ماسٹر طارق ابراہیم سوہل
الله تعالی سورت الانعام میں آیت نمبر 61-62 میں فرماتا ہے:’’ کائنات پر اسی کی قدرت قاہرہ کی حکمرانی ہےاور اس نے تم پر محافظ مقرر کر رکھے ہیں جو ترکیب عناصر کی حفاظت کرتے ہیں اور یہ حفاظت بغیر کسی کوتاہی کے موت تک جاری رہتی ہے ،اسکے بعد لوگ الله تک پہنچ جاتے ہیں۔کائنات پر اسی کی حکمرانی ہے اور وہ بڑا حساب دان ہے۔‘‘مطلب یہ ہوا کہ اس کائنات کی ترکیب عناصر سے ہوئی ہے اور یہ عناصر ملکر مرکب بناتے ہیں ۔لیکن مرکب بنانے کے لئے ان عناصر کا خاص نسبت میں ہونا ضروری ہے۔ انہی عناصر کا ترتیب میں رہنا زندگی ہے اور اس ترتیب کا ٹوٹ جانا موت ہے۔ اس بات کو ایک مثال سے سمجھایا جا سکتا ہے۔پانی یعنی H20 زندگی ہے جو کہ زندگی کا ستر فیصد ہے۔یہاں دو حصے ہائیڈروجن اور ایک حصہ آکسیجن کا ملکر پانی بنتا ہے اور اگر دو حصے ہائڈروجن اور دو حصے آکسیجن مل جائیں تو ہائیڈروجن پر آکسائیڈ H2O2 بن جائیگا جو پینے کے لئے زہر ہے۔ اس مثال سے الله کی قدرت قاہرہ کو بخوبی سمجھا جا سکتاہے کہ کس طرح قدرت نے ہائیڈروجن اور آکسیجن کا تناسب اور ترکیب برقرار رکھی ہے اور پھر اسکی حفاظت کا انتظام بھی کیا ہے۔ ٹھیک اسی طرح یہ پوری کائنات خاص نسبت کے ساتھ عناصر کی ترکیب ہے ۔
اب ذرا انسانی وجود کے عناصر کی ترکیب کا ذکر۔انسانی جسم لگ بھگ 99 فیصد آکسیجن ،کا ربن ،ہائیڈروجن ،نائٹروجن ،کیلشیم اور فاسفورس پے مشتمل ہے جبکہ 0.85 فیصد پوٹاشیم ،سلفر،سوڈیم ،کلورین اور میگنیشیم پر مشتمل ہے۔یہ تمام گیارہ عناصر زندگی کے لئے ضروری ہیں۔ انسان کا اگر کیمیائی تجزیہ کیا جائے تو اسکی قیمت چند لاکھ روپے سے زیادہ نہیں۔ لیکن جب ایمان کا جوہر اسی معمولی قیمت والے وجود کے اندر داخل ہوجاتا ہے تو پھر اسکی قیمت کا اندازہ کرنا انسانی عقل و شعور،فہم و فراست اور ظن و تخمین کی سرحدوں میں تمام تر وسعتوں کے باوجود سما سکتا نہیں۔
اب ذرا دیکھتے ہیں کہ گیارہ عناصر کے اس آمیزہ میں ایسا کون سا وہ جوہر ہے جو اسے انمول بھی اور زندہ جاوید بھی بنا دیتا ہے۔الله قرآن میں فرماتاہے:’’ ایسا شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اسکو زندہ کردیا اور ہم نے اسکو ایک ایسا نور دیا کہ وہ اسکو ل آدمیوں میں چلتا پھرتا ہے۔کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں سے نکل ہی نہیں پاتا۔اسی طرح کافروں کو ان کے اعمال خوشنما معلوم ہوا کرتے ہیں۔‘‘( سورت الانعام آیت ,122)
قرآن مقدس کی اس آیت سے واضح ہو جاتا ہے کہ تمام مخلوقات میں بنی نوع انسان کو تفوق اور برتری محض اس شرط پے حاصل ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے دل میں عقدہ توحید کو راسخ کرے تاکہ اسکے دل میں زندگی کے آثار پیدا ہوں۔اس منصب پے فائزالمرام ہونے کے لئے رب کائنات کےمرتب کردہ ضابطہ حیات کے واضح قواعد و ضوابط پر عمل پیرا ہونا ،دانائی کی دلیل ہے چونکہ کائنات کے امام نے صحابہ سے پوچھا جانتے ہو عقلمند کون ہے تو صحا بہ نے عرض کیا یا رسول الله ؐ،فدا امی و ابی ،آپ ہم سے بہتر جانتے ہیں۔ارشاد فرمایا :’’ تم میں سے دانا وہ شخص ہے جو ہر وقت اپنی قبر کو یاد رکھے ۔‘‘ ظاہر سی بات ہے کہ یہ سوچ اسی انسان میں پیدا ہو سکتی ہے جو قرآن مقدس کی تعلیمات اور رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فرمودات سے واقف بھی ہو اور ان پے بلا ناغہ عامل بھی ہو۔علم و عمل کے اس طرز عمل سے ایسا انسان واقعی ایک کامیاب انسان بن سکتا ہے۔
چونکہ ہر ذی حواس انسان بلوغت کی سرحد میں قدم رکھتے ہی ایک بہترین اور کامیاب انسان بننا چاہتا۔اس ہدف کو پانے کے لئے یقین ایک ناگزیر پہلو ہے اور جب کسی خوشبخت کے دل و دماغ کی وسعتوں میں یقین کا چراغ روشن ہو جاتا ہے تو پھر وہ ان اعلی اخلاقی اقدار کو اپنی زندگی میں شامل کر لیتا ہے جنکی عملی تصویر اسے خاتم الانبیاء کی زندگی میں نظر آتی ہے۔چونکہ رب کائنات قرآن مقدس میں واشگاف اعلان کرتا ہے:لقد کان لکم فی رسول الله اسوۃ حسنہ۔البتہ تمہارے لئے رسول اکرم بہترین نمونہ ہے۔
امام الانبیاء کی طرز زندگی کے نقوش کی متواتر تقلید،ہی وہ راہ عمل ہے جو انسان کو ابدی کامیابی کی منزل سے ہمکنار کرتی ہے۔اسوہ حسنہ پے بلا ناغہ عمل کی افادیت کو شاعر مشرق علامہ اقبال نے یوں بیاں کیا ہے :
یقین محکم عمل پیہم محبت فات عالم
جہاد زندگانی میں یہی مردوں کی شمشیریں
لیکن خیر امت کا لقب پانے والی اور امر با المعروف و نہی عن المنکر کی مکلف اس جماعت کے اندر،از خود رفتہ ،تہذیب فرنگ کی دلداہ ،ہرس و ہوس کے دام تزویر میں پابند،نفس امارہ کی اسیر،حسد و بغض کی دلدل میں پھنسی ،عداوت اور انتقام کی آگ میں جھلسنے والی ،دروغ کو فروغ کے درپے،کبر و ناز کی نجاست میں لت پت ،حق و باطل کی حد فاضل کو محو کرنے والی ،شرم و حیا کی کلیوں کو مسلنے والی ،ایک کثیر تعداد،کا وجود،ایک عظیم ابتلاء ہے اور ایک سنگین معاملہ ہے۔آئے روز یقین سے عاری ا یسے افراد کی کارستانیاں،یگانوں اور بیگانوں کے لئے یکساں درد سر بنی ہوئیں ہیں۔چونکہ ظاہر پرستی کی فسوں کاری نے انکے دل و دماغ پے قبضہ جما کر انکے شعور کی دنیا کو یرغمال بنا دیا ہے اور انکی صلاحیتوں کو ص سلب کر دیا ہے۔ گویا ایک ایسا معاشرہ پروان چڑھ رہا ہے جس میں جوانوں کی اکثریت ،نہ باپ کو جنت کا دروازہ ماننے کے لئے اور نہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ،ماننے کے لئے تیار ہے۔جب مسائل کی شدت اس حد تک پہنچ جائے تو پھر گھر کا سکون بھی ختم ،معاشرے کا اعتبار بھی رخصت اور ملک کا امن بھی تنزل کا شکار ہو جاتاہے۔
انسان فطری طور تن آسان اورحریص ہے۔اسکی انا اسکو مجبور کرتی ہے کہ وہ بہیمی خواہشات کی تسکین اورمال و زر کی بہتات, میں ہر کسی سے آگے رہے لیکن یہ مرض ایسا مرض ہے کہ ہر دوا سے بڑھتا ہی چلا جائے۔خواہشات کی اسی سلگتی آتش کو قابو میں رکھنا جوانمردی اور ایمان کی دلیل ہے۔
اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھے۔اپنی ابتداء اور انتہا کی فکر کریں اور اپنے شب و روز کو رب کائنات کی اطاعت میں صرف کریں۔
(رابطہ نمبر۔ 8493990216)
[email protected]