سبزار احمد بٹ
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی فن پارے پر زمان و مکان کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کسی بھی فن پارے کا مطالعہ کرنے سے اس زمانے کے حالات و واقعات سے متعلق آگہی حاصل ہوتی ہے، جس زمانے میں اور جن حالات میں وہ فن پارا تخلیق کیا گیا ہو ۔باقی اصناف سخن کی طرح یہ اثرات افسانے پر بھی دیکھے جاسکتے ہیں ،یوں تو افسانہ ایک فرضی کہانی کا نام ہے لیکن بغور مطالعہ کرنے پر یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ افسانہ دراصل ان حالات و واقعات کی ہی پیدار ہوتا ہے جن حالات کا مصنف پر اثر مرتب ہوا ہو۔ جموں وکشمیر میں پچھلے تیس،پنتیس سال سے جو نامساعد حالات یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ جو اتھل پتھل چلی آرہی ہے۔ ان حالات کا اثر یہاں کی افسانہ نگاری میں صاف اور واضح طور پرنظر آرہی ہے۔جموں و کشمیر کے جن افسانہ نگاروں نے یہاں کے حالات و واقعات اور یہاں کے سماجی مسائل کو اپنے افسانوں میں جگہ دی، ان میں طارق شبنم کا نام قابل ذکر ہے ۔طارق شبنم کا افسانوی مجموعہ ’’گمشدہ دولت ‘‘کے نام سے 2020 میں منظر عام پر آیا ہے۔مذکورہ مجموعے میں طارق شبنم کے 27 افسانے شامل ہیں ۔اس افسانوی مجموعے کی اہمیت و افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس پر وادی کے معتبر اور مستند افسانہ نگاروں نے تبصرہ کیا ہے۔اس حوالے سے نور شاہ صاحب رقمطراز ہیں کہ ’’ گزستہ چند برسوں یا یوں کہیے کہ کشمیر کے پُر آشوب دور میں جو افسانہ نگار سامنے آئے ہیں اور انعام و اکرام کی تمنا سے بالاتر ہو کر افسانے کی تخلیق کر رہے ہیں، ان کی فہرست زیادہ طویل نہیں ہے لیکن یہ سارے جوان فکر اور جواں سال افسانہ نگار اپنے مشاہدے اور تجربے کے پس منظر میں جدید اسلوب اور ٹریٹمنٹ اپنا کر اردو افسانے کے فروغ اور بقاء کے لیے اپنا فرض ذمہ داری سے نبھا رہے ہیں۔ افسانہ نگاروں کی یہ قلیل فہرست طارق شبنم کے نام کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی ‘‘۔اس کے علاوہ ڈاکٹر ریاض توحیدی اور ڈاکٹر آشرف آثاری نے بھی ’’ گمشدہ دولت ‘‘ پر بہت ہی عمدہ اور بے باک تبصرے کئے ہیں۔راقم کو بھی اس افسانوی مجموعہ کا مطالعہ کرنا نصیب ہوا ہے ،اس افسانوی مجموعے کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات ذہن نشین ہوئی ہے کہ افسانہ نگار نے کشمیر کے مختلف مسائل اور حالات کو بے حد خوبصورتی کے ساتھ اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا ہے۔ابتدا میں ’’بے درد زمانہ ‘‘ نامی افسانہ پیش ہوا ہے۔ پوری کہانی سندری نام کی ایک خوبصورت مگر بے بس اور بے سہارہ عورت کے ارد گرد گھومتی ہے۔سندری کا شوہر کینسر جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہوتا ہے لیکن افسوس کوئی اثرورسوخ نہ ہونے کی وجہ سے سندری کا سرکاری ہسپتال میں دھتکارا جاتا ہے اور تاریخ پر تاریخ دی جاتی ہے۔یہاں تک کہ سندری اپنے زیورات بیج کر اپنے شوہر کا علاج ایک نجی ہسپتال میں کرنا چاہتی ہے مگر وہاں بھی اسے ہوس کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے اور اس کی کوئی مدد نہیں کی جارہی ہے۔افسانہ کا ایک اقتباس یوں ہے۔’’ اس بے درد زمانے میں، میں اکیلی بے سہارا عورت کیا کروں،کس سے مدد مانگوں، کہاں انصاف ڈھونڈوں ۔یہاں صرف پتھر دل انسان ہیں، پتھر کے ضمیر ہیں،چاپلوسی، فریب، حرص اور خودغرضی ہے‘‘۔ افسانہ نگار نے سندری کی کہانی پیش کر کے نہ جانے ہمارے معاشرے میں موجود کتنی سندریوں کا حال بیان کیا ہے۔ افسانہ ’’ اندھیرے اجالے‘‘ میں بھی خوبصورتی کے ساتھ یہ سمجھانے کو کوشش کی گئی ہے کہ انسان کو طاقت اور دولت کے نشے میں ظالم نہیں بننا چاہیے بلکہ ہوش میں رہنا چاہئے، کیونکہ وقت بدلنے میں دیر نہیں لگتی ۔جہاں دھوپ ہوتی ہے وقت آنے پر وہاں چھاؤں بھی پہنچ جاتی ہے۔
مصنف نے ’’ صدمہ نامہ‘‘ افسانے میں کشمیر کے حالات کا بہت خوبصورتی کے ساتھ جائزہ لیا گیا ہے بلکہ ایک طرح کا نقشہ کھینچ کر یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کشمیر کے حالات اور یہاں کی اتھل پتھل نے کس طرح سے ایک عام کشمیری کو ذہنی مریض بنایا ہے۔افسانے کا ایک چھوٹا سا اقتباس ملاحظہ فرمائیں ۔
’’ اچھا تو تُو اگروادی ہے ‘‘۔’’ سر میں اُگروادی نہیں ہوں ‘‘۔کاکا نے ہمت جٹا کے بتایا۔’’ تو پھر کون ہو تم؟‘‘فوجی گرجا۔’’ سر میں تُمل (چاول) ہوں ‘‘
ایسا لگتا ہے کہ اس افسانے کے ایک ایک لفظ سے معصومیت ٹپکتی ہے کتاب میں شامل افسانہ’’ آبرو‘‘ بھی بہت شاندار افسانہ ہے ۔دنیا کے ہر باغیرت انسان کی یہی کوشش رہتی ہے کہ اس کی آبرو سلامت رہے ۔چاہے جان کیوں نہ چلی جائے ۔افسانے میں جہاں گلہ مزدور اور مختی حالات کا مقابلہ کرتے ہیں اور اپنے معصوم کامران اور شیرین کا بچپن بچانے کی کوشش کرتے ہیں، وہاں معاشرے میں موجود ظالم چراغ الدین اور چھوٹا زمیندار ان کا جینا حرام کرتے ہیں، باآخر مختی اور گلہ مزدور اپنی بیٹی شیرین کی کم عمری میں ہی شادی کر کے چراغ الدین اور چھوٹے زمیندار جیسے بھیڑیوں سے اپنی آبرو بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، تاہم شیرین کا شباب اور کامران کی جوانی ضائع ہوجاتی ہے ۔بات ایک شیرین یا ایک کامران کی نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں کئی چراغ ا لدین اور زمیندار جیسے ظالم رہتے ہیں جو دوسروں کو تعلیم چھوڑنے پر مجبور کرتے ہیں۔’’ کہانی کا المیہ ‘‘ نامی افسانے میں مصنف نے اگر چہ انسان اور ایک جن کی گفتگو پیش کی ہے تاہم دبے الفاظ میں انسان کی تمام تر مکاری، فریب، دھوکہ بازی اور چالاکی کو دکھا کر نام نہاد ماڈرن انسان کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی گئی یے۔بہت ممکن ہے کہ موجودہ دور کا انسان یہ افسانہ پڑھ کر اپنے ضمیر کو جھنجوڑے اور اپنا محاسبہ کرے۔ افسانہ’’ اعتبار‘‘ میں محبت کی کہانی پیش کی گئی ہے جس میں ماجد اور ثمینہ ایک دوسرے کے ساتھ بے پناہ محبت کرتے ہیں اور ایک ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھاتے ہیں، وعدے کرتے ہیں، لیکن ثمینہ کو ڈاکٹر بننے کا بھوت سوار ہوجاتا ہے اور وہ ڈاکٹر بننے کے چکر میں ماجد کو چھوڑ کر ایک Reserved category میں آنے والے شہباز نامی لڑکے سے شادی کرتی ہے۔ افسانے کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں :
دفعتاً اس نے کچھ سوچ کر درجہ فہرست ذاتوں Reserved category, میں اس کا نام تلاشنا شروع کیا ۔کچھ لمحوں بعد اس کے پاؤں تلے زمین کھسکنے لگی اور سر چکرانے لگا جب اس کی نظر ایم بی بی ایس کے لیے منتخب شدہ اس نام پر رُک گئی ۔
’’ ثمینہ شہباز۔۔۔وائف آف شہباز احمد ۔۔۔اور پتہ کے کالم میں ایک دوردراز پہاڑی علاقے کا نام درج تھا‘‘یہ دیکھنا تھا کہ ماجد کے ذہن میں ثمینہ کے یہ الفاظ گونجنے لگے
’’ کیا ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ ہم بھی کسی کٹاگری میں آسکیں ۔مجھے بہرحال ڈاکٹر بننا ہے کسی بھی قیمت پر ‘‘۔
افسانہ ’’ انتظار ‘‘ میں مصنف نے کشمیر کے ان لوگوں کا درد بیان کیا ہے جن کے عزیزو اقارب صبح کسی کام سے نکلے اور کبھی اپنے گھروں کو نہ لوٹے۔ان کے اپنے ابھی بھی ان کی راہ دیکھ رہے ہیں ۔کچھ پتہ نہیں ہے کہ انہیں زمین کھا گئی یا آسماں نگل گیا۔افسانے میں جہاں سب لوگ عید کا چاند ڈھونڈ رہے ہیں وہاں فتح محمد اس سب سے بے خبر اپنے بیٹے کی راہ دیکھ رہا ہے۔ ماسٹر جی کو جب فتح کاکا کی مجبوری اور بے بسی کا علم نوری کے ذریعے پتہ چلتا ہے تو وہ اپنے آپ کو کوسنے لگتا ہے،کہ پڑوسی ہونے کے باوجود مجھے اس بات کا علم نہیں ہے کہ بیٹا لاپتہ ہونے کے بعد فتح محمد پر کس طرح مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔افسانہ نگار نے ایک فتح محمد کا ذکر کیا ہے لیکن نہ جانے ہمارے گردونواح میں کتنے فتح محمد ہونگے ،جن کے لخت جگر ان سے چھن گئے اور جو مجبور اور لاچار ہو گئے۔ افسانہ ’’ مہرباں کیسے کیسے ‘‘ میں افسانہ نگار نے بڑی بے باکی کے ساتھ محکمہ بجلی پر چوٹ کی ہے جس میں محکمہ کا ایک ملازم غفار کاکا کو پریشان کرتا ہے، وقت پر فیس بھرنے کے باوجود اس کی لائن کاٹ دیتا ہے کیونکہ وہ ملازم غفار کاکا کی شرافت کا جانائز فائدہ اٹھاتا ہے اور فیس اپنی جیب میں ڈالتا ہے ۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بے چارے غفار کاکا کو فیس ادا کرنے کے لیے اپنی بکری بیچنی پڑتی ہے۔
اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا ہے کہ پنڈتوں کا کشمیر چھوڑنا کسی المیے سے کم نہ تھا ۔اس دلدوز واقعہ سے جتنی تکلیف پنڈتوں کو ہوئی اتنی ہی تکلیف یہاں کے مسلمانوں کو بھی ہوئی ۔کشمیریوں کے دلوں میں اس جدائی کا زخم اب بھی موجود ہے۔افسانہ نگار نے ’’ بیس سال بعد‘‘نامی افسانے میں اس تواریخی المیے کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا ہے ۔بیس سال بعد بھی کشمیری پنڈت اور مسلمان جب اتفاق سے ملتے ہیں تو ایک دوسرے پر جان چھڑکتے ہیں ۔ان کے افسانوں میں منظر نگاری کی بہترین مثالیں موجود ہیں اس حوالے سے افسانہ ’’ بیس سال بعد ‘‘ کی مثال دی جاسکتی ہے۔ افسانہ نگار نے افسانہ ’’ درد کا رشتہ‘‘ میں بھی کشمیریوں کی مہمان نوازی کا ایک بہترین خاکہ کھینچا ہے ۔”گمشدہ دولت” نام کا افسانہ بھی اس مجموعے میں شامل ہے اس افسانے میں مریخ سے جنرل ٹام انسانوں کے حالات و واقعات کا جائزہ لینے کے لیے زمین پر بیجھا جاتا ہے۔ انسان کی ترقی دیکھ کر وہ حیران رہ جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ انسان بہت خوش ہے، اسے کسی چیز کی کمی نہیں ہے ۔واپس مریخ پر جانے سے پہلے اس کے ہاتھ ایک ’’تلاش ‘‘نام کی کتاب لگتی ہے۔اس کتاب کا مطالعہ کرنے سے جنرل ٹام یہ سمجھ پاتا ہے کہ انسان کے پاس سب کچھ ہے سوائے سکون اور اطمنان کے۔اتنی ترقی کرنے کے بعد بھی انسان کو اگر کسی چیز کی تلاش ہے تو وہ سکون ہے، جو اسے ابھی تک حاصل نہیں ہواہے۔ انسان کی خودغرضی اور لالچ کی وجہ سے اس کا چین و سکون برباد ہوگیا ہے۔مصنف نے یہ بتانے کی کوشش بھی کی ہے کہ انسان اپنا کھویا ہوا سکون حاصل کرنے کے لیے کوششیں کر رہا ہے لیکن اپنے آپ کو بدلنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جب تک انسان اپنے آپ میں تبدیلی نہیں لائے گا ،اسے سکون حاصل نہیں ہوگا۔موجودہ دور میں انٹرنیٹ اگر چہ ایک اہم ضرورت بن چکا ہے اور کافی فائدہ مند چیز ہے تاہم انٹرنیٹ کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے ،ورنہ انٹرنیٹ گلے کا پھندہ بھی بن سکتا ہے اور اس کے غلط استعمال سے انسان کا چین و سکون تباہ ہو سکتا ہے اور خودکشی کی بھی نوبت آ سکتی ہے۔ اسی طرح کی کہانی افسانہ ’’سنہرا پھندہ ‘‘میں پیش کر کے مصنف نے قاری کو انٹرنیٹ کے نامناسب استعمال سے متنبہ کیا ہے۔
منجملہ طور پر کہا جاسکتا ہے کہ طارق شبنم نے اپنے افسانوں میں اپنے گردونواح میں پنپنے والے مسائل و مصائب کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا ہے ۔ امید ہے کہ طارق شبنم اسی طرح سے لکھتے رہے گے اور اپنے معاشرے کی ترجمانی کرتے رہیں گے۔
رابطہ۔7006738436
�������������������