محمد اسداللہ
ادیبوں، شاعروں اور ناقدین کی دنیا ہی کتابوں کی دنیا ہے ۔ان میں سے بعض ایسے خوش نصیب ہیں جو ہر سال ایک کتاب کو جنم دیتے ہیں ۔ایک صاحب کا دعویٰ ہے کہ ’میں تو چھ مہینے ہی میں ایک ناول لکھ لیتا ہوں‘ گویا قدرت کے تخلیقی پروگرام کو بھی پیچھے چھوڑ رکھا ہے ۔ کیازمانہ تھا کہ کتاب چھپوانا جوئے شیر لانے کے برابر تھا ۔ہر چند ادبی فر ہادوں کی اس زمانے میں بھی کمی نہ تھی ۔ بعض لوگوں کے بارے میں سنا کہ انھوں نے اپنا گھر بیچ کر یا بیگم کے زیورات فروخت کر کے اپنا مجموعۂ کلام زیورِ طبع سے آ راستہ کروایا۔ کتاب چھپواکر رسم ِ اجرا کر وانا اور اور کتابیں فروخت کر نا جس میں پہلی جلد ہزاروں میں فروخت ہوا کرتی ہے،ایک ہنر ہے ۔ ( کبھی بیچنے اور فروخت کرنے والے دونوں بھی جعلی ہوتے ہیں یعنی لوگوں کو کتاب خرید نے کی ترغیب دلانے کی خاطر یہ ڈراما کیا جاتاہے اور یہ کھیل سڑک کے کنارے پائے جانے والے جوے بازوںکے ٹولی سے مشابہ ہے )
کتابوں کے اجراکا جشن اب بھی منایا جاتا ہے۔اب اس میں یہ اضافہ ہوگیا ہے کہ کتاب خواہ نثر ہی میں کیوں نہ لکھی گئی ہو، اس کا اختتام ایک مشاعرے پر ضرور ہوتا ہے ۔اس کے بعد لذتِ کام و دہن کا اہتمام ہو ا کرتا ہے ۔ گویا لوگ کتاب پڑھ کر نہ سہی کچھ کھا پی کر ہی خوش ہولیں ۔ عمدہ کتابیں پڑھ کر مسرور ہونے والی اہلِ زبان کی پر جاتیاں اب معدوم ہوتی جارہی ہیں ۔ ان تقریبات میں بعض لوگوں کے لئے مشاعرہ اصل ہوتا ہے اور بعض کے لیے ضیافت ِ طعام ، کتاب کا اجراء تو ایک ضمنی سی چیز ہوتی ہے ۔
اسی قسم کے ایک جشن ِاجرا میں ایک صاحب بلند بانگ ڈکار لینے کے بعد فرمارہے تھے۔ ادب زبان کے چٹخارے کے علاوہ اور ہے کیا؟ ابھی پچھلے ہفتے ایک شاعر کا شکوہ ہم نے سنا جو مہمانوں پر جھلّا رہے تھے کہ جشنِ اجرا میں سارے مفت خورے بریانی اڑا کر چل دئے، کسی ایک نے کتاب نہیں خریدی۔‘کسی کا جوابی شکوہ بھی سنائی دیا کہ عجیب آ دمی ہے ! اپنی کتاب کا اجرا کروایااور ہمیں ایک کتاب تک نہیں دی ۔
یوں بھی اردو کتابوں کو نہ آ سانی سے پبلشر ملتے ہیں نہ رائلٹی ۔گویا ہر پڑھنے والوں کی یہ تمنا ہے کہ صاحبِ کتاب اپنا گھر لٹا کر کتابیں چھپوائے اور انھیں پمفلٹ کی طرح مفت تقسیم کرے ۔سچ تو یہ کہ اردو کی اکثر کتابیں سر مہ ٔ مفت نظر کی طرح تقسیم ہوتی ہیں ۔ اب چونکہ اکادمیوں اور سرکاری امداد سے کتابیں چھپوانا بہت آ سان ہوگیا ہے اور ایسی کتابیں جن میں زبان و ادب کے اصولوں کوایسے پاما ل کیا گیا ہو جیسے سواریاں ٹرافک رولس توڑتی ہیں ، یا جن کتابوں پر ہیرا پھیری ،فریب ، سَرقہ اور ڈاکہ جیسی وارداتوں کی دفعات نافذ کی جا سکتی ہیں، ا ن کتابوں کو اشاعت کے لیے امداد مل جاتی ہے اوربعدہُ انعام سے بھی نوازا جاتا ہے ۔
اردو کی کتابیں کون خریدتا ہے ؟ اکادیمی ،لائبریری ،ریسرچ اسکالرس ،اردو کے شائیقین وغیرہ ۔اس کے علاوہ جو تخلیق کار اپنی کتابیں خود چھپواتے ہیں ،دوستوں میں تقسیم کر دیتے ہیں ۔ اردو کے ان قلم کاروں کی ایک الگ دنیا ہے جو آ پس میں کتابیں تقسیم کرتی ہے اور اس قدیم زمانے میں جیتی ہے جب روپئے پیسے کا چلن نہیں تھا ۔یعنی آ پ کتاب چھپوائیں تو مجھے دیں اور میں چھپوائوں تو آ پ کو ۔ دو نوں کے درمیاں موہ مایا کا کوئی دخل نہیں ۔یہ کتابیں ان قلم کاروں کوخاص طور پر دی جاتی ہیں جن سے تبصرہ لکھوانا ہو یا دیگر ادبی فوائد متوقع ہوں ۔
بظاہر کتاب چھپوانے والا قلندر انہ شان کے ساتھ جیتا ہے اور یہ ظاہر کر تا ہے کہ وہ ادب سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا ۔ ادب کی تخلیق سے بطاہر کوئی خاص مالی منفعت تو حاصل نہیںہوتی لیکن کھلاڑی لیمو ں نچوڑنے میں مہارت حاصل کر لے تو انڈر ٹیبل بزنس کی طرح یہاں بھی کئی فوائد ہیں جو اندر ہی اندر حاصل کیے جاسکتے ہیں ، یہ کاروبار خاموشی کی ساتھ جاری رہتا ہے کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ اندر کیا گول مال ہے ۔لوک سمجھتے ہیں کہ یہ ادب نواز بندہ بڑے ادب سے ادب کی بے لوث خدمت کئے چلا جا رہا ہے بلکہ وہ خود بھی گاہے بگاہے یہ اعلان کر تا جاتا ہے کہ اس بندگی میں میرا بھلا نہ ہوا ۔مگر یہاں ساری خیر اندر ہی اندر حاصل ہوتی ہے جس کا علم بندے اور خدا کے سوا کسی کو نہیں ہوتا البتہ جب کچھ شیاطین اس انڈر ولڈ کی پول کھول دیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے ۔دنیا ئے ادب ایک صحرا نہیں نخلستان ہے ۔
(رابطہ،9579591149 )
[email protected]