سہیل بشیر کار
کتاب کے دوسرے باب میں مصنف نے اصول فقہ کے دوسرے ماخذ پر سیر حاصل بحث کی. سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں: “عربی میں لفظ سنت کا اطلاق طریقہ اور عادات پر ہوتا ہے، چاہیے وہ طریقہ پسندیدہ اور مستحسن ہو یا وہ طریقہ ناپسندیدہ اور غیر مستحسن. ” (صفحہ 35) آگے سنت فقہا کی اصطلاح میں لکھتے ہیں: “فقہا کی اصطلاح میں سنت کے لفظ کا اطلاق ایک ایسے فعل پر ہوتا ہے جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے “مداومت” اختیار کی ہو یعنی وہ فعل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول رہا ہے، کبھی کبھی ایک یا دو مرتبہ اسے چھوڑ بھی دیا ہو لیکن عام طور پر وہ فعل آپ کا معمول رہا ہے. “(صفحہ 38) پھر مصنف حدیث اور سنت کا فرق سمجھاتے ہوے لکھتے ہیں:” وہ روایات جن کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی جائے؛ چاہے وہ روایت قولی ہوں یا فعلی ہوں یا تقریری ہوں ان روایات کو احادیث کہا جاتا ہے، ان احادیث میں سے جس قول، جس فعل یا جس تقریر کی نسبت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پایہ ثبوت کو پہنچ جائے اور صحت اور صداقت کے میعار پر پوری اترے تو اسے سنت کہا جاتا ہے۔ “(صفحہ 40) اس کے بعد مصنف سنت اور احادیث کی اصطلاحیں بہترین طریقہ سے سمجھاتے ہیں ، یہ باب پڑھ کر علم حدیث سے قاری واقف ہو جاتا ہے. خبر واحد پر مصنف نے آسان اسلوب میں جاندار بحث کی ہے. علم حدیث کو آسان اسلوب میں سمجھانے کی مصنف نے بھرپور کوشش کی ہے.
اصول فقہ کے تیسرے ماخذ اجماع پر ایک باب باندھا گیا ہے مصنف لکھتے ہیں: “شریعت کی اصطلاح میں اجماع کی تعریف یہ ہے کہ اجماع اہل علم اور اہل اجتہاد کا اتفاق ہے کسی حکم پر، اور اس میں بہر حال یہ قید معتبر ہے کہ ایسے لوگوں کا اتفاق ہو جو صاحب علم ہوں اور صاحب اجتہاد ہوں اور جو کسی حکم اور کسی چیز کے متعلق فیصلہ کر سکتے ہوں، یہ اجماع شرعی ہے۔ عام لوگوں کے اجماع کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح سائنس انجینئر نگ اور طب وغیرہ مختلف قسم کے علوم وفنون ہیں اور ان علوم وفنون میں اگر اتفاق معتبر ہے تو ان لوگوں کا ہے جو لوگ اس علم اور فن سے کچھ واقفیت رکھتے ہوں۔ اسی طرح اسلامی قانون میں بھی ان لوگوں کا اتفاق شرعی اجماع کی حیثیت رکھتا ہے جو دین کے مزاج سے واقف ہیں اور دین کو جانتے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو دین کو نہ سمجھتے ہوں اور دین کو جانتے نہ ہوں ان کا کام یہ ہے کہ وہ اہل علم سے پوچھیں اور اہل علم کا اتباع کریں۔” (صفحہ 204) اس باب میں مصنف نے اجماع کی حجیت، اجماع کے مراتب، اجماع بسیط اور اجماع مرکب پر عمدہ بحث کی ہے, مصنف سمجھاتے ہیں کہ اجماع کب حجت بن جاتا ہے اور ایک اجماع کب تک حجت بن سکتا ہے. اس سب پر مصنف نے خوب بحث کی ہے، عام طور اجماع پر کچھ افراد اعتراض کرتے ہیں لیکن قرآن کریم اور احادیث مبارکہ سے اس کی حجت واضح ہے. سورہ النساء میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں “اور جو کوئی ہدایت ظاہر ہونے کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے اور مومنوں سے الگ راستہ کی پیروی کرے تو ہم اس کا رخ پھیر دی گے جدھر وہ چلے اور اسے جہنم میں ڈال دیں گے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے. ” (آیت 115) اسی طرح ایک حدیث میں رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: “میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی” البتہ مصنف نے اگر اجماع امت کی مثالیں دی ہوتی تو بات اور واضح ہو جاتی.
اصول فقہ کا چوتھا ماخذ قیاس ہے، عام طور پر قیاس سے یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ انسان کوئی بھی فیصلہ لے لے اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ قیاس کیا ہے مصنف لکھتے ہیں: “کہ کسی فرع کو کسی اصل کے ساتھ حکم میں اور علت میں اس کا اندازہ کرنا، یعنی کسی ایک جزوی کو کسی دوسری جزوی سے علت اور حکم میں مساوی قرار دینا. ” (صفحہ 223) ،جو لوگ قیاس کو حجت مانتے ہیں؛ وہ قرآن کریم کی سورہ العنکبوت آیت 43؛ سورہ الحشر کی آیت 2 اور مختلف احادیث مبارکہ مثلاً” جب تم قرآن و سنت میں کوئی حکم پاو تو اسی کے مطابق فیصلہ کرو اور جب کوئی حکم نہ پاو تو اپنی رائے سے اجتہاد کرو “سے استدلال پیش کرتے ہیں، مصنف نے قیاس کے بارے میں اہل علم کے درمیان اختلاف تفصیل سے بیان کیا ہے، مصنف نے اس باب میں قیاس کے بارے میں ہر نکتہ کی وضاحت بیان کی ہے.
ان چار ماخذ کے علاوہ کچھ لوگوں کے نزدیک استحسان بھی ایک ماخذ ہے، استحسان کہتے ہیں قیاس خفی کو یعنی ایک ایسے قیاس کو جس کے معلوم کرنے اور جس کے پہچاننے میں غیر معمولی غور و فکر کی ضرورت ہے اور معمولی فکر و نظر کی بنا پر اس کو نہ معلوم کیا جا سکتا ہو، یہ دراصل قیاس ہی کی ایک قسم ہے. عام طور پر فقہاء حنفیہ پر استحسان کے حوالے سے تنقید کی گئی ہے مصنف لکھتے ہیں: “جب حنفیہ کے پاس قرآن کی کوئی دلیل نہیں ہوتی ، سنت نبویہ سے وہ اپنے مدعا کو ثابت نہیں کر سکتے ، اجماع کی دلیل ان کے پاس نہیں ہوتی اور قیاس کے ذریعہ سے اپنے مدعا کو نہیں ثابت کر سکتے تو وہ جھٹ سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ ہمارا استحسان ہے۔ اور استحسان کی بنا پر ہم یہ بات اس طرح کرتے ہیں۔ تو وہ ( معترضین) یہ کہتے ہیں کہ استحسان کا مطلب یہ ہے کہ گویا یہ میرا ذاتی رجحان ہے۔ میری طبیعت یہ چاہتی ہے کہ یہ حکم اس طرح ہونا چاہیئے ۔” (صفحہ 295) حالانکہ یہ سب استحسان کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے، استحسان پر بھی مصنف نے تفصیل سے لکھا ہے. حنفیہ کے نزدیک استحسان سے مراد قیاس خفی ہے جس کا اشارہ سورہ الزمر؛ آیت 18 میں دیا گیا ہے اور حدیث میں کہا گیا ہے کہ “جو کچھ مسلمان بہتر سمجھتے ہیں وہ خدا کے نزدیک بھی بہتر ہے. ”
جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا گیا تو ان سے پوچھا : اے معاذ! تم مسائل و مقدمات میں کس طرح فیصلہ کرو گے؟ انہوں نے عرض کیا : میں اﷲ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : اگر تم اﷲ کی کتاب میں نہ پا سکے تو؟ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں سنت رسول سے فیصلہ کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تم کتاب و سنت دونوں میں حل نہ پاؤ تو؟ انہوں نے عرض کیا :’’میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور حقیقت تک پہنچنے میں کوئی کوتاہی نہیں کروں گا۔‘‘
یہ جواب سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپکا اور فرمایا :
’’ﷲ کا شکر ہے جس نے رسول اﷲ کے بھیجے ہوئے نمائندہ کو اس بات کی توفیق بخشی جو ﷲ کے رسول کو خوش کرے۔‘‘(أبوداؤد) اجتہاد اصول فقہ کا اہم ماخذ ہے کتاب میں ایک باب اجتہاد پر ہے جس میں مصنف نے اجتہاد کے سبھی پہلوں پر سیر حاصل بحث کی ہے، اگر دیکھا جائے تو اجماع اور قیاس اجتہاد کے ہی عنصر ہے. بہتر ہے کہ اصول فقہ میں تیسرا رکن اجتہاد ہی مانا جائے.
کتاب کے آخر میں اردو، عربی اور فارسی کی فہرست بھی دی گئی ہے جس سے اسلامی قانون پر علمی و تحقیقی کام کرنے والوں کو بہت فائدہ مل سکتا ہے.
قریب 850 صفحات پر مشتمل دو جلد کی کتاب ‘اصول فقہ کو نہایت ہی عمدہ گیٹ اپ میں ملت پبلی کیشنز حیدر پورہ سرینگر نے چھاپا ہے. کتاب کی قیمت 1200 روپے بھی مناسب ہے. کتاب واٹس ایپ نمبر 9419561922 پر حاصل کی جا سکتی ہے.
مبصّر سے رابطہ : 9906653927