مولانا نعمان نعیم
دنیا کے تمام مذاہب میں یہ اعزاز و امتیاز صرف اسلام کو حاصل ہے کہ یہ رشد و ہدایت،دین کامل اور ابدی ضابطۂ حیات ہے۔ دین ِ اسلام کی عظمت و اہمیت، کاملیت اور ابدیت کے حوالے سے ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ہم نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا، اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی، اور تمہارے لئے اسلام کو بطورِ دین پسند کیا۔ (سورۃ المائدہ)ایک مقام پر یوں فرمایا گیا:جو چیز تمہیں رسول اللہؐ دیں، اسے لے لو اورجس چیز سے منع کریں، اس سے باز آجاؤ‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:جس نے ہمارے اس معاملے (دین) میں کوئی نئی چیز گھڑی تو وہ مردود ہوگی۔(بخاری ومسلم) جامع ترمذی میں ہے: تم پر لازم ہے کہ میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائےراشدینؓ کی سنت پر عمل کرو۔
پروردگار عالم کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا،اور یہ بھی اس کا بے پایاں اور عظیم احسان اور انعام ہے کہ اس نے ہمیں ایمان اور اسلام کی دولت سے مالا مال فرمایا اور خداوندِ قدوس کا سب سے اعلیٰ احسان اور انعام یہ ہے کہ ہمیں افضل الانبیاء، امام المرسلین، خاتم النّبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی بنایا،دین کی تکمیل خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہوئی۔ جو دین حضرت آدم ؑ،حضرت نوح ؑ، حضرت ابراہیم ؑ، حضرت اسماعیل ؑ، حضرت موسیٰ ؑ،حضرت ہارون ؑ ، حضرت داؤدؑ،حضرت سلیمانؑ لائے تھے ۔ جو حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء کا متفقہ دین تھا، اس دین کی تکمیل حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی پر ہوئی۔
آنحضرتؐ نے اس دین کو مسلسل 23 برس طرح طرح کی تکلیفیں سہہ کر، ایذائیں برداشت کرکے، مصائب و مظالم کے پہاڑ اٹھاکر، لوگوں کے طعنے سن کر مخلوقِ خدا تک پہنچایا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر اعلان ہوا۔ ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی،اسلام کو تمہارے لئے بطورِ دین پسند کیا ہے‘‘۔ اس آیت کریمہ سے واضح ہوگیا کہ اسلام دین کامل اور جامع دین ہے۔
دینِ اسلام نے زندگی گزارنے کے جتنے گوشے ممکن ہوسکتے تھے، ان سب کے لئے کچھ اصول، کچھ قوانین، اور کچھ ضابطے بیان کرکے انسان کو دوسرے طور طریقوں سے بے نیاز کردیا۔ قرآنِ مقدس نازل کرکے اعلان فرمایا کہ قرآن میں اصولِ دین کو کھول کر بیان کیاگیا ہے اور نبی اکرمؐ کو مبعوث فرماکے اعلان کیاکہ تمہارے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کا مطالعہ فرمائیے،احادیث و سیرت کی کتابوں میںآ پ ؐ کی سیرت طیبہ کا ایک ایک لحظہ محفوظ ہے۔اُمت کا ہر آدمی جو کام بھی کرنا چاہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی میں اس کے لیے کامل نمونہ موجود ہے۔ شادی ہو یا غمی، صحت ہو یا بیماری، سفر ہویا حضر، جنگ ہو یاصلح، سسر ہو یا داماد، والدین ہوں یا اولاد، سربراہِ مملکت ہو یا مزدور، مسجد ہو یا بازار، عبادت ہو یاتجارت، نماز ہو، روزہ ہو، اذان ہو، تکبیر ہو، جنازہ ہو، حج ہو، قربانی ہو، عمرہ ہو، غرض یہ کہ زندگی کے نشیب و فراز میں اور زندگی کے ہر ہر موڑ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس ایک مسلمان کے لیے کامل نمونہ ہے۔
حتیٰ کہ اس شفیق و مہربان پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قضائے حاجت اور تھوکنے تک کے طریقے اور آداب تک امت کو سکھادئیے۔ فرمایا کعبہ کی طرف منہ کرکے نہ تھوکنا۔ کعبہ کی طرف منہ کرکے اور پیٹھ کرکے قضائے حاجت نہ کرنا۔ راستے میں بیٹھ کر پیشاب نہ کرنا، جس طرف سے ہوا آرہی ہو اس طرف منہ کرکے پیشاب نہ کرنا۔ جس شفیق پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تھوکنے تک کے، بال کٹوانے اور ناخن ترشوانے تک کے۔ ہاں جس مشفق پیغمبر ؐ نے جملہ امور کے آداب اور طریقے امت کو سکھائے، کیا اس پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دین و دنیا کے دوسرے معاملات میں راہنمائی نہ کی ہوگی؟
کیا اس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبادت و تجارت، شادی و غمی، اذان و تکبیر، نماز و روزہ کے آداب اور مسائل نہیں سکھائے ہوں گے؟ لازماً سکھائے ہوں گے، اور زندگی گزارنے کے طور طریقے، عبادت و تجارت کے آداب ضرور بتائے ہوں گے۔لہٰذاجو کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، خلفائے راشدینؓ اور صحابۂ کرامؓ سے ثابت نہیں،وہ خلاف شرع اور بدعت ہوگا۔
ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رسول کامل ہیں کہ ان پر دین کی تکمیل ہوئی۔ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی اور سیرت کا ایک ایک لحظہ محفوظ اور قابل عمل ہے۔ ان کی اتباع اور پیروی کا نام ہی دین ہے۔ سنت رسول سے اعراض بے دینی ہے۔ تو پھر یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ زندگی گزارنے کا ہر ہر گوشہ اور ہر ہر شعبہ اسوئہ رسولؐ اور سنت پیغمبر ؐ کے مطابق ہوگا، تو وہی دین ہوگا۔
اگر کوئی شخص عبادت و نیکی اور ثواب کا کوئی ایساخود ساختہ کام کرے گا، جس کا وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک دَور میں نہیں تھا اور خلفائے راشدین ؓ کا سنہرا دور بھی اس کام سے خالی نظر آتا ہے اور اصحابِ رسول بھی وہ کام نہیں کرتے تھے، آج کوئی شخص اس کام کو نیکی اور دین سمجھتا ہے تو وہ سراسر فریب ، دھوکے اور غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ وہ کام ثواب اور دین نہیں ہوگا، بلکہ خلاف شرع اور ایک خود ساختہ عمل ہوگا۔
حضرت حذیفہ بن یمان ؓ فرماتے ہیں: عبادت کا جو کام اصحاب رسولؐ نے نہیں کیا، وہ کام تم بھی نہ کرو کیونکہ پہلے لوگوں نے پچھلوں کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی، جسے یہ پچھلے پوراکریں۔ پس اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ اے مسلمانو! اور پہلے لوگوں کے طریقے اختیار کرو۔ (الاعتصام علامہ شاطبی)
عبادت و نیکی اور دین کا ہر کام کرتے ہوئے پرکھنا ہوگا۔ اور دیکھنا ہوگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اصحاب پیغمبرؐ کا اس بارے میں کیا عمل تھا۔اگر اس کا ثبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے دور سے مل جائے تو وہ کام سنت ، ثواب، نیکی اور دین ہوگا، اللہ کی رضامندی کا موجب اور آنحضرتؐ کی خوشنودی کا سبب ہوگا۔ اگر اس کام کا ثبوت اور نام ونشان آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و سنت میں بھی نہ ہو، اصحاب رسولؐ کے اعمال سے بھی نہ ہو، تو پھر وہ کام بظاہر کتنا ہی خوش نما کیوں نہ ہو۔ بظاہر نیکی معلوم ہو وہ سنت اور دین نہیں ہوگا، بلکہ خود ساختہ عمل اور گمراہی ہوگا، وہ کام غضب خداوندی کا موجب اور رسول انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضی کا سبب ہوگا۔
وہ کام اور وہ عمل دین اور نیکی ہوگا جو قرآن وسنت اور آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور آپؐ کے عمل سے ثابت ہو۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ جو شخص بھی دین اور نیکی کا کوئی کام کرنا چاہتا ہے، اُسے دیکھنا اور پرکھنا ہوگا کہ آیا حضور اکرم ؐ اوراصحابِ رسولؐ نے یہ کام کیا تھا؟ یا اس کام کے کرنے کاحکم دیا تھا؟ اگر آنحضرت ؐ کی مبارک زندگی اور اصحابِ رسول ؐ کی زندگیوں میں وہ کام ہوا، اور وہ شریعت اور قرآن وسنت سے ثابت بھی ہو اور انہوں نے وہ کام کیا، یا کرنے کا حکم دیا تو پھر وہ کام دین بھی ہوگا، ثواب بھی ہوگا اور باعث رحمت بھی ہوگا۔لہٰذا یہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ خاتم الانبیاء، سیدالمرسلین، حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو شریعت اوردین لے کر آئے درحقیقت اس کی اتباع میں ہی انسانیت کی فلاح اور نجات کا راز مضمر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔