر کیا جاتا ہے بلکہ ہونا یوں چاہیے کہ ایک مستقل تعلیمی نظام کی فراوانی ہونی چاہیے جہاں زیادہ سے زیادہ بچوں کی تعلیم کو معیاری ،سائنسی انکشافات سے مزین ،جدید اور عصری مطالبات کے التزامات سے مملو ہو ۔وہی تعلیمی نظام فی زمانہ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ مماثلت رکھ سکتا ہے۔
رابطہ۔6005903959
[email protected]