ظفر محی الدین
(گذشتہ سے پیوستہ)
دنیا کی معیشت ہر بار اُتار چڑھائو اور مندی بلندی کی طرف رواں دواں رہتی ہے۔سال 2018 میں عالمی بینک، آئی ایم ایف اور آئوٹ لک ڈیٹا بیس کی مدد سے درج ذیل فہرست برائے 2018 کے مطابق دنیا کی دس بڑی معیشتوں اور طاقتوں میں امریکاسرِ فہرست ہے، جب کہ چین دوسرے، جاپان تیسرے، جرمنی چوتھے، برطانیہ پانچویں، بھارت چھٹے، فرانس ساتویں، اٹلی آٹھویں، برازیل نویں اور کینیڈا دسویں نمبر پر ہے۔مضمون کے گذشتہ دو قسطوں میں 2018کی دس بڑی معیشتوںجن میں ریاست متحدہ امریکہ،عوامی جمہوریہ چین،جاپان،جرمنی برطانہ ،بھارت ،فرانس اٹلی ،برازیل اور کنیڈا شامل ہیں ،کے علاوہ غریب اور پسماندہ ممالک جمہوریہ سینٹرل افریقہ ،کانگو ،برونڈی اور لائیبریاکی صورت حال پڑھ چکے ہیں ،اب ذیل میں مزید کچھ غریب اور پسماندہ ممالک کا بھی تذکرہ نذرِقارئین ہے۔
جمہوریہ نائجر: جمہوریہ نائجر افریقا کے پسماندہ ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔آبادی تین کروڑ کے لگ بھگ اور فی کس سالانہ آمدنی 1115 ڈالر ہے۔نائجر میں یورینیم کے بڑے ذخائر ہیں مگر نوآبادیاتی دور کے چھوڑے ہوئے منفی اثرات، نسلی تعصب، غربت، ناانصافی اور خانہ جنگی نے عوام کو مزید غبرت اور پسماندگی میں دھکیل دیا ہے۔ ان خطوں میں چین نے سرمایہ کاری کا سلسلہ شروع کیا ہے اور یورینیم برآمد کررہا ہے مگر اس کے باوجود عوام کی پسماندگی اپنی جگہ موجود ہے۔ بے روزگاری، بے امنی، لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم رہتا ہے اس پر خشک سالی اور بیماریوں نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ آبادی کا زیادہ انحصار زراعت پر ہے، مگر خشک سالی اور موسمی تغیرات نے بھی منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ نائجر میں اموات کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ خوراک اور علاج معالجہ کی سہولتوں میں شدید کمی کی وجہ سے بچوں کی اموات کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔
ملاوی/ مالی : جمہوریہ ملاوی یا مالی جنوب مشرق افریقا کا چھوٹا ملک ہے ۔آبادی دو کروڑ سے زائد ہے۔ غریب ترین ممالک میں شمارہوتا ہے،آبادی کا بڑا حصہ زراعت سے وابستہ ہے۔ سالانہ فی کس آمدنی گیارہ سو اسی ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ آبادی میں اضافہ، وسائل اور تعلیم کی کمی سماجی پستی کا سبب ہیں۔ خوراک اور صحت عامہ کی سہولتوں کی کمی کی وجہ سے بچوں کی اموات کا اوسط زیادہ ہے۔ ملاوی کی حکومت بیرونی امداد سے تعلیم، صحت عامہ اور انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے کی جدوجہد کررہی ہے۔ملاوی دیگرترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کی طرح مختلف سماجی برائیوں اور کرپشن کا شکار ہے کم سن بچوں کی شادیاں، انسانی اسمگلنگ اور رشوت ستانی عام ہے۔ جرائم کا اوسط بھی زیادہ ہے۔ پچاس فیصد آبادی دیہی علاقوں میں آباد ہے جہاں جدید سہولتوں کا فقدان ہے۔ زرعی پیداوار میں آلو، تمباکو، گنا، کپاس، چائے اور سورگم کی کاشت نمایاں ہیں۔ پرائمری کی تعلیم لازمی اور مفت ہے۔ جس میں اقوام متحدہ اور دیگر فلاحی تنظیمیں امداد دیتی ہیں۔
گنی : براعظم افریقا کے مغربی حصے میں واقع گنی کی آبادی سوا کروڑ سے کچھ زائد افراد پر مشتمل ہے۔ ملک میں خواندگی کی شرح 40فیصد ہے، جبکہ فی کس سالانہ آمدنی 1270 ڈالرکے لگ بھگ ہے۔ گنی باوجود اس کے کہ ایلومینیم پیدا کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے اور اس کے پاس قیمتی معدنیات وافر ذخائر میں دریافت ہوچکے ہیں پھر بھی غریب ترین ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر شمار ہوتا ہے۔ غربت، پسماندگی اور کرپشن کی بڑی وجہ یہ ہے کہ، انیسویں صدی میں فرانس نے اس پر قبضہ کرکے اپنی نوآبادیات میں شامل کرلیاتھا، جس کے بعد لوٹ کھسوٹ ظلم و جبر کا بازار گرم ہوا۔ ہزاروں کاشت کاروں کو جبراً اغوا کرکے انہیں انسانی منڈیوں میں فروخت کیا جاتا رہا۔ آج بھی آبادی کی اکثریت زراعت پر گزارا کرتی ہے۔ ملک میں بدامنی، قبائلی تنازعات اور کرپشن کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔
مڈغا سکر : مڈغا سکر کا پہلے نام ملاگاسی تھا بحر ہند میں واقع یہ حسین ترین جزیرہ دنیا کا چوتھا بڑا جزیرہ ہے۔ انیسویں صدی میں فرانس نے اس جزیرہ پر بھی قبضہ کرکے اپنی نوآبادیات میں شامل کرلیا تھا۔ 1960ء میں اس کو آزادی نصیب ہوئی۔ اقوام متحدہ کی فہرست کے مطابق یہ ملک دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میںساتویں نمبر پر ہے۔ آبادی سوا دو کروڑ اور رقبہ چھ لاکھ مربع کلومیٹر کے قریب ہے۔ سالانہ فی کس آمدنی سولہ سو ستر ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ قدرت نے اس جزیرے کو حیاتیات اور نباتیات کا خزانہ بخشا ہے۔ غربت اور پسماندگی کی وجہ سے اکثریت کا گزارا زراعت، ماہی گیری اور جنگلات کی کٹائی پر ہے۔ زرعی پیداوار میں چاول، کافی، پام آئل، سلک اور جانوروں کی افزائش نسل ہے۔ ستر فیصد آبادی غربت اورپسماندگی کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر غیرسرکاری اداروں نے 2004ء میں مالی امداد دے کر مڈغاسکر کی معیشت کو جو صفر ہوچکی تھی پھر سہارا دیا۔ امریکی بزنس کونسل کی امداد سے انفرا اسٹرکچر، صحت عامہ اور تعلیم کے شعبوں کو فروغ کا عمل جاری ہے۔
وفاقی جمہوری عوامی ایتھوپیا : ایتھوپیا کی شمال اور شمالی مغربی سرحد جبوتی،صومالیہ سے سوڈان اور جنوبی سرزمین مغرب سے اور جنوب میں کینیا سے ملتی ہے ۔ آبادی دس کروڑ سے زائد ، جبکہ گیارہ لاکھ سے کچھ زائد مربع کلو میٹر علاقے پر مشتمل ہے۔ معیشت میں بہتری ہونے کے اقدامات کے باوجود ایتھوپیا فی کس سالانہ آمدنی کی فہرست میں نچلے پسماندہ ممالک میں شمار ہورہا ہے۔ آبادی میں اضافے کے اوسط کے لحاظ سے دنیا کے دس ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ اس ملک میں یہودی، عیسائی، اور مسلمان آباد ہیں۔صحت عامہ، تعلیم کے شعبے قدرے بہتر ہیں، تعلیم کا اوسط پچاس فیصد کے لگ بھگ ہے۔سالانہ فی کس آمدنی دوہزارڈالر سے کم ہے۔ قدرتی ذخائر ہونے کے باوجود یہ استحصال کا شکار ملک ہے۔
موزمبیق : براعظم افریقا کا یہ غریب ترین ملک جس کو اٹھارہویں صدی میں موزمبیق کا نام دیا گیا جنوب مشرقی افریقا میں بحر ہند کے ساحلوں پر واقع ہے،اس کا رقبہ آٹھ لاکھ مربع کلومیٹر اور آبادی تین کروڑ پچانوے لاکھ کے قریب ہے۔ 1496میں پرتگیزی جہازوں واسکو ڈی گمانے یہ خطہ دریافت کیاتھا تب سے بیسویں صدی تک یہاں پرتگیزوں کی حکمرانی رہی اور موزمبیق خطے کی دیگر پرتگیزی کالونیوں میں شمار کیا جانے لگا۔ ملک کی فی کس آمدنی1290ڈالر ہے، جبکہ عام شہری ایک سے دوڈالر روزانہ پراپنی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ ہرچند کہ موزمبیق قدرتی وسائل سے مالامال ہے ،مگر ان وسائل کا سارا فائدہ جنوبی افریقا، پرتگال، اسپین اور بیچلم کے ملٹی نیشنل ادارے حاصل کررہے ہیں۔ عوام غربت، پسماندگی، ناخواندگی اور بیماریوں سے نڈھال ہیں۔(ختم شُد)
�������������������
دنیا میںمعاشی ترقی کے لئے مقابلے کا رُجحان