سید مصطفیٰ احمد
اب جبکہ سرماکی طویل تعطیلات کے بعد اسکولوں میں درس و تدریس کا کام حسب روایت پھر سے شروع ہوچکا ہے تو نہ صرف دن بھراسکولوںبچوں ،طلبا و طالبات کی پہل پہل سے تعلیمی اداروں میں، بلکہ صبح و شام شہر ودیہات کی سڑکوں اور گلیوں میں بھی رونق لوٹ آئی ہے۔واقعی یہ خوشی کی بات ہے کہ طلباء و طالبات قریباً تین مہینےکے بعد خوشی اور دلچسپی کے ساتھ حصول تعلیم کی جانب رواں دواں ہیں۔رنگ برنگے مختلف اسکولی وردیوں میں ملبوس دُبلے پتلے معصوم اور خوبصورت چہروں کو دیکھ کر انسانی دِلوں کو ایک لطیف راحت محسوس ہوتی ہے۔آخر کیوں نہ ہو!ہماری آج کی یہ معصوم نسل ہی تو ہمارا کل ہے ،ہمارا مستقبل ہے۔ مگر بات پھر وہیں پر آکر اٹک جاتی ہے کہ کیا واقعی اسکولوں کے کھلنے کے بعد علم کے دروازے بھی کھُل گئے ہیں یا نہیں؟ظاہر ہے کہ ہمارے یہاں ناموافق تعلیم کا جورُجحان عام ہے،اُس کے تحت تو اسناد حاصل کرنے کو ہی تعلیم کا نام دیا گیا ہےاوراول پوزیشن حاصل کرنے کو ہی تعلیم کا اصل مقصدقرار دیا گیا ہے۔ سو فیصد نمبرات حاصل کرنے کے لئے طلباء کو اگر خدانخواستہ سولی پر بھی چڑھنا پڑے، تو اس میں کوئی عار کی بات محسو س نہیں کی جاتی ۔بَس! نمبرات کی کثرت درکار ہوتی ہے۔ اس تعلیمی رُجحان سے ایسی نوجوان تعلیم یافتہ نسل پیدا ہورہی ہے جو درحقیقت اپنے آپ سے بھی ناآشنا ہوتی ہیں اور زندگی کے نشیب و فراز کے ساتھ ساتھ کئی دیگر دوسرے دُنیوی،دینوی معاملات سے بھی ناواقف ہوتی ہے۔
تعلیمی ادارے کام کاج میں مصروف ہوگئے ہیں ،مدارس بچوں سے بھر ے پڑے ہیںاور ان میں زیر تعلیم طلباء و طالبات تواتر کے ساتھ روایتی طرزو طریقے پر ہی علم حاصل کررہے ہیںاور اپنی تعلیم مکمل کرکے پھر ایک بار بے روز گاروں کی لسٹ کو لمبی بناتے رہیں گے۔گرچہ یہ سلسلہ ایک لمبے عرصے سے چلا آرہا ہے،پھر بھی یہ سلسلہ جاری و ساری رہ کر آگے بڑھتا جائے گا،جبکہ زمینی سطح پر کوئی بھی نمایاں تبدلی آنے کے آثار کہیں بھی نظر نہیں آرہے ہیں۔جس کے باعث یہی کہا جاسکتا ہے کہ اب یہ تعلیمی ادارے،منتظمیں کے لئے محض پیسے کمانے کے ذرائع کے سِوا کوئی معنیٰ نہیں رکھتے ہیں۔ معمولی جائزہ لیجئے توکشمیر میں ہر جگہ تعلیمی اداروں کی بھرمار نظر آرہی ہے مگر’’ تعلیم ‘‘کہیں بھی نظرنہیں آرہی ہے۔ان تدریسی اداروں میں کام کرنے والے اور ان اداروں میں علم حاصل کرنے والے طلباء و طالبات تعلیم کے اذہان میں یکسان طور پر ایک ہی بات ہوتی ہے کہ کسی بھی طرح اور کہیں بھی کوئی اچھی نوکری حاصل کرکے پیسے کمائےجائیں۔ اب تو یہ دعوے بالکل جھوٹے ثابت ہورہے ہیں کہ علم کا مقصدانسان کے لئے اپنے آپ کو جاننے،دنیا کو پہچاننے اور انسانیت کے کام آنے ہوتا ہے، یہ صرف کہنے کی باتیں رہ گئی ہیں،جبکہ پیٹ پالنے کی خاطربہانے بنانے کے لئے یہ باتیں کی جاتی ہیں، گویایہ تعلیم اب ایک نشہ کی شکل اختیار کرچکی ہے،جس میںلوگ مست ہوتے ہیں اور حقیقی تعلیم میں خست و پست رہ جاتے ہیں ۔
تعلیمی اداروں میں معصوم اذہان کو لالچ اور ڈرا دھمکا کر ایک مخصوص راستے پر چلنے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔ اگر میں اپنی بات کروں تو مجھ پر یہ حقیقت بارویں جماعت کے بعد عیاں ہوئی، جب میں نے بچشمِ خود سے دیکھا اور محسو س بھی کیا کہ پڑھائی کا مقصد محض پیسے کا حصول ہے۔ یعنی پڑھائی کے الگ الگ مقاصد بالا ٓخر پیسوں پر ہی آکر ٹھہرتے ہیں۔ جو بھی فرد پڑھتا ہے اور جو فرد پڑھاتا ہے،دونوں کا بنیادی مقصد دولت کا حصول ہوتا ہے۔ تو اس طرح اب پھر سے اسکولوں کا کھلنا بھی اُسی بڑی زنجیر کی ایک اور کڑی ہے۔ فیس جمع کرنا اور طلباء کا امتحان میں شریک ہونا، وہی لکیر کے فقیر کی مانند ہے۔ یہ وہ راہیں ہیں جن پر چل کر ریوڈوں کےپیروں میں تو چھالے پڑیں اور ایک دو کا بیڑا پار ہوجاوے،جو کوئی نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے یا پھر کوئی اپنا ہی تدریسی ادارہ کھولنے میں کامیاب ہوجائے،باقی دَر دَر بھٹک کر رہ جائیں۔خیر ان اسکولوں کے کھلنے کااصل مقاصد تب ہی پورا ہوجاتا ہے جب ان تعلیمی مراکزسے تعلیم مکمل کرنے والے طلبا و طالبات اس پوزیشن میں ہوں کہ وہ خود اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکیں۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی اگر انہیں دربدر کی ٹھوکریں کھانی پڑے تو یہ تعلیم نہیں کچھ اور ہی ہے۔ بلا شبہ زندگی جدوجہد کا ہی نام ہے۔ تعلیم انسان کو زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھاتی ہے۔ زندگی میں آنے والےکے اُتار و چڑھائو کے ہر موڑ پر تعلیم واقعی ایک ستون کا کام کرتی ہے۔حالات کا مقابلہ کرنے اور معاملات کو سمجھنے کی قوت تعلیم سے ملتی ہے،ظاہری چیزوں سے اوپر اٹھ کر دیکھنے کی طاقت کو بھی تعلیم کہتے ہیں، اپنے اندر جھانکنے کو علم کہتے ہیں، ذرّے میں دنیا دیکھنا علم کہلاتا ہے۔ ہر چیز کے دونوں پہلوؤں کو پہچانناعلم کہلاتا ہے، خصوصاً اپنی غلطی تسلیم کرنا اور پھر غلطی کو سدھارنے کی کوشش کو علم کہا جاتا ہے۔ یہ ساری خصوصیات اگر ایک طالب علم میں نہیں آتی ہے، تو سب کچھ بےکار ہے۔
وقت کی ضرورت ہے تعلیمی ادارے حقیقی تعلیمی اداروں بنیں۔ ایسا مال تیار کریں جو آنے والے کل کے لئے سودمند ثابت ہو۔ ایسے لوگ بنیں، جو ہر لحاظ سے اونچے معیار کے ہوں، جن کا جینا، حقیقی زندگی ہو۔ جو خود بھی زندگی جینا جانتے ہو اور دوسروں کو بھی جینے کی راہیں سکھانے کے قابل ہوں۔ اس میں وقت درکار ہے مگر اُمید کا دامن ہاتھ سے چھوٹنا نہیں چاہئے۔ گورنمنٹ،انتظامی امور ،تعلیمی ادروں کے منتطمین کے ساتھ ساتھ ہر ذی حس اور باشعور انسان کو اس کام میں آگے آنا ہوگا۔ یہ بہت تھکا دینے والا کام ہے مگر اس کا پھل بہت میٹھا ہوگا۔ تو آ ئیے، اس کارِ خیر کے کام میں دوسروں کے معاونین بن کر تعلیم کو وہ درجہ واپس دینے کی کوشش کریں جس کا یہ مستحق ہے۔
(رابطہ۔7006031540)
[email protected]