غازی عرفان خان۔ گاندربل
اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات کا لقب دیا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے انسان کی رہنمائی کے لیے وقتاً فوقتاً پیغمبر بھی بھیجے، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج انسان وہ ساری تعلیمات بھول چکا ہے اور انتہائی حد تک انسانیت کی سطح سے گر چکا ہے۔ماہِ فروری میں بڈگام میں جو واقع پیش آیا، اس نے پوری دنیا کو چونکا دیا ،وہ محض ایک بیٹی ،بہن یا لڑکی کا قتل نہیں بلکہ پوری انسانیت کا قتل تھا۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔جس نے کسی انسان کو خُون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا، اس نے گویا تمام انسانون کو قتل کردیا۔ (سورۃ المائدہ آیت 32)چنانچہ جس بیٹی کو اللہ کی طرف سےانسان کے رحمت، عظمت اورنعمت ہے قرار دیا گیا ہے ،اُسی بیٹی ،بہن کے ساتھ آئے روز تشدد، زیادتی اورناانصافی کے واقعات پیش آتے ہیں بلکہ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ جیسے ہم اُس دورِ جاہلیت کو مات دے چکے ہیں ،جب بیٹیوں کو جنم لیتے ہی زندہ درگور کیا جاتا تھا۔ظاہر ہے کہ اس دورِ حاضرہ میں بیٹی کو زندہ جلایا جاتا ہے ،بے دردانہ طریقے پرقتل کرکے کئی حصوں میں بانٹ دیا جاتا ہے، زیادتیوں کے علاوہ جسمانی اور ذہنی طور پر ٹارچر کرکےاُسے خودکشی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔گزشتہ سال نومبر کے مہینے میں دہلی کے ایک عاشق نے اپنی ہی محبوبہ کا قتل کیا اور بعد میں اس کے جسم کے کئی ٹکڑے کر کے فرج میں رکھ دیا تھا۔
اسی طرح کی قتل کی واردات ڈیڑھ دو ماہ قبل ہمارے یہاں بڈگام کے سویہ بگ علاقے میں بھی رونما ہوچکی ہے۔جس بےدردی اور بے رحمی کے ساتھ اُس بہن کا قتل کیا گیا ،وہ پوری انتہائی دل دہلا دینے والا واقعہ تھا۔
آئے روز نہ جانے کتنے ہی اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں،اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ آخر اس طرح کے واقعات کیوں ہونے لگے ہیں اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟اس پر غور فکر کرنے کی ضرورت ہے۔کیا ان انسان اتنا گر چکا ہے کہ اسے دوسرے انسان کی زندگی کی قدر و قیمت نظر ہی نہیں آتی؟کیا اس کی انسانی جبلت ختم ہوگئی ہےیااُس کی فطرت میں درندگی نے جنم لیا ہے؟ ابھی حال ہی میں ضلع بارہ مولہ کے سوپور علاقے میں ایک بیٹے نے اپنی ہی ماں کا قتل کیا۔جبکہ پولیس کی تفتیش کے مطابق وہ قاتل بیٹا منشیات کی لت میں مبتلا ہے۔
ایک سروے کے مطابق جموں و کشمیر میں تقریباً ایک ملین لوگ منشیات میں ملوث ہیں۔ وادی کشمیر میں اس طرح کے واقعات رونما ہونا بدبختی کی بات ہے کہ ہمارے نوجوان کس قدر تباہی کی طرف گامزن ہیں۔یاد رہے کہ اسی طرح کا ایک واقعہ چار ماہ قبل ضلع انت ناگ میں بھی پیش آیا تھا۔ جہاں ایک سگے بیٹے نے پیسوں کی لالچ میں اپنی ہی والدہ کا قتل کیا تھا۔اُس بد بخت کے بارے میں یہی کہا گیا کہ وہ بھی منشیات کے استعمال کا عادی تھا۔ ضلع کپوارہ میں ایک کمسن بچی کو بے دردی کے ساتھ گلا کاٹ کر قتل کر دیا گیا۔ اُس وقت وہ بچی کس قدر تڑپی ہوگی،لرزہ طاری ہوجاتا ہے، اور جب اس کی لاش کو برآمد کرکے والدین کے سپرد کی گئی تو اُن پر کیا بیتی ہوگی ؟
ان بہیمانہ وارداتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے مسلم معاشرے میں کس حد تک اخلاقی گراوٹ اور درندگی آچکی ہے۔
اسلام نے عورت کو ایک مقام عطا کیا ہے۔ عورت کو نبی کریم ؐ نے وہ مقام دیا کہ اگر یہ بیوی ہے تو دنیا کی سب سے قیمتی دولت ہے، چنانچہ ارشادِ نبوی ہے : ’’یہ دنیا ساری مال و متاع ہے اور دنیا میں سے سب سے قیمتی چیز نیک بیوی ہے ۔(نسائی، ابن حبان، صحیح الجامع) ۔ عورت اگر ماں ہے تو فرمایا،’’ اس کے قدموں کے نیچے جنت ہے ‘‘ جیسا کہ صحیح الجامع میں نبی کا ارشاد ہے۔ ’’بہن یا بیٹی ہے تو جہنم کی راہ میں دیوار ہے‘‘۔ چنانچہ صحیح بخاری و مسلم اور سنن ترمذی میں نبی اکرم نے فرمایا ہے :
’’ جو شخص اپنی دو بیٹیوں( یا بہنوں) کو تربیت دے کر انکی شادی کردے ،اسلامی تربیت پر اللہ رب العزت ان بیٹیوں (بہنوں)کو اس کیلئے جہنم کی راہ میں دیوار بنادے گا‘‘۔ (مسلم، ترمذی)لیکن افسوس صد افسوس! آج ہمارے معاشرے کے بیشترلوگ عورت کو بوجھ سمجھتے ہیں اور اُنہیں مختلف قسم کی زیادتیوںکا شکار بناتے ہیں۔بد نظری اور جہیز کی لالچ سے ہم نے کئی معصوم بہن بیٹیوں کو خودکشی کرنے پر مجبور کیا ہے۔دورِ جہالت میں معاشرتی و اخلاقی بیماری، تعلیم و تربیت کا فقدان تھا، ظلمت وجہالت عروج پر تھی، لیکن کے اس ترقی یافتہ دور میںہم پھر دورِ جاہلیت کی طرف بڑھ چکے ہیں۔
افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تو
دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات
(مضمون نگار، سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبہ دینیات میں ماسٹرز کر رہے ہیں)
[email protected]
�����������������������
افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تو