مولانامحمد عبدالحفیظ اسلامی
اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھنے والے بندوں سے اُن کا ربّٰ بہت زیادہ محبت رکھتا ہے۔جس طرح ہمیں اپنی جائدادیں،عمارتیں،سواریاں محبوب لگتی ہیں اور ہمیں ان کی درست حالت پسند ہے ،اُسی طرح انسانوں کا خالق ومالک ، انسانوں کو درست حالت میں دیکھنا چاہتا ہے۔ جس طرح ہم دنیاوی چیزوں کو درست حالت میںرکھنے کیلئے متوجہ رہتے ہیں ،یہی حال مخلوقات کے خالق و مالک کابھی ہے۔ وہ انسانوں سےستر ماووں سے زیادہ پیار کرتا ہے اور ا س کے جو فرمانبردار بندے ہوتے ہیں ،اُن سے اور بھی زیادہ پیار کرتا ہے۔اُسی محبت کےتقاضے تحت اُس نے وقت کے انبیاء کو ماننے والوں اور نبی آخری الزماںصلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کیلئے ارتقاء کا سامان یوں مہیا کردیا کہ اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! تم پر رمضان کے روزے فرض کردیئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے کے انبیاء کے پیروئوں پر فرض کردیئے گئے تھے تا کہ اس کے ذریعہ تمہارے اندر تقویٰ کی روش پیدا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ جو بندہ جس قدر اللہ سے ڈر کر اور ا س کی نافرمانی کے انجام بد سے خوف کھا کر زندگی بسر کرے گا ،وہ اللہ کے نزدیک محترم و مکرم قرار دیا جائے گا۔ چنانچہ سورہ الحجرات میں یہ بات ارشاد فرمائی گئی کہ اِنَّ اَکرَمَکُمْ عِند اللّٰہِ اَتقٰکُم۔ دوسری اہم چیز یہ ہے کہ اللہ نے اہل ایمان کو خیرامت کے اونچے مقام پر سرفراز فرمایا۔ ظاہر ہے کہ اس اونچی ذمہ داری کو ادا کرنے کیلئے اس امت کی تیاری بھی ضروری ہے۔ سب سے پہلی چیز اللہ کے حکم کے سامنے جھک جانا،فکر و نظر میں وسعت،خیالات میں پاکیزگی ،نصب العین میں استقامت،توکل علی اللہ اور صبر کے علاوہ انابت علی الاللہ کی صفات اُمّت ِ خیر کیلئے ضروری چیزیں ہوتی ہیں۔خیر کیلئے برپا کی گئی امت کی روحانی تربیت کا نام ’’صوم ‘‘ ہے، جو انہیں ارتقائی منازل طے کرنے میں ایک نسخہ اکثیر کا کام کرتا ہے، یہ نسخہ اس حکیم و دانہ کا تجویز کردہ ہے جو ساری کائنات کا خالق و مالک ہے، جو اپنے بندوں میں پائی جانے والی بیماری اور اس کے علاج سے پوری طرح واقف ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ ااپنی حکمت کے تحت سال میں ایک مرتبہ ماہ صیام لاتا رہتا ہے تا کہ اہل ایمان کی اچھی طرح مشق کروائی جائے ۔
روزہ کے ذریعہ سے امت خیر کے افراد کا اپنے پورے وجود کے ساتھ تزکیہ مقصود ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ روزہ صرف پیٹ کا یا کسی ایک خاص عضو کا نہیں ہوتا بلکہ پورے جسم کا ہوتا ہے۔ اس سلسلہ میں نبی کریمؐ کا ارشاد ہمارے سامنے یوں آتا ہے۔حضرت ابو ہریرہؓسے مروی ہے کہ ’’ ہر گندگی کو دور کرنے کیلئے اللہ نے کوئی نہ کوئی چیز بنائی ہے اور جسم کو روحانی گندگی اور بیماریوں سے پاک کرنے والی چیز روزہ ہے اور روزہ آدھا صبر ہے۔‘‘
خیراُمت کے لقب سے نوازی گئی اُمّت کے افراد کی زندگی کے ہر پہلو سے خیر وخوبی کے مناظر عام طور پر ظاہر ہوتے رہیں، تا کہ ان کی شب و روز کی حیات کو دیکھ کر لوگ اسلام کی تصویر جان لیں اور اس کی حقانیت کی شہادت دینے والے بن جائیں۔ اس طرح روزہ اہل ایمان کو صبر سکھاتا ہے،خیر امت کے منصب پر فائز گروہ کیلئے صبر ایک انتہائی اہم چیز ہے کیونکہ تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر و تومنون باللہ کا عمل ایک ایسا عظیم کام ہے، جس میں اللہ کے باغیوں کے ساتھ ہمیشہ ایک کشمکش کا اور مخالفت کا سامنا کرنا ہوتا ہےاور اللہ پر ایمان لانے کے بعد ہر وقت شیطان ملعون سے بھی سابقہ رہتا ہے، لہٰذا اپنے ایمان پر ثابت قدمی اور باطل گروہوں کے ہر ہتھکنڈے سے مقابلہ کیلئے جو چیز اہم ہے وہ ہے صبر۔صبر کے معنی صرف یہی نہیں ہے کہ حالات ساز گار ہو تو ہی دین کا کام کیا جائے ۔صبر تو یہ ہے کہ ہر حال میں کلمہ حق کو بلند کرنے اور کلمات کفر کو پست کرنے کیلئے جب بھی موقع مل جائے، ایک لمحہ بھر کیلئے بھی اسے خالی نہ چھوڑا جائے۔جب اہل ایمان اپنا نصب العین اقامت دین بنا لیتے ہیں اور اپنے خیر امت ہونے کا حق ادا کرنے کیلئے میدان عمل میں اُترتے ہیں تو ہر طرف سے اول اول مخالفت ہوتی ہے اور اس مخالفت کا حکیمانہ انداز میں جواب دیاجاتا ہے تو اس میں سب سے بڑی چیز صبر ہی کی ہوتی ہے۔خدا کے باغیوں اور نافرمانو ںکا یہ مزاج ہوتا ہے کہ حق کے مقابل اس کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں ہوتا، سوائے تکرار اور بے دلیل باتوں کے۔ جب یہ بھی ختم ہوجاتی ہیں تو وہ لڑائی جھگڑے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔گالی گلوچ ،مارپیٹ ،الزام تراشی،بُرے القاب سے نوازہ جانا، یہ ایسا موقع ہوتا ہے کہ اس میں داعی گروہ،خیر امت کے اعلی منصب پر فائز لوگ اور اہل ایمان کی سخت آزمائش ہوتی ہے۔ اگر یہ کسی بھی طرح کی دھونس کی پرواہ کئے بغیر اور گالی کا جواب گالی سے نہ دیتے ہوئے احسن طریقے کو اپنالے ،تو یہ ان کی کامیابی ہے اور اس کا سر چشمہ صبر ہے۔ باطل گروہ کا مذکورہ بالا ہتھکنڈہ جب داعی گروہ کے سامنے کند پڑ جاتا ہے تو پھر ایک نئے طریقے سے خیر امت کے افراد کو اور مومنانہ کردار اور داعیانہ اوصاف کے ساتھ زندگی بسر کرنے والوں کو مختلف لالچ دی جاتی ہے یعنی جب لوہے کی زنجیر کارگر ثابت نہ ہو تو پھر یہ لوگ سونے اور چاندی کی زنجیر میں جکڑنے کی کوشیش کرتے،اس طرح کے موقع پر بھی اہل ایمان اپنے دین و ایمان کا سودا نہیں کرتے اور اپنے مقصد وجود اور نصب العین پر کار بند رہتے ہیں۔کیونکہ انہو ںنے رمضان المبارک کے ماہ مقدس میں ایسی تربیت حاصل کی کہ حالت روزہ میں محض اللہ کے حکم پر حلال و طیب چیز کو بھی چھوڑ دیا تھا اور جب ان کے ساتھ کوئی لڑائی جھگڑے پر آمادہ ہوا اور گالی گفتار پر کمربستہ ہوا تو یہ صاف طور پر کہہ دیا تھا کہ بھائی میں روزے سے ہوں ۔علاوہ ازیں روزہ کے ذریعہ اللہ تبارک تعالیٰ کے حاضر و ناظر ہونے کا احساس جاگ اٹھتا ہے جو ایک اہل ایمان کیلئے ضروری ہے۔ کیونکہ جہاں پر اللہ کے حاضر و ناظر ہونے کا احساس ختم ہوا یا پھر اس میں کمی واقع ہوگئی تو پھر انسان شیطان کے ہتے چڑھ جاتا ہے، یہی وہ احساس ہے جو روزے کے ذریعہ اہل ایمان روحانی ارتقاء کا سامان فراہم کرتے ہیں اور روزے کا مقصود بھی یہی ہے۔ مثلاً روزہ کی حالت میں انسان اگر کچھ چھپ چھپاکر کھا پی لے تو اسے دیکھنے والا کوئی نہیں رہتا لیکن ایک روزہ دار ایسا عمل ہر گز نہیں کرتا ،کیونکہ روزے کے ذریعہ خیر امت کے افراد اس اونچے مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ کوئی دیکھے نہ دیکھے،خدا کی ذات کا ان پر نظر رکھا جانا انہیں ہمیشہ یاد رہتا ہے۔ سحر و افطارکا جو بھی وقت متعین ہوتا ہے، اس کی پابندی سب لوگوں پر لازمی ہے، اپنی مرضی و سہولت کا اس میں ہر گز کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دے رکھا ہے کہ وکُلُوا وَاشرَبْوا حَتَّیٰ یَتَبَیَّنَ لَکُم الخَیط الَابیَضْ مِنَ الخَیطِ الاَسوَدِ مِنَ الفَجرِ ثُمَّ اَتِمّْوا الصِّیَامَ اِلَی اللَّیلِ۔ اس طرح سارے لوگ ایک ہی وقت میں سحر کرتے ہیں اور وقت متعینہ پر ختم کرتے اور دن بھر روزہ رکھتے ہوئے شام کے ایک مقررہ وقت پر افطار کرتے ہیں گویا کہ یہ ایک اجتماعیت کا مظاہرہ ہے اور نظم کی پابندی ہے جو اہل ایمان سے کروائی جارہی ہے۔
اس طرح رمضان کے روزے نظم کا پابند بناتے ہیں اور اجتماعیت کادرس دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیبؐ کے ارشادات کا پابند بناتے ہوئے بدعات سے بچنے کی تعلیم بھی دیتے ہیں۔ اس طرح خیرامت کے افراد میں نکھار پیدا ہوتا ہے تا کہ ایک صالح معاشرہ وجود میں آئے، علاوہ ازیں روزہ کے ذریعہ لوگوں کے اندر خدمت خلق کا جذبہ ابھر کر آتا ہے اور روزہ کا مطلوب بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعہ معاشرے میں ہمدردی کا رجحان پیدا ہو تا کہ غریب و نادار بیوہ و لاچار، یتیم و بے سہارا لوگوں کیلئے راحت رسانی ہوتی رہے اور دعوت الخیر کا کام آگے بڑھتا رہے۔اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقات،و خیرات رشتہ داروں کی مدد اور عام مسلمانوں اور انسانوں کی خدمت کیلئے بہت زیادہ زور دیاہے اور اس کے صلہ میں جو اجر عظیم اللہ کی طرف سے عطا کیا جائے گا ۔اس کی نشاندہی بھی فرمادی تا کہ لوگ خیرات کے عمل میں سبقت لے جائیں۔ اس طرح رمضان مبارک میں دن کے روزے کے ذریعہ خیرات کی اُٹھان ہوتی ہے پھر اس سے آگے رات کا قیام بھی ضروری قرار دیا جسے ’’قیام لیل‘‘ کہا جاتا ہے۔ یوں تو عام دنوں میں نماز پنجگانہ تو ہر مسلمان کیلئے لازمی شرط ہے اور یہ چیز ایمان و کفر میں امتیاز پیدا کرنے والی ہے لیکن اہل ایمان کو مزید روحانی قوت عطا فرمانے کیلئے تا کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے رابطہ میں مزید اضافہ ہو اور اس کا قرب حاصل ہو،اس کے لئے یہ طریقہ بتلایاگیاکہ رمضان کی راتوں میں تراویح پڑھی جائے اور اس میں قرآن حکیم کو خوب پڑھا اور سنا جائے تا کہ اس کے (دستور حیات کے ) احکامات پر عمل کیا جائے جو اللہ نے اپنے بندوں کیلئے ہدایت کا سامان فراہم کرنے کیلئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل فرمایا۔ لہٰذا اس کی تلاوت کی جائے، اسے سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے اور بندگان خدا تک اسے پہنچایا جائے تاکہ عامۃ الناس کو حق و باطل میں فرق محسوس ہوگا۔ اس وقت قرآن کی دعوت کو عام کرنے کی سعی ہورہی ہے اور ا س کے اچھے نتائج ظاہر ہورہے ہیں، لیکن یہ کام خلفاء راشدین صحابہ کرامؓ کے دور میں جس تیزی کے ساتھ آگے بڑھا، اب وہ کیفیت پائی نہیں جاتی ۔شائد یہ ہماری تربیت میں کچھ کمی واقع ہوگئی ہے یا پھر ہم قرآن حکیم کو صرف ثواب حاصل کرنے کی حد تک محدود کردیا ہے یا پھر اس پر کچھ خواص کو اجارہ داری حاصل ہوچکی ہے یا بعض لوگوں نے عوام کی نکیل اپنے ہاتھ میں رکھنے کیلئے قرآن حکیم کو سمجھ کر پڑھنے کی طرف راغب نہیں کیا اور کئی شرائط لگادی بلکہ تطہیر نفس و تزکیہ نفس کے خود ساختہ اور غیر مسنون طریقوں کو اس کی جگہ رائج کردیا،جو ایک اصلاح طلب چیز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اصلاح نفس،ارتقاء باطن و ظاہری حسنات کے حصول کیلئے قرآن مجید و فرقان حمید جیسی کتاب اور رسول اللہؐ کی سنت اور آپ ؐکے تربیت یافتہ صحابہ کرام ؓ کی سیرت سے بڑھ کر کوئی دوسری چیز کارگر نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ قرآن مجید لوگوں کو ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے۔ گمراہی سے بچاتا ہے راہ ہدایت دکھاتا ہے اور اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات گرامی اللہ تعالیٰ کے منشا کو واضح کرتے ہیں اور اللہ کی رضا و خوشنودی تک پہنچادیتے ہیں۔ یہ قرآن حکیم کا ہی کرشمہ تھا اور رسول اللہ ؐ کی تعلیمات ہی کا نتیجہ تھا کہ عرب کے جاہل لوگ جو اپنی لڑکیوں کوزندہ گاڑدیا کرتے تھے وہ لڑکیوں کی قدر کرنے والے بنے۔ زنا، چوری، ڈاکہ زنی،یتیم کا مال کھانا،بیواوں پر زبردستی قابض ہونا، شراب خوری، جوا، آپسی لڑائیاں، قتل و خوں غارت گری ان ساری چیزوں کے خاتمہ کیلئے قرآن ہی وہ بنیادی چیز تھی جس نےان کے اندر صالح تبدیلی واقع کردی اور رسول اللہؐ کی تعلیمات نے ہی ان کی زندگیوں میں ایک انقلاب عظیم برپا کردیا۔ الغرض رمضان المبارک ہمیں یہ موقع عطا کرتا ہے کہ ہم اس ماہ کی رحمتوں و مغفرتوں اور جہنم سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ساعتوں سے فائدہ اٹھائیں اور قرآن حکیم کی خوب تلاوت کریں۔ ہمارے علماء کرام و مفسرین نے دین کی باتوں کو عام کرنے کیلئے قرآن حکیم کے تراجم کردیئے ہیں اور اس کے مفاہیم کو عام کرنے کیلئے آسان تفسیریں کرچکے اور الحمد اللہ جماعت اسلامی نے ملک کی تقریباً ہر زبان میں قرآن حکیم کے تراجم کرچکی ہے، ان تراجم کو برادران وطن تک پہنچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
(رابطہ۔9849099228)
[email protected]
رمضان۔ خیر ِ اُمّت کیلئے روحانی ارتقاء کا بہترین ذریعہ