مفتی رفیق احمد کولاری
اسلام ہمیشہ انسانیت کا خیر خواہ مذہب رہا ہے۔ انسانیت کے لیے جن چیزوں میں خیر و بھلائی پنہاں ہے، ان سب کی حفاظت وصیانت کا علمبردار ہے اسلام۔ بالخصوص اسلام ماحول کو تمام تر آلودگیوں سے پاک وشفاف رکھنے اور اس کو قدرتی طور پر برقرار رکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ اسی کی ایک اہم کڑی ہے، شجرکاری یعنی پیڑ پودے لگانا اور اس کی دیکھ ریکھ کرنا وغیرہ وغیرہ۔
پیڑ پودوں اور درختوں کا نسل انسانی پر بہت بڑا احسان ہے۔ درخت انسانی زندگی کا ایک جزء لا ینفک ہے جو کبھی انسانی زندگی سے الگ ہو نہیں سکتا۔ انسان کے تنفس کا اہم ذریعہ درخت ہے، محققین اور سائنس دانوں کی تحقیق کے مطابق درخت انسانوں کو آکسیجن سپلائی کرتاہے، اور انسان جس نیٹروجن کو باہر چھوڑتا ہے پیڑ پودے اس کو اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں اور ماحول کو آلودگیوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔مذکورہ بالا تمام باتوں سے یہ بات مہر نیم روز کی طرح عیاں ہے کہ درخت اور شجرکاری کی اسلام اور نسل انسانی میں کتنی اہمیت حاصل ہے۔ آئیے! اب ہم تھوڑی دیر احادیث نبویہ کی سیر کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں، محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شجرکاری کے متعلق کیا ارشاد فرمایا۔ مطلب برسر آمدم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’جو مسلمان دَرخت لگائے یا فَصل بوئے،پھر اس میں سے جو پرندہ یا اِنسان یا چوپاے کھائے تو وہ اس کی طرف سے صَدقہ شُمار ہو گا۔ (صحیح بخاری) سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جو کوئی درخت لگائے،پھر اس کی حفاظت اور نگرانی کرتا رہے، یہاں تک کہ وہ درخت پھل دینے لگے،وہ اس کے لئے اللہ کے یہاں صدقہ کا سبب ہوگا۔(مسند احمد) سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:’’اگر قیامت کی گھڑی آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں پودا ہے اور وہ اسے لگا سکتا ہے تو لگائے بغیر لگائے بیکار کھڑا نہ ہو۔(مسند احمد)رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو مسلمان بھی پودا لگائے گا اور اس سے کچھ کھا لیا جائے گا وہ اس کے لیے صدقہ ہوجائے گا، اور جو چوری کر لیا جائے وہ قیامت تک کے لیے اس کے لئے صدقہ ہوجائے گا۔(صحیح مسلم)
اس کے علاوہ بھی کتب احادیث میں شجرکاری کی ترغیب والی کافی فرامین نبوی ملتے ہیں جو حد وشمار سے بالا تر ہیں۔ ہم انہیں روایات پر اکتفاء کرتے ہوئے اب آپ کے سامنے شجر کی پامالی یا درخت کی کٹائی کے متعلق چند روایات نقل کرتے تاکہ آپ کو ان احادیث سے اندازہ ہو جائے گا کہ اسلام میں درخت کی کٹائی کی کتنی سخت اور شدید ممانعت وارد ہوئی ہے۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے جو بیری کا درخت کاٹے گا، اسے اللہ تعالیٰ اوندھے منہ جہنم میں ڈالےگا۔(سنن ابو داو?د) اس حدیث میں سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیری کے درخت کو کاٹنے سے منع فرمارہے ہیں اس مطلب یہ نہیں کہ صرف بیر کے درخت کاٹنے کی ممانعت ہے بلکہ حدیث کے دامن میں کافی معنوی وسعت ہے، بیر عرب میں زیادہ پایا جاتا ہے، اس لئے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بالخصوص بیر کا ذکر فرمایا ورنہ اور کوئی بات نہیں۔ ایسے ہی متعدد جنگ و غزوات کے مواقع پر بھی آپؐ نے لشکر کو نصیحت کرتے ہوئے درخت کی کٹائی سے منع فرمایا جیسے کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں حضور نبی اکرمؐجب اسلامی لشکر کو مشرکین کی طرف روانہ فرماتے تو یوں ہدایات دیتے: ’’کسی بچے کو قتل نہ کرنا، کسی عورت کو قتل نہ کرنا، کسی بوڑھے کو قتل نہ کرنا، چشموں کو خشک و ویران نہ کرنا، درختوں کو نہ کاٹنا۔‘‘(بیہقی)
آج جہاں روڑوں اور سڑکوں کی توسیع کے نام پر شجر کٹائی کا کام ہورہا ہے، وہی کچھ احباب قابلِ ستائش ہیں جو مہم شجرکاری کو لیکر چلتے ہیں اور گھر گھر قریہ قریہ بستی بستی پودہ لگانے کی مہم چلاتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ کوئی تو ہے جیسے انسانیت اور قدرتی وسائل کی حفاظت کی فکر دامن گیر ہے، اللہ اس مہم کے علمبرداروں کے حوصلوں کو سلامت رکھے اور اس مہم کو پوری دنیا میں انہیں پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آخر میں جملہ قارئین سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ جہاں کہیں بھی سکونت اختیار کریں، وہاں پر ضرور ایک تناور درخت لگانے کی کوشش کریں اور اگر کسی کو گھر بنانے کی توفیق میسر ہو جائے تو پہلے اس مجوزہ گھر کے اردگرد چند اچھے پھل دار درخت لگا دیں تاکہ وہ اور اس کی آنے والی نسلیں اس درخت سے فائدہ حاصل کریں ۔اللہ تعالی سے دعا گو کہ ہم سب کو شجرکاری اور درخت کی حفاظت کرنے کی توفیق رفیق عنایت فرمائے ۔آمین
[email protected]>