مفتی رفیق احمد قادری
غزوہ بدر کو اسلامی تاریخ میں کافی اہمیت حاصل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے خاطر مٹھی بھر صحابہ کرام کی جماعت نے بے سروسامانی کی حالت ِ زار میں عظیم وجرار لشکر سے قوت ایمانی ونصرت الٰہی سے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغرور وگھمنڈ قریش کو ذلت آمیز شکست وتوہین آمیز ریخت کا سامنا کرنا پڑا۔ در حقیقت یہ پیغمبر اسلام ؐ کے جانثاروں کا امتحان تھا۔اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ کے قوت ایمانی کو خوب جانچا۔ ان فدایانِ نبی کریمؐ کے جذبوں کو پرکھا کہ یہ ظلم و ستم کے پہاڑ کے سامنے چٹان بن کر رہیں گے یا موم کی طرح پگھل جائیںگے۔ الحمد للہ اس جان گسل آزمائش میں وہ کھرے اُترکر سرخرو رہے۔
غزوہ بدر کے مطالعے سے بات واضح ہوتی ہے کہ بے سروسامانی کا عالم یہ تھا کہ پورے لشکر میں صرف 6 زرہیں،8 تلواریں، 60 نیزیں، 2 گھوڑے اور 70 اونٹ تھے۔ان کے مقابل کفّار کی فوج 1000 جنگجو اور بہادر سپاہی، 100 بہترین وعمدہ گھوڑے، 700 فربہ اونٹ، نیزہ بردار، تیر انداز اور عیش و عشرت کے سامان کے ساتھ تھیں۔ ایک طرف مسلمان تعداد اور اسلحہ کے لحاظ سے بہت ہی کمزور اور زبوں حالی میں تھے وہیں دوسری طرف باطل کی طاقت پوری طرح کیل کاٹے سے لیس میدانِ جنگ میں اتر آئی تھیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ حق اور سچائی کو فتح مبین اس وقت نصیب ہوتی ہے ،جب ایمانی جذبات میں جنونی کیفیت پیدا ہو جائیں۔ حرارت یقین دل کے نہاں خانوں میں گھر کر جائیں۔ جوش جانثاری میں تلاطم پیدا ہو جائیں اور خلوص اور دین پر مر مٹنے کا ولولہ متاعِ زیست بن جائیں۔ جب یہ کیفیات متاعِ حیات اور غرض زندگی بن جاتی ہیں تو اللہ تعالی آزمائشوں سے گزار کر کامیابیوں اور کامرانیوں سے ہمکنار کرتا ہے، یہی جنگ بدر میں ہوا۔ کفار قریش نبی کریمؐ کے اعلان ِنبوت کے بعد جانی دشمن بن گئے۔ اعلانِ نبوت کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق سے متاثر ہوکر لوگ جوق درجوق حلقہ اسلام میں داخل ہونے لگے۔ یہ اعلان نبوت باطل قوتوں کے لئے کسی طوفان بلا خیز سے کم نہ تھا۔ کفار ِمکہ کی تمام آبائی من گھڑت روایات کا شیش محل ملبے میں تبدیل ہونا لگا۔ ان کے بنائے ہوئے معبودانِ باطل سرنگوں ہونے لگے۔ قوت اور ظلم وستم کا طلسم ٹوٹنے لگا۔ تب ان کے شیطانی وخرافاتی ذہن میں مسلمانوں کے خلاف نئے نئے ہتھکنڈے جنم لینے لگے۔ جو سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے شیدائی تھے ،اُن پر جبر واستبداد کا پہاڑ توڑنے لگے۔ ان کے جائیداد ضبط کرکے انہیں ردیوزہ گری پر مجبور کرنے لگے۔ اتنا ہی نہیں ظلم کی اِنتہا ہوئی کہ مسلمانوں سے سوشیل بائیکاٹ کیا گیا،لیکن عزم واستقلال کے ان پیکروں کے قدم کبھی نہیں ڈگمگائے۔ صبر و عزیمت کے ساتھ سب کچھ مولیٰ کی رضا وخوشنودی کے خاطر خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرتے رہے۔مصائب وآلام کی اس پُر خار زندگی میں اچانک ربّ کریم کی جانب سے مژدہ جانفزا سنائی گئی۔ ہجرت مدینہ منورہ کا حکم صادر ہوا۔ غم واندوہ کے اس عالم دِلگداز میں جب یہ نوید مسرت سنائی گئی تو ان کی زندگی میں خوشیوں کے شادیانے بجنے لگے۔ خوش وخرم محسن کائناتؐ کی ہمراہ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرگئے۔ مدینہ کی آب وہوا انہیں خوب راس آئی اور پُر سکون ماحول میں وہ مظلوم صحابہ توحید ورسالت کا حسین ساغر سب کو پلانے لگے۔ خوب دعوت وتبلیغ کا کام کرنے لگے۔
مدینہ کی یہ پُر امن زندگی کفارِ مکہ کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھنے لگی،ان کی راتوں کی نیند اڑ گئی۔ اس لیے انہوں نے سوچا، کسی نہ کسی طرح غلامان مصطفیٰ ؐ کو ختم کرنا ہے۔ سازشوں پر سازشیں رچی گئیں۔ دسیسہ کاری سے کام لیا گیا۔ تجارت کے نام پر مدینے میں گھسنے کی تیاریاں کی گئیں۔
اب آئیے تاریخ کے جھروکے سے اس جنگ عظیم کے کچھ مناظر کا بھی معائنہ کرتے ہیں :17رمضان المبارک، جمعۃ المبارک کے دن جنگ بدر کی ابتداء ہوئی۔ ’’بدر‘‘ ایک گاؤں کا نام ہے، جہاں ہر سال میلہ لگتا تھا۔ یہ مقام مدینہ طیبہ سے تقریباً اَسی (80) میل کے فاصلے پر ہے، جہاں پانی کے چند کنویں تھے اور ملک شام سے آنے والے قافلے اِسی مقام پر ٹھہرا کرتے تھے (البدایہ والنہایہ)
قریش نے ہجرت کے ساتھ ہی مدینہ طیبہ پر حملے کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔اِسی اثناء میں یہ خبر بھی مکہ معظمہ میں پھیل گئی تھی کہ مسلمان قریش مکہ کے شام سے آنے والے قافلے کو لوٹنے جارہے ہیں اور اس پر مزید یہ کہ عمرو بن حضرمی کے قتل کا اتفاقیہ واقعہ بھی پیش آگیا، جس نے قریش مکہ کی آتش غضب کو مزید بھڑکا دیا، اور وہ آپے سے باہر ہوگئے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ان سنگین حالات کی خبر ہوئی تو آپؐ نے اپنے صحابہ کرام کو جمع کیا اور امر واقع کا اظہار فرمایا۔اور کفار مکہ کی خفیہ سازشوں مطلع کیا۔حضرت ابوبکرؓ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہایت جاں نثارانہ و فدایانہ تقریریں کیں۔ حضرت سعد بن عبادہ ؓ جو خزرج کے سردار تھے، اُنہوں نے عرض کی: ’’یا رسول اللہؐ! خدا کی قسم! اگر آپ حکم فرمائیں تو ہم سمندر میں کودنے کو بھی تیار ہیںاور پہاڑ کو بھی دریا کی طرح بہادینگے۔حضرت مقدادؓ نے کہا: ’’ہم موسٰیؑ کی اُمت کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ آپ ؐاور آپ کا ربّ خود جاکر لڑیں، ہم تو یہیں بیٹھے ہوئے ہیں بلکہ ہم آپؐ کے دائیں سے بائیں سے، سامنے سے اور پیچھے سے لڑیں گے۔ پھر آپ نے اعلان کیا کہ ہم لوگ واقعی آپ ؐکے تابعدار ہوں گے، جہاں آپؐ کا پسینہ گرے گا، وہاں ہم اپنا خون بہا دیں گے۔ آپؐ بسم اللہ کیجئے اور جنگ کا حکم فرمائیں، اِن شاء اللہ ہم ہی غالب ہونگے۔
حضور سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صحابہ کرامؓ کے اس جذبہ سرفروشانہ اور جوش ِایمانی کو دیکھا تو آپؐ کا چہرۂ اقدس فرط ِمسرت سے چمک اٹھا۔ پھر آپؐ نے اپنا چہرہ مبارک آسمان کی طرف اُٹھا کر ان سب کے لیے بارگاہِ خداوندی میں دعاء خیر فرمائی، اور ارشاد فرمایا: ’’خداوند قدوس نے مجھے قافلہ و لشکر میں سے کسی ایک پر فتح عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! میں ابھی سے کفار کے سرداروں کی قتل گاہ دیکھ رہا ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس جگہ فلاں کافر قتل ہوگا، اس جگہ فلاں کافر قتل ہوگا۔ آپؐ نے مقتولوں میں سے ہر ایک کا محل قتل بتا دیا۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ جہاں جہاں حضور سید عالمؐ نے فرمایا تھا، وہ کافر وہاں ہی قتل ہوا۔ (البدایہ والنہایۃ)
مؤرخین اس معرکہ کو ’’غزوہ بدر الکبریٰ‘‘ اور غزو?ہ ٔبدر العظمیٰ‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے لا ریب کلام پاک قرآنِ مجید میں اس معرکہ کو ’’یوم الفرقان‘‘ یعنی حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے دن یا فیصلہ کن دن کے نام سے تعبیر فرمایا ہے، یعنی یہ وہ دن ہے جب حق و باطل، خیروشر اور کفر و اسلام کے درمیان فرق آشکار ہوگیا اور اقوامِ عالم کو بھی پتہ چل گیاکہ حق کا علم بردار کون ہے اور باطل کا تابع دار کون ہے۔ چناںچہ قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور جان لو کہ تم جو مالِ غنیمت حاصل کرو تو اس کا پانچواں حصہ خاص اللہ کے لئے اور رسول کے لئے اور (رسول کے) رشتے داروں کیلئے اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے، اگر تم اللہ پر اور اس پر ایمان رکھتے ہو جو ہم نے اپنے خاص بندے پر فیصلہ کے دن اُتارا، جس دن دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئی تھیں اور اللہ ہر شے پر قادر ہے۔ (الانفال:41)
المختصر میدانِ کارزار میں مٹھی بھر صحابہ کرامؓ نے اپنی سرفروشی کا ثبوت پیش کیا اور آغاز سے لیکر انجام تک قوت ِایمانی، جذبہ ٔجانثاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کفار مکہ کو کیفرکردار تک پہنچایا۔ غرور کا سر ذِلت و رُسوائی کے ساتھ ہمیشہ کے لیے جھک گیا۔ صحابہ کرام نے فتح مبین حاصل کرکے پروردگار عالم کے سامنے سر بسجود ہوئے کہ ربّ نے نبی کریمؐ کی شبانہ روز دعائوں، صحابہ کرام کی سرفروشانہ قربانیوں کی لاج رکھ لی۔ انہیں مذکورہ باتوں کی بدولت فتح مبین حاصل ہوئی۔
اب آئیے ،ہم اس یادگار دن میں یہ عزم کریں کہ ہم بھی ان سرفروشان ایمان کی طرح اسلام اور ناموس پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اپنی جان ومال کی قربانی دیںگے اور نامساعد حالات کا شکوہ کئے بغیر ان سنگین حالات میں بھی اسلام کا دامن تھامے رہیں گے۔ انہوں نے فاقہ زدہ شکم اور بے سروسامانی کے ساتھ جن جذبات کا اظہار کیا ہم بھی اُنہیں کے جذبات سے چنگاری حاصل کرکے ایمان کے شمع کو روشن کریںگے۔ جب ہمارے اندر وہ جوش، وہ جذبہ اور وہ ولولہ رہیگا تو آج بھی خدا کی نصرت اور مدد ہمارے ساتھ ہوگی اور فرشتے ہماری مدد کے لیے آسمان سے اُتر سکتے ہیں جیسے کہ شاعر نے کہا ؎
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اُتر سکتے ہیں گردوں سےقطار اندر قطار اب بھی
<[email protected]>