ڈاکٹر عریف جامعی
انسانی شخصیت وجود حیوانی (جسم و جان) اور روح سے تشکیل پاتی ہے۔ یہ دوئی انسانی شخصیت کی نشوونما، اٹھان اور اڑان میں نہ صرف برقرار رہتی ہے بلکہ ایک دلچسپ کشمکش میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس طرح روحانی اور مادی پہلو انسان کو رواں دواں رکھتے ہیں۔ تاہم روح، جس کا منبع عالم ملکوت یا عالم امر ہے، اس کو لطیف حقائق یعنی اوپر کی طرف کھنچتی ہے جبکہ جسم، جس کا خمیر زمین سے اٹھا ہے یعنی جس کا تعلق عالم خلق سے ہے، اس کو مادیات یعنی نیچے کی طرف کھینچتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کشمکش کے دوران انسان توازن قائم کرکے ہی صلاح و فلاح سے ہمکنار ہوسکتا ہے۔
فلاسفہ کے اس تصور کے برخلاف کہ جسم انسانی روح کے لئے ایک قید خانے کی حیثیت رکھتا ہے، دین مبین جسم کو انسانی شخصیت کے لئے لازم قرار دیتا ہے۔ جسم کے مادی سہارے کے بغیر روح دنیائے محسوس میں کوئی اثر نہیں چھوڑ سکتی۔ ظاہر ہے کہ جسم بھی بغیر روح کے بے ڈول مادے کا ایک ڈھیر ثابت ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زمان و مکان کے موجودہ ابعاد (ڈائمینشنز) میں روح بحیثیت سوار جسم کی سواری کے ذریعے متحرک ہوتی ہے اور پردہ محسوس پر اپنی کار گزاریوں کے جوہر دکھاتی ہے۔ اس لئے اسلام نہ اس بات کا روادار ہے کہ جسم کو اذیت دیکر ہلکان کیا جائے تاکہ روح کے ترفع کا سامان ہوسکے اور نہ ہی اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ انسان اپنی زمام کار جسم کے ہاتھ میں تھماکر پستی کی نچلی ترین سطح (اسفل سافلین) پر پہنچ جائے۔
چونکہ انسانی شخصیت ایک نامیاتی اکائی (آرگینک ہول) کی طرح کام کرتی ہے، اس لئے روح اپنی الگ راہ لے سکتی ہے اور نہ ہی جسم اپنے لئے الگ راستے کا انتخاب کر سکتا ہے۔ انسانیت نے بار بار اس چیز کا مشاہدہ کیا ہے کہ جس طرح فقط روح کے تقاضوں کو پورا کرنے کے زعم میں مبتلا ہوکر انسان نے ترک دنیا کی راہیں ایجاد کیں، کچھ اسی طرح فقط جسم کے تقاضوں کے آگے سپر ڈال کر انسان نے سنگین ترین مادہ پرستی کو جنم دیا۔ افراط و تفریط کے اسی چکر نے جہاں ایک طرف انسانوں کی ایک بڑی جمعیت کو مال و زر کے اژدھوں میں تبدیل کیا وہیں انسانوں کی ایک خاطر خواہ تعداد کارہائے دنیا سے لاتعلق ہوگئی۔ نتیجتاً انسانوں کی اکثریت نے ایک بے مقصد طرز زندگی کو گلے لگایا۔ ظاہر ہے کہ انسانی معاشرے کا ایک معتدبہ حصہ چوپایوں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور بھی ہوا اور مطمئن بھی!
ظاہر ہے کہ دین مبین اس افراط و تفریط کو کسی صورت قبول نہیں کرتا۔ اس کے برعکس دین کا مطمع نظر یہ ہے کہ روح اور جسم دونوں کے تقاضوں کو ایک ہم آہنگی اور اقتصاد کے ساتھ آگے بڑھایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن ایک طرف رہبانیت (ترک دنیا) کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور دوسری طرف مال و زر کے ساتھ حد سے زیادہ انہماک کی مذمت کرتا ہے۔ مال و دولت کے ساتھ انسان کے نفسیاتی لگاؤ کو قرآن اس طرح بیان کرتا ہے: ’’مرغوب چیزوں کی محبت لوگوں کے لئے مزین کردی گئی ہے، جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشاندار گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی، یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور لوٹنے کا اچھا ٹھکانا تو اللہ تعالی ہی کے پاس ہے۔‘‘ (آل عمران، ۱۴) عملی طور پر مادی اشیاء سے بھر پور لیکن محتاط انداز سے متمتع ہونے کے لئے قرآن اس طرح ابھارتا ہے: ’’اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے مت نکلو۔ بے شک اللہ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (الاعراف، ۳۱) اس طرح صوفیاء کا نظریہ ’’قلّت طعام‘‘ (کم کھانا)، ’’قلّت منام‘‘ (کم سونا)، ’’قلّت کلام‘‘ (کم بولنا) اور ’’قلّت اختلاط مع الانام‘‘ (کم ملنا جھلنا) محل نظر معلوم ہوتا ہے، کیونکہ جسم کے مختلف قویٰ کو برقرار رکھ کر ہی روح کے تقاضوں کو پورا کیا جاسکتا ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ روح کے لوازمات کو ختم کیا جاتا ہے اور نہ ہی جسم کے تقاضوں کو روند ڈالا جاتا ہے۔ تاہم دونوں کو حدود کا پابند کیا جاتا ہے۔ اب جہاں تک صوم (روزہ) کا تعلق تو اس کے لغوی معنی ہی ’’رکنے‘‘ کے ہیں۔ تاہم جب اس لفظ کو اصطلاحی یا تکنیکی معنوں میں استعمال کیا جائے تو اس سے کھانے، پینے اور تعلق زن و شو سے انسان کو ایک خاص وقت کے لئے روکنا مراد لیا جاتا ہے۔ تاہم ان تین بنیادی تقاضوں سے روک کر انسان کو دراصل منہیات دین اور رذائل اخلاق سے دور رہنے کی مشق کرائی جاتی ہے۔ انسان کو اس طرح نظم و ضبط اور حدود کا پابند بنانے کے لئے نبیؐ نے ایک بلیغ تمثیل بیان فرمائی ہے: ’’ہر بادشاہ کی ایک محفوظ چراگاہ (حمیٰ) ہوتی ہے۔ اللہ نے جو چیزیں حرام کردی ہیں وہ اس کی محفوظ چراگاہ کے مانند ہیں۔ کوئی چرواہا اپنے گلّے کو اگر آخری حد تک لے جائے گا تو کبھی کوئی بھیڑ بکری چھلانگ لگائے گی اور اس ممنوعہ چراگاہ میں داخل ہوجائے گی۔ لہذا بہتر یہ ہے کہ کچھ فاصلے پر رہو۔‘‘
نظم و ضبط کی اسی پابندی، جس کا مقصد فضائل کا حصول ہوتا ہے، کو قرآنی اصطلاح میں تقویٰ کہا جاتا ہے۔ تقویٰ کا حصول ہی اگلی امتوں اور امت مسلمہ کے لئے صوم کا مقصد قرار دیا گیا ہے۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: ’’اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر (صوم) فرض کیا گیا تھا، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔‘‘ (البقرہ، ۱۸۳) تقویٰ کی عملی تعبیر کے بارے میں صحابہ نہایت ہی حساس واقع ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں سیدنا عمر نے ابی ابن کعب سے ایک بار جب سوال کیا تو امیر المؤمنین کو جواب دیا گیا کہ تقوىٰ یہ ہے کہ ایک شخص ایک وادی سے دوسری وادی تک جانے کے لئے ایک واحد پگڈنڈی، جو کانٹے دار جھاڑیوں سے گھری ہوئی ہو، پر اپنا لباس کچھ اس طرح سمیٹ کر چلے کہ وہ کانٹوں سے الجھے بغیر اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائے! واضح ہوا کہ تقویٰ ایک لائحۂ عمل ہے جو ایک بندۂ مؤمن دنیا میں صراط مستقیم کی پگڈنڈی، جو خواہشات نفس کے کانٹوں اور مرغوبات نفس کی رعنائیوں سے بھری پڑی ہے، پر چل کر اختیار کرتا ہے تاکہ وہ صحیح سلامت اپنے رب کے حضور پہنچ سکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تقویٰ اگرچہ دل کے اندر پیدا ہونے والی ایسی حساسیت اور جذبے کا نام ہے جس کے تحت انسان اپنے آپ کو ہر لحظہ رب تعالی کے سامنے مسئول سمجھتا ہے لیکن اس کا اظہار بہرحال ان اعمال کے ذریعے ہوتا ہے جو خدا کو محبوب ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس میں خدا کے اوامر (احکام) کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ اس کے نواہی سے اجتناب شامل ہے۔ اب چونکہ یہ جذبہ دل کے اندر پیدا ہوکر باہر (عمل کی صورت) کا رخ کرتا ہے، اس لئے نبیؐ نے اپنے قلب مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ ’’تقویٰ یہاں ہے!‘‘
صوم رمضان کے ذریعے بندہ مؤمن مسلسل ایک ماہ تک اوامر پر عمل پیرا ہونے اور نواہی سے بچنے کی مشق کرتا ہے۔ بندے کا یہ طریق کار اس کے لئے خدا کی ناراضگی یعنی عذاب سے بچنے اور حصول جنت کا پروانہ ثابت ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ صوم یعنی ’’روزہ کو ڈھال کہا گیا ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ساتھ جوں جوں مادی لوازمات کو ضرورت یعنی کم سے کم (بیئر منیمم) تک محدود کیا جاتا ہے، تو روح لطائف کو محسوس کرنا شروع کرتی ہے۔ اس مقام پر پہنچ کر روح رب کی دہلیز یا چوکھٹ کے سامنے راز و نیاز کرنے کے قابل ہوجاتی ہے۔ چونکہ صوم کی ریاضت کے ذریعے ہر خاص و عام کو یہ تجربہ حاصل ہوتا ہے، اس لئے دعا، جو عبادت کا مغز ہے، کی اجابت کے لئے رب تعالی اپنی بارگاہ کے در وا کرتا ہے اور نبیؐ کو یہ اعلان کرنے کو کہا جاتا ہے: ’’جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں، ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ مجھے کارے، قبول کرتا ہوں۔ اس لئے لوگوں کو بھی چاہئے کہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں، یہی ان کے رشد کا باعث ہے۔‘‘(البقرہ، ۱۸۶)
دربار الٰہی میں حاصل ہونے والی یہ قربت بندے کے لئے کوئی پر اسرار واقعہ ہے اور نہ ہی یہ کوئی تعجب خیز شئے ہے۔ آیت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خدا پر ایمان لانا اور اس کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہی بندے کے لئے رشد و ہدایت کے دریچے کھولتا ہے۔ اور غیب پر ایمان لانا، نماز قائم کرنا اور راہ خدا میں خرچ کرنا متقین (یعنی تقویٰ شعار) بندوں کی صفات ثلاثہ قرار دیا گیا ہے۔ (البقرہ، ۳) یعنی خدا کے ان بندوں کو بنیادی صفت تقویٰ راہ ہدایت پر لگاتی ہے اور روزوں سے یہی صفت نقطئہ کمال کو پہنچ کر انہیں راہ حق پر استقامت اور دوام عطا کرتی ہے۔ خدا کے انہی بندوں کا اکل و شرب پاک صاف یعنی حلال ہوتا ہے جو ایک طرف ان کے باطن کو دھوتا ہے اور دوسری طرف ان کے باہر (معاشرے میں) یہ مال خلق خدا پر ظلم کا باعث بنتا ہے اور نہ ہی ان کو متکبرین کی صف میں کھڑا کرتا ہے۔ اس بات کا اشارہ بڑے ہی لطیف انداز میں روزوں احکام کے آخر پر ان الفاظ میں کیا گیا ہے: ’’اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو، نہ حاکموں کو رشوت پہنچاکر کسی کا کچھ مال ظلم و ستم سے اپنا کر لیا کرو، حلانکہ تم جانتے ہو۔‘‘ (البقرہ، ۱۸۸)
واضح ہوا کہ تقوىٰ یعنی خدا اور خلق کے تئیں اعلی درجے کی سنجیدگی اور تزکیہ یعنی ظاہر اور باطن کی پاکیزگی روزوں کے ذریعے اپنے نقطئہ عروج کو پہنچ جاتی ہیں۔ اب ایک طرف دنیا میں انسانی شخصیت کی نشوونما تزکیہ میں مضمر ہے (الشمس، ۱۰) تو دوسری طرف آخرت میں خدا کی نظر عنایت اور حصول جنت بھی تزکیہ کے ساتھ وابستہ کردیا گیا ہے۔ (آل عمران، ۷۷) ایسا اس لئے ہے کہ تطہیر اخلاق کا نام ہی دراصل تزکیہ ہے جو نبیؐ کی چہارگانہ ذمہ داریوں کا ایک بنیادی شعبہ ہے جسے قرآن نے الفاظ کے ذرا سے فرق کے ساتھ چار مقامات پر بیان کیا ہے، جیسے: ’’اے ہمارے رب! ان میں انہیں میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے۔‘‘(البقرہ، ۱۲۹)
ظاہر ہے کہ نہ صرف تلاوت آیات اور تعلیم کتاب و حکمت کا براہ راست تعلق قرآن کے ساتھ ہے بلکہ تزکیہ کی بنیاد ہی قرآن کے ساتھ وابستہ کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زمانہ نزول قرآن یعنی رمضان کو صوم کے لئے مختص کیا گیا ہے، تاکہ نفسیاتی طور پر انسان پاکیزگی کی ایک ایسی سطح پر آسکے جہاں وہ کلام الہی سے فیضیاب ہوسکے جس میں اس کی ہدایت کا سامان رکھا گیا ہے۔ رمضان میں رشد و ہدایت کے اس نصاب کا اہتمام و انتظام رب کائنات نے فرمایا ہے، اس لئے بندہ تزکیہ اور تقویٰ کے حصول کے بعد رب تعالی کی بڑائی کا اعلان کرتا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں: ’’اللہ تعالی کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے، سختی کا نہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالی کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر کرو۔‘‘ (البقرہ، ۱۸۵)
صوم کے ان تمام فوائد کو مدنظر رکھا جائے تو خدا کا وہ فرمان سمجھ آسکتا ہے جس میں ایک طرف بندے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے اور دوسری طرف صوم کے ایک اعلی پایہ کی عبادت ہونے کا اعلان کیا گیا ہے۔ خداوند قدوس فرماتا ہے: ’’الصوم لی و انا اجزی بہ، یعنی روزہ خاص میرے لئے ہے اور میں خود ہی اس کی جزا دوں گا (یا میں خود ہی اس کی جزا ہوں)‘‘ (بخاری و مسلم) ظاہر ہے کہ جب روزہ دار دنیا میں تقویٰ اور تزکیہ سے بھرپور گزارے گا تو خدائے مہربان آخرت میں اس کی اس طرح میزبانی فرمائے گا کہ ایک مخصوص دروازہ یعنی ’’ریان‘‘ اس کے داخلۂ جنت کے لئے مخصوص فرمائے گا۔
(مضمون نگار محکمۂ اعلی تعلیم میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
رابطہ۔ 9858471965
[email protected]