ابراہیم آتش
ریاست کے انتخابات ہوں یا ملک کے عام انتخابات ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں متحرک ہو جاتی ہیں۔لازمی بات ہے ،اس دوڑ میں مسلم سیاسی پارٹیاں کس طرح پیچھے رہ سکتی ہیں۔کوئی بھی شخص کسی پارٹی کو انتخابات میں حصہ لینے سے روک نہیں سکتا ۔ ہر سیاسی پارٹی جمہوری حق و دستور کے مطابق انتخابات میں حصہ لے سکتی ہے۔سوال یہ ہے کیا مسلمانوں کے لئے قومی سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ اپنے مقاصد پورے ہو رہے ہیں؟ مسلمان جس طرح کی خواہش رکھتے ہیں، کوئی بھی قومی سیاسی پارٹی سے مسلمانوں کی وہ خواہش پوری کرسکتی ہے؟ ایک زمانہ تھامسلمانوں کی خوشنودی اور ہر خواہش کا لحاظ رکھا جاتا تھا، اب مسلمانوں کے لئے بس ایک آپشن ہے ، وہ یہ کہ مسلمانوں سے کون سی قومی سیاسی پارٹی کم سے کم نفرت رکھتی ہے یا دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ کونسی پارٹی مسلمانوں سے دشمنی کم رکھتی ہے۔
مسلمان اس ملک میں سیاسی پارٹی کے ذریعہ اقتدار میں آئیں گے، ایساتو ممکن ہی نہیںاور نہ ہی مستقبل میںایسا ہونے کی کوئی صورت نظر آرہی ہے۔ آج ملک میں جس طرح کا ماحول بنا ہوا ہے، اس کو دیکھ کر لگتا ہے مسلمانوں کو اچھوت کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ یہ صرف ایک پارٹی کی بات نہیں، ملک کی تمام قومی سیاسی پارٹیوں کا طرز عمل ایسا ہی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ آج ملک کی بیشتر سیاسی پار ٹیاں مسلمانوں کا نام لینے سے کتر ارہی ہیں تو بھلا اُن سے کیا کی جاسکتی ہے۔اس کے باوجود مسلمانوں کو نااُ مید ہونے کی ضرورت نہیں۔ اقتدار میں شمولیت کے حصول کے لئے آج بھی راستے موجود ہیں،مگر اس کے لئے مسلمانوں کی سیاسی پارٹیوں کو اور ملکی مسلمانوں کو دور اندیشی ،حکمت اور اتحاد کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کی سیاسی پارٹیوں میں کچھ قابل ذکر نام ہیں۔ مسلم لیگ جس کی مضبوط پکڑ ہم کیرالا میں دیکھ سکتے ہیں۔ مسلم لیگ کے 25 ایم یل اے اکثر وہاں کی حکومت میں شامل رہتے ہیں ۔آل انڈیا یونائٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ جس کے سربراہ بدرالدین اجمل ہیں،آسام کی 126 رکنی اسمبلی میںان کے 16ایم یل اے ہیں ۔آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین جس کا تعلق تلنگانہ سے ہے ،وہ حیدر آباد تک ہی محدود ہو کررہ گئی ہے،اور بہت کوششوں کے باوجود ابھی تک حیدر آباد سے باہر نکلنے میں کامیاب نہیں ہو پائی ہے، تلنگانہ میں وہ ٹی آر یس کے ساتھ ہے۔ا یس ڈی پی آئی اور ویلفیر پارٹی آف انڈیا اور اسی طرح پیس پارٹی اور علماء کونسل کا کوئی ایم یل اے نہیں ہے۔
کسی بھی سیاسی پارٹی کے لئے ایک ایم یل اے کی سیٹ جیتنا کتنا مشکل ہوتاہے، اس کی مثال ہم کیرالا اورتامل ناڈو میں دیکھ سکتے ہیں۔ بی جے پی ملک میں اقتدار میں ہونے کے باوجود ،وہاں ایک یا ایک سے زائد سیٹ لانے میں کئی بار نا کام ہوئی ہے۔ اسی طرح کمیونسٹ پارٹی بہت سی ریاستوں میں اپنے امیدوار کھڑا کرتی ہے اور کئی ریاستوں میں اس کا کھاتہ بھی نہیں کھل پاتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے ،مسلمانوں کے لئے سمجھنا ضروری ہے،خصوصاً اُنہیں جو اِن مسلم سیاسی پارٹیوں کے کرتا دھرتا ہیں۔ بی جے پی اپنا ایک ایم یل اے نہیں جیت پاتی ہے یا کمیونسٹ پارٹی اپنا کھاتہ نہیں کھول پاتی ہے تواس کا مسلمانوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا،اگر مسلم سیاسی پارٹیوں کے ایم یل اے وہاں سے نہیں جیت پاتے، تواس کا اثر مسلمانوں پر پڑتا ہے،اس بات کو بھی سمجھنا بہت ضروری ہے۔ یہ مسلم سیاسی پارٹیاں کسی ہندو اکثریت والے علاقے میںاپنا امیدوار کھڑا نہیں کرتیں بلکہ مسلم اکثریتی حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑا کرتی ہیں،جہاں پر پہلے سے کوئی مسلم امیدوار کسی قومی سیاسی پارٹی سے الیکشن لڑ رہا ہوتا ہے یا پھر تین چار مسلم سیاسی پارٹیوں کے امیدوار میدان میں ہوتے ہیں،جس کی وجہ سے اکثر کسی اور پارٹی کا امیدوار کو فائدہ ملتا ہے۔ بدرالدین اجمل کی پار ٹی ا ٓسام میں16 ایم یل اے رکھنے کے باوجودملک بھر میں اپنے امیدوار نہیں کھڑا کرتی ہے، مسلم لیگ بھی ملک میں سب سے زیاد ہ ایم یل اے رکھنے کے باوجود ملک کی سرخیوں میں نظر نہیں آتی۔ ایم آئی ایم تلنگانہ میں صرف سات ایم یل اے رکھتی ہے پھر بھی پورے ملک میںہنگامہ نظر آتا ہے ،جہاں الیکشن ہو وہاں ایم آئی ایم حاضر نظر آتی ہے۔ ووٹروں کا پولارائز دونوں جانب سے بھر پور ہوتا ہے۔ ایم آئی ایم خاص کر ان مسلم علاقوں کو اپنا محور بناتی ہے، جہاں سے کسی سیکولر پارٹی کا امیدوار مسلسل کامیاب ہو رہا ہوتا ہے۔
میں مسلم سیاسی پارٹیوں کے الیکشن میں حصہ لینے کا مخالف نہیں ہوں مگر ان کے طریقہ کار سے متفق نہیں ہوں۔یس ڈی پی آئی، ویلفیر پارٹی،پیس پارٹی ،علماء کونسل ،مسلم لیگ ،ایم آئی ایم اور اے آئی یو ڈی ا یف سے گذارش ہےکہ وہ اپنی جذباتی سیاست سے پرہیز کریں۔ جہاں مسلمانوں کی آبادی نظر آئے وہاں اپنے امیدوار کھڑا کرنے کی کوشش ترک کریں، جذباتی سیاست کے بجائے زمینی سیاست میں قدم رکھیں۔ پہلے ان حلقوں میں اپنے پنچایت اوربلدی ا نتخابات میں حصہ لیں، تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ ہم کتنے پانی میںہے۔آپ کو معلوم ہونا چاہئےکہ جہاں آپ ایک بھی کارپوریٹر نہیں جیت سکتے ہیں تووہاںسے ایم یل اے جیتنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، آپ کی تمام تر کوششیں رائیگاں جائے گی۔ اگر مسلمانوں کی کوئی پارٹی تیسری بار الیکشن میں حصہ لے رہی ہے تو اس کا مطلب ہےکہ اس کے پاس دس سال کا تجربہ ہے اور اگر کوئی پارٹی پانچویں بار الیکشن میں حصہ لے رہی ہے تو اس کے پاس بیس سال سے زائد کا تجربہ ہوگا۔ یقنناً ان پارٹیوں کو تجربہ کا فائدہ ہوا ہوگا،ان کا ووٹ فیصد بھی بڑھا ہوگا اور پنچایت اور بلدی انتخابات میں ان کے ارکان کی تعداد بڑھی ہوگی۔ تجربہ تو یہی بتاتا ہے کیونکہ بیس سال میں کئی پارٹیاں اپنے بل بوتے پر ریاستوں میں حکومتیں بناتی ہیںمگر جب حقیقت میںان مسلم پارٹیوں کا جائزہ لیتے ہیں توحیرت ہوتی ہے۔ ایم آئی ایم تلنگانہ میں60 سال سے سات ایم یل اے کیرالا میں 75 میں پچیس ایم یل اے کے آس پاس ، اے آئی یو ڈی ا یف حالانکہ نئی پارٹی ہے، ان دونوں سے اچھا مظاہرہ کہا جا سکتا ہے۔ ا یس ڈی پی آئی اور ویلفیر پارٹی بلا شبہ اچھی تنظیمیں ہیں،مسلمانوں کے بشمول تمام لوگوں کے لئے ایمانداری سے کام کر رہی ہیں،ان کی اس کار گزاری کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ انتخابات میں حصہ لینے کا جو طریقہ اختیار کیا ہے، وہ تمام لوگوں کو نا امید کرتا ہے۔ ویلفیر پارٹی کو انتخابات میں حصہ لینے کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہئے ،زمینی سطح پر ویلفیر پارٹی کا نام و نشان نہیں ہے۔ایس ڈی پی آئی ایک طاقتور پارٹی بن کر اُبھر رہی ہے اور اس کے ساتھ مسلمانوں کے علاوہ دوسرے لوگ بھی جڑ رہے ہیں، اس لئے یس ڈی پی آئی اگر انتخابات میں سنجیدگی سے حصہ لینا چاہتی ہے تو بلدی انتخابات میں اپنے کچھ کارپوریٹروں کو کامیاب کرائیں، وہی اس کے لئے بنیاد ہوگی۔ اس کے بعد وہ ایم ا یل اے میں حصہ لے،تاکہ کامیابی ملے۔ اس طرح کی کوشش صرف یس ڈی پی آئی کے لئے نہیں بلکہ ایم آئی ایم مسلم لیگ کو بھی کرنی چاہئے، جہاں مسلمانوں کے ووٹرس نظر آئیں وہاں کود پڑنے سے ان پارٹیوں کو کوئی فائدہ ملنے والا نہیں ہے۔ ماضی کے تمام ریکارڈس نکال کر دیکھ لیں،جب تک آپ کے پاس زمینی سطح پرووٹر نہ ہوں گےتب تک کامیابی ناممکن ہے۔یہ بات ان تمام سیاسی پارٹیوں پر بھی صادق آتی ہے جو قومی سیاست کا حصہ ہیں۔ ایم آئی ایم کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ حیدر آباد مہا نگر پالیکا میںایم آئی ایم کے چوالیس کارپورریٹر ہیں، ان کی بدولت آج وہاں ایم آئی ایم سات ایم یل اے جیت پاتی ہے۔ مسلم لیگ کا اگر سروے کریں تو کیرالا میں وہاں کے میونسپلٹیوں میں مسلم لیگ کی اکثریت ملے گی، اس سے ظاہر ہوتا ہے ایم یل اے کی اصل طاقت اس حلقے کے کاونسلروں میں ہے۔ اس کے باوجود ایم آئی ایم اور مسلم لیگ ایسی جگہ اپنے امیدوار اُتارتے ہیں جہاں ان کا ایک بھی کاونسلر نہیں ہوتا۔ اس پالیسی پر اگر کوئی بھی پارٹی عمل نہیں کرتی ہے، ووٹروں کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ ان کا مقصد الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا نہیں،بلکہ کسی کو ہرانا نہیں بلکہ کسی کو جتانا ہوتا ہے۔ رابطہ۔ 9916729890