حافظ پیر مجید
زندگی بہت بڑی نعمت ہے ،ایسی نعمت جس کا کوئی بدل نہیں جو جانے کے بعد واپس نہیں آتی۔ انسان یہ نعمت اپنی محنت اور کوشش سے حاصل نہیں کرتا بلکہ کائنات کے رب کا عطیہ ہے ،جو علم و تحقیق کی ترقی کے باوجود بھی ایک سربستہ اور پوشیدہ راز ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں لوگ حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے روح کے بارے پوچھتےہیں ۔ آپؐ فرمادیں، روح میرے ربّ کے حکم اور فرمان سے ہے ۔ اس کا مطلب انسان اپنی زندگی کا مالک نہیں ہے بلکہ یہ زندگی ایک امانت ہے، زندگی اس نے حاصل نہیں کی ہے بلکہ اسے عطا کی گئی ہے، ممکنہ حد تک اس کی حفاظت انسان کی ذمہ داری ہے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماری کے علاج کی تاکید فرمائی ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنا علاج کرایا، اسی لیے علماء نے لکھا ہے کہ علاج کرانا توکل کے خلاف نہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایسی چیز کے کھانے سے منع فرمایا جو نشہ آور ہو اور جسم کو تکلیف پہنچانے والی ہو۔ اس کے علاوہ اسلام نے تو اللہ کی عبادت جو اس کی تخلیق کا مقصد ہے، اس میں بھی ایسے غلو کو پسند نہیں کیا کہ انسان اپنی صحت کو برباد کرے اور جان کو مشکلات میں ڈالے۔
یہی وجہ ہے ماضی میں جب لوگوں کا ایمان قوی تھا اور دین حنیف سے ان کا رشتہ مضبوط تھا اور کفر و گناہوں کی کثرت کے نتیجے میں جو بدعادات اور اخلاقی گراوٹیں غیر قوموں میں رچی بسی تھی، ان سے مسلمان محفوظ و مامون تھے ۔ لیکن جب سے مسلمانوں کے دلوں میں اس دین حنیف کی جڑیں اکھڑ گئ یا کمزور ہو گئی اور یورپی اور مغربی سامراج کے پراگندہ افکار اور ناپاک خصلتوں کی سوغات آئی،جس کی الم ناکیوں سے مسلم سماج چیخ اٹھا اور پوری طرح متاثر ہوا اور وہ گندی اور گھناونی حرکات مسلم سماج میں داخل ہو گئی۔ انہی گندی حرکات میں سے خود کشی بھی ہے، جسکے واقعات ان دنوں بکثرت رونما ہورہے ہیں ۔ خود کشی کیا ہے ؟ خود کشی کم ہمتی اور بزدلی کی دلیل ہے اور یہ کمزور و مایوس لوگوں کے لیے زندگی کے مسائل و مشکلات آزمائشوں اور ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرنے کا ایک غیر اسلامی ،غیر اخلاقی اور غیر قانونی طریقہ ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت پوری دنیا کے محروم القسمت لوگوں میں اپنی ذمہ داریوں سے بے اعتنائی اور ایمان سے محرومی یا کمزوری کے باعث خود کشی کا رُجحان آئے دن بڑھتا جا رہا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر سال دس لاکھ انسان خودکشی کرتے ہیں۔ اس حساب سے دنیا میں ہر 40 سیکنڈ بعد ایک شخص خود کشی کرتا ہے ۔
عموماً ایسے واقعات جو تمام تر ایمان کی کمزوری اور اسکے فقدان یا شیطانی مکر کا نتیجہ ہیں، جس کی بنا پر انسان اس فعل بد کا ارتکاب کرتا ہے۔
کوئی شخص امتحان میں ناکام ہوگیا،یا کوئی شخص جوا بازی میں ہار گیا اور اسے برداشت نہ ہوا ،وہ خود کشی کر بیٹھا ۔یا وہ قرض کے بوجھ تلے دب گیا اور ادائیگی کے واسطے اس کے پاس رقم نہ رہی،یا اس کا محبوب boy friend یا girl friend اُسے جدا ہو گئےیا کسی عورت نے اس لیے خود کشی کی، سسرال والوں کی ظلم و زیادتی حد سے آگے بڑھ گئی۔یا اس کا پسندیدہ لیڈر ، ہیرو،سنگر مرگیا یا وہ جس کرکٹ ٹیم یا فٹبال ٹیم کو سپورٹ کرتا تھا ،وہ ہار گئی، اُسے برداشت نہ ہوا اور وہ خود کشی کر بیٹھا۔اسی طرح کسی کے پاس family کے گزر بسر کے لئے آلات نہیں تھے ،نہ کوئی مزدوری تھی، وہ پریشانی میں آکر جان گنوا بیٹھا ۔
ورنہ سچ تو یہ ہے اگر اسے اتنا ایمان نصیب ہوتا، جس سے اس کے دل میں یہ یقین پیدا ہوتا کہ ہر چیز اللہ تعالی کے قبض قدرت پر منحصر ہے، وہ اس فعل بد ارتکاب نہ کرتا۔
اس میں شک نہیں کہ کسی کو ناحق مار ڈالنا شرک کے بعد ایک بدترین اور ذلت آمیز گناہ ہے اور جب تمام مذاہب کے ماننے والوں اور دانشوروں اور ان کے ماہرین کے نقطہ نظر سے کسی دوسرے کو جان سے مار ڈالنا حرام ٹھہرا تو اس سے ثابت ہوا ،کسی انسان کا اپنے آپ کو مار ڈالنا کتنا بڑا حرام کام اور کیسی گھناؤنی حرکت ہوگی۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اس قسم کی مذموم حرکت وہی کرے گا، جس کا دامن ایمان کی پونجی اور عقل و ہوش کی دولت سے خالی ہوگا، یا اللہ پر اس کا ایمان کمزور ہوگا کہ اس نوع کے فعل بد کے ارتکاب سے اس کا ضمیر اسے روکنے کی طاقت نہ رکھتا ہوگا، جہاں اس کی بے ایمانی بدحواسی اور نادانی خود کشی کے لیے آمادہ کرتی ہوگی ۔وہیں یہ بھی ثابت ہوتی ہےکہ اس شخص کی نظروں میں زندگی کی نعمتوں کی کوئی قدر نہیں۔ حالانکہ ایمان و یقین کی دولت اور اسلام کے اس لازوال سرمایہ کے بعد کسی انسان کے حق میں اس کی زندگی نعمت قدرت کا زریں عظیم ترین عطیہ ہوتی ہے ۔ کوئی خود کشی کرنے والا اس فعل بد کے جواز کے لئے خواہ کتنی ہی گنجائش اور حیلے کیوں نہ تلاش کرلے، اس کا یہ اقدام کسی صورت بجا ثابت نہ ہو سکے گا۔ نہ کوئی دلیل اور حجت پیش کر سکے گا جس سے قدرت کے انتقام اور عذابِ الٰہی سے وہ اپنے آپ کو بچاسکے ۔
یہ سچ ہے حوادث زمانہ کی آزمائش ہر شخص کے حق میں یکساں نہیں ہوتی۔ کچھ لوگ وہ بھی ہوتے ہیں جو بڑی سی بڑی تکلیف بھی برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور کچھ لوگ معمولی حادثے سے پریشان ہوکر جزع فزع پر اتر آتے ہیں۔ مگر کامیاب شخص وہ ہے جو ہمت و حوصلے کے ساتھ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرے اور دل ہارنے کے بجائے ہمت و استقلال کا ثبوت پیش کرے۔ اللہ تعالی اپنے بندوں کے گناہوں کو مٹاتا ہے اور درجات کو بلندی کرتا ہے۔ جو لوگ آزمائشوں میں پورا پورا اترتے ہیں ،وہ اللہ کے سایہ میں آجاتے ہیں اور جو ناکام ہوتے ہیں وہ خود کشی کو راہ نجات سمجھتے ہیں ،وہ نہ صرف یہ کہ اپنا دنیاوی نقصان کرتے ہیں بلکہ اپنی آخرت بھی تباہ و برباد کر لیتے ہیں۔ انسان کو اللہ پر مکمل بھروسہ ہونا چاہیے اور یہ بات بھی دل سے باندھ لینی چاہیے کہ سب تکلیفوں اور مصیبتوں کو ختم کرنے والی ذات صرف اور صرف اللہ تعالی کی ذات ہے، ایسے حالات میں سماج کے سربراہ افراد والدین اور سرپرستوں کا کلیدی رول ہوتا ہے کہ وہ پریشان حالوں کو سمجھائیں ،ان کو حوصلہ دے اور ان کی ہر ممکن اعانت کرے تاکہ وہ خود کو تنہا محسوس نہ کریں۔
ہم مانتے ہیں حالات کے ستائے ہوئے افراد ہی خود کشی کی طرف مائل ہوتے ہیں لیکن یہ زندہ حقیقت ہے اس کا واحد حل صبر و برداشت ہے اور سب سے بڑی بات صبر والوں کے ساتھ اللہ کی مدد ہے ۔ ایسے انعام سے منھ موڑ کر جہنمی عمل کو گلے لگانا کتنی کم ظرفی اور کیسی محرومی کی بات ہے۔ اس رخ سےمعاشرے کے مرد و خواتین کو غور کرنا چاہیے۔ ہم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ صبر و شکر کرنے والوں کے لیے انعامات کی بشارتیں ہیں اور آخرت کی فلاح سے منھ موڑ لینا خلاف عقل بات ہے۔ اس لئے خدارا کسی بھی قدم کو اٹھانے سے پہلے یہ غور کرلیں کہ اس میں آخرت کا نفع ہے یا نقصان۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مصائب و مشکلات کی اندھیرے ہوں یا مجبوریوں اور ناامیدیوں کی تاریکیاں، اس عظیم امانت الٰہی کو لمحوں میں ضائع کردینا نہ تو اسلام میں جایز ہے نہ انسانیت میں مستحسن ہے، پھر انسان کے لیے من جانب اللہ اسکے جسم و جان کی حفاظت کے لیے جو اسباب مہیا ہیں، ان کی مثال کسی مخلوق میں نہیں ملتی۔ اس کے باوجود اگر کوئی اپنے آپ کو ہلاک کرتا ہے تو وہ خود اپنے آپ کو محروم کرتا ہے۔۔ اسی لیے رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کشی کرنے والوں کے متعلق سخت وعید ارشاد فرمائی ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،جس شخص نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر خود کشی کرلی وہ شخص دوزخ میں ہمیشہ گرایا جائے گا۔ جو شخص زہر پی کر خود کشی کرے گا اس کا زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ جہنم کی آگ میں پیے گا اور جس شخص نے اپنے آپ کو لوہے کے ہتھیار جیسے، چھری وغیرہ سے مار ڈالا، اس کا وہ ہتھیار دوزخ کی آگ میں ہوگا جس کو وہ اپنے پیٹ میں بھونکے گا اور وہ دوزخ میں ہمیشہ رہے گا۔ (بخاری۔ مسلم)
حضرت جندب ابن عبداللہؓ کہتے ہیں ،ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں میں ایک شخص تھا، جس کا ہاتھ کسی طرح زخمی ہوگیا تھا جب اسے زخم کی تکلیف برداشت نہیں ہوئی تواُس نےچُھری اٹھائی اور اپنے ہاتھ کو کاٹ ڈالا، اس کا نتیجہ یہ ہوا زخم کا خون نہ رکا اور وہ مرگیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرے بندے نے اپنی جان کے بارے میں میرے فیصلے کا انتظار نہیں کیا۔ لہٰذا میں نے اس پر جنت حرام کر دی۔ (بخاری مسلم)
(رابطہ۔ 9682332402)
[email protected]
اسلام میں خود کشی کی مذمت اور ہمارے معاشرے کی غفلت