محمد سعدان
ترکی ایک صدی کے بعد پھر سے پوری دنیا کی نگاہوں اور عالم اسلام کی امیدوں کا مرکز بن گیا ہے ۔ اب سے سوسال قبل بھی ترکی دنیا کا ایک اہم موضوع تھا اور اب صدی گزرجانے پر ایک بار پھر سے دنیا بھر میں بحث و مباحثہ کا اہم عنوان بن گیا ہے ۔
سلطنتِ عثمانیہ کی تاریخ : سلطنت عثمانیہ جس کے حدود افریقہ ، ایشیاء اور یوروپ تک پھیلے ہوئے تھے ۔ مغرب کے اقتدار پرستوں پر لرزہ طاری کرنے کے لئے کافی تھا ۔ یہ سلطنت یورپ اور ایشیاء ہینہیں بلکہ اسلام اور عیسائیت کے بیچ خط فاصل کھینچا کرتے تھے ۔ اناطولیہ میں ترک کے قبائل کے ایک رہنما عثمان اول نے 1299 کے آس پاس سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی اور عثمانی ترکوں نے باضابطہ طور پر اپنی حکومت قائم کی ۔ یہ حکومت تقریباً 625 سال تک رہی ۔ یہ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں ،17 ویں صدی) یہ سلطنت تین بر اعظموں پر پھیلی ہوئی ایک عظیم الشان سلطنت تھی ، جنوب ، مشرقی یوروپ ، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیرِ نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر ، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں سے لے کر سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) تک ، جنوب میں سوڈان ، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی، اسی طرح مالدووا ، ٹرانسلوینیا اور لاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ تقریباً اس کے 29 صوبے تھے ۔ سلطنتِ عثمانیہ میں تقریباً 37 سلاطین ہوئے ۔
زوال کا آغاز: سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بارے میں معروف امریکی تاریخ داں’برنارڈ لوئس‘ نے 1952 میں ایک تفصیلی مضمون لکھا تھا ،جسے سلطنت عثمانیہ کے زوال کے اسباب سمجھنے کے لیے اہم تصور کیا جاتا ہے ۔برنارڈ لوئس کے مطابق سلطنت عثمانیہ کا انتظامی ڈھانچہ اور معیشت 1600ء کے بعد بتدریج کمزور ہونا شروع ہوگئے تھے اور یہی دو مسائل آنے والے حکمرانوں کے لئے بڑا چیلنج ثابت ہوئے۔معیشت اور نظام حکومت کی کمزوری کی وجہ سے عثمانیوں کو یوروپ میں حاصل عسکری بالادستی پر بھی زوال آیا۔ دوسری جانب یوروپ میں نشاۃ ثانیہ اور صنعتی انقلاب کا دور شروع ہوچکا تھا ، اس کے علاوہ عثمانی سلطنت میں اقتدار کی چپقلش اور مغربی ممالک سے تجارتی مسابقت میں ناکامی نے سلطنت کو مزید کمزور کردیا اور بالآخر 1923ء میں باضابطہ اس کے خاتمہ کا اعلان کردیا گیا۔
معاہدۂ لوزان: ۔
معاہدۂ لوزان 24 جولائی 1923 کو سوئٹزرلینڈ (Switzerland) کے شہر’’لوازن‘‘ میں جنگ عظیم اول ( جو 1914ء سے 1918ء تک لڑی گئی ، اس میں دنیا دو خیموں میں بٹ گئی تھی) کے اتحادیوں ( برطانیہ ، آئیر لینڈ ، فرانس ، روس، اٹلی ، جاپان) اور ترکی کے درمیان طے پایا تھا ۔ اس معاہدے سے قبل ہی ترکی ایک مرد بیماربن گیا تھا، اس معاہدے نے اسے مفلوج کردیا۔معاہدہ میں ایسے شرائط رکھے گئے جو ہر کس و ناکس بآسانی سمجھ سکتاہے ہے کہ یہ معاہدہ کیوں ہوا تھا۔
معاہدے کے چند اہم دفعات:۔
(1) اسلامی خلافت ختم کی جائے گی اور اس کی جگہ سیکولر ریاست قائم ہوگی(2) عثمانی خلیفہ کو ان کے خاندان سمیت ملک بدر کیا جائے گا (3) خلیفہ کی تمام مملوکات ضبط کر لی جائیں گی ، جس میں سلطان کی ذاتی املاک بھی شامل ہوں گی(4) ترکی پٹرول کے لئے نہ اپنی سرزمین پر نہ ہی کہیں اور ڈرلنگ (Drilling) کر سکے گا ، اپنی ضرورت کا سارا پٹرول اسے امپورٹ کرنا ہوگا(5) باسفورس عالمی سمندر شمار ہوگا اور ترکی یہاں سے گزرنے والے کسی بحری جہاز سے کسی قسم کا کوئی ٹیکس وصول نہیں کرے گا۔
یہاں یہ بات بتا دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ باسفورس ترکی کے ماتحت آتا تھا مگر اس معاہدے نے اسے عالمی بنادیا ۔
معاہدہ لوزان نے نہ صرف ترکی کو کمزور کیا بلکہ معاشی اعتبار سے اس کی کمر توڑدی ، لیکن 2023ء میں اس معاہدہ کی تاریخ ختم ہو رہی ہے اور ترکی کے اوپر سے وہ تمام ناجائز پابندیاں جو ایک منظم سازش کے تحت لگائے گئےتھے ختم ہو جائیں گی ، اس کے بعد ترکی عالمی سمندر باسفورس سے گزرنے والے ہر جہاز سے ٹیکس وصول کرسکے گا ساتھ ہی ساتھ اس پر سے ڈرلنگ (Drilling) نہ کرنے والی پابندی بھی ختم ہوجائے گی تو پھر وہ اپنے ملک یا کہیں اور سے تیل نکال سکے گا ۔ اس کی جھلک ابھی سے ہی ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے بیانات میں دِکھ رہے ہیں۔ 2023ء کو لے کر انہوں نے کئی بیانات دے چکے ہیں ، اس لئے دنیا کے تمام بڑے بڑے ممالک کی نگاہیں نہ صرف ترکی پر ہے بلکہ رجب طیب اردوغان پر بھی ہے ، تو دوسری طرف عالم اسلام اور مسلمان اردوغان کی طرف پر اُمید نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ۔ یقیناً وہ ممالک جو 1923ء سے پہلے ترکی کے زیر اثر تھے، اب نہیں آئیں گے اور نہ ہی زمانہ قریب میں خلافت کے قیام کا امکان ہے، اس کے باوجود ان کی نگاہ بھی 2023ء پر ہے ، اس کے ساتھ ساتھ ترکی معاشی اعتبار سے ایک سپر پاور بن کر ابھر سکتاہے ۔
(رابطہ۔9472783918)
<[email protected]
معاہدۂ لوازن ؔکے سو سال مکمل