اسلم رحمانی
مسلمانوں کے خلاف تشدد قدیم زمانے سے لے کر قرون وسطیٰ اور جدید دور، دونوں میں رائج رہا ہے۔ یہ تشدد کی وجہ یا تو ان کی مذہبی وابستگی ہے یا پھر نسلی وابستگی ہے، مسلمانوں پر تشدد یا ظلم و ستم کی تاریخ کا آغاز پیغمبر اسلام حضرت محمد ؐکے دور سے شروع ہو چکا تھا۔ ابتداء میں مکہ کے قریش سردار نو مسلم صحابہؓ، خصوصًا غلاموں اور عورتوں کو تشدد کا شکار بنا چکے ہیں۔ صلیبی جنگوں کے دوران مسیحی پاپایان، حکمران، فوجی سردار، عام فوجی، یہاں تک کہ عام صلیبیوں نے کافی سفاکی سے مسلمانوں پر حملے کئے، یہاں تک کہ اذیت ناک موت کا نشانہ بنایا۔ منگول حملہ آوروں نے بھی وحشیانہ سلوک مسلمانوں کے ساتھ رواں رکھا۔ جدید دور میں بھی مسلمانان ِہند ،فرقہ پرست عناصر کے جبر و ستم کا شکار ہیں۔اس وقت ملک نفرت،تعصب اور مذہبی انتہاپسندی کی لپیٹ میں ہے،نام نہاد سیکولر اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والی موجودہ حکومت میں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ملک کی سرزمین مسلمان اقلیت پر تنگ کردی گئی ہے ،انتہا پسندوں کا جب جی چاہتا ہے ،وہ مسلمانوں کا قتل کرتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں ۔اس وقت ملک میں ایسی صورت حال بنی ہوئی ہےکہ نہتے مظلوم، عاجز و لاچارہیں۔ انتہا پسندی اور نفرت کے میدان سجائے جاتے ہیں ۔بھارت میں انتہا پسند ہندو ،لو جہاد اور گئورکشا کے ہتھیاروں کا استعمال کرکےبلا خوف و کھٹکے سر عام مسلمان کا قتل کررہے ہیں اور مہذب دنیا میں کوئی سوال تک نہیں اٹھا رہا ہے،جوکہ آج کی جدید دنیا میں ایک بڑا سانحہ ہے۔ ہریانہ میں دو مسلم نوجوانوں جنید اور ناصر کو زندہ جلانے کی تازہ ترین واردات تمام دنیا دیکھ رہی ہے،جس سے ملک کی ساکھ کو زخ پہنچتا ہے۔اس واقعے کی لفظی منظر کشی بیان بیان کرناانتہائی درد ناک ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق 16 فروری 2023 کو ریاست ہریانہ میں ایک جلی ہوئی جیپ سے دو نوجوانوں کی سوختہ لاش ملی ہے۔ لاشوں کی شناخت 25 سالہ ناصر اور 35 سالہ جنید کے نام سے ہوئی ہے۔دونوں نوجوانوں کا تعلق راجستھان سے ہے اور انھیں اغوا کرکے انہی کی گاڑی میں ہریانہ لایا گیا تھا جہاں پہلے انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر زندہ جلا دیا گیا، لاشیں ناقابل شناخت تھیں، دونوں کو گاڑی کی نمبر پلیٹ سے شناخت کیا گیا۔جنید کے کزن نے میڈیا کو بتایا کہ جب کئی گھنٹوں بعد بھی دونوں کا کچھ پتہ نہیں چلا تو پولیس میں گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی گئی، اسی دوران دو نوجوانوں کی بجرنگ دل کے کارکنان کے ہاتھوں اغوا کی خبر پر ہم لوگ پھر تھانے گئے۔مقتولین کے اہل خانہ نے الزام عائد کیا ہے کہ بجرنگ دل کے کارکنان شدید زخمی حالت میں مسلم نوجوانوں کو تھانے لائے تھے لیکن پولیس نے انہیں اپنی تحویل میں نہیں لیا، جس کے بعد بجرنگ دل کے کارکنان نے انھیں گاڑی میں جلادیا۔
مسلمانوں کے قتل کا یہ معاملہ کوئی نیا نہیں ہے۔ ماب لیچنگ کے مختلف واقعات میں کئی مسلمانوںکی ہلاکت ہوچکی ہے۔ اس سےقبل بھی 2018 میں اسی راجستھان کے ایک شخص شمبھو لال نے ایک ایسے مسلمان مزدور کا قتل کیا تھا ،جسے وہ جانتا تک نہیں تھا کہ وہ کون ہے ،محض مسلمان ہونے کی وجہ سےاس درندہ صفت شخص نے اُس غریب مزدور کا قتل کرکے جلادیاتھا۔ جو اُودئے پور میں دس سال سے رہائش پزیر تھا ۔ویڈیو میں دیکھایا گیا تھاکہ شمبھو لال پہلے مزدور پر کلہاڑیوں کے وار کرتا ہے ،جب وہ مزدور مرجاتا ہے تو اس کے بعد اس کی لاش کو آگ لگا دی جاتی ہے ۔شمبھو لال نے گھناونی واردات کی ،پھر ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کی۔ لیکن ابھی تک اس قاتل کو سزا نہیں دی گئی۔ آج ایک بار پھر دومسلمان نوجوانوں کو بہیمانہ طورپر تشدد کا نشانہ بنا کر انہیں نذر آتش کرنے میں بجرنگ دل کے ایک رکن مونو مانیسیر کا نام سامنے آرہا ہے، جس کی مختلف تصاویرسوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہیں جن میں وہ ملک کے کئی نامور سیاسی لیڈروں کے ساتھ بھی نظر آرہا ہے،اور سیاسی مفادات کی خاظراُسے بچانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔
وطن عزیز میں انتہا پسندی ،دہشت گردی ،تعصب اور نفرت کی جو آگ بھڑک رہی ہے ،بدقسمتی سے اسے ریاست کی سطح پر فروغ دینے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔بھارتی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے جس طرح لَو جہاد اور گئورکشا کے نام پر نفرت کے پرچار فروغ دینے کا سلسلہ جاری ہے،اس کا انجام بھارت کے لئے المناک تصور کیا جارہا ہے۔اور ایسا محسوس کیا جارہا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف پائی جانے والی انتہا پسندی حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھائی جا رہی ہے۔ پورے ملک میں بدامنی اور بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ چند فرقہ پرست تنظیمیں،جنہیں سیکولر نظام بالکل پسند نہیں ہے، وہ ساری اقلیتوں کو اپنے اندر جذب کرنے یا ان کا صفایا کرنے کے لئے بے تاب نظر آرہی ہیں،جس سے ملک بربادی کی طرف جارہا ہے۔اقلیتیں اور نچلی ذات کے ہندو،غیر محفوظ دکھائی دے رہیںجبکہ ہرپُر امن عام شہری بھی اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتا ہے۔ دنیا بھر کے آزاد ماہرین اور میڈیا کی رپوٹیں اس بات کی تصدیق کررہی ہیں کہ یہ صورت حال ہندوستان کےامن کیلئے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔موجودہ حکومت اس صورت حال پر پوری طرح سنجیدہ نظر نہیں آرہی ہے،اور یہ حق بات ہے کہ اگر اس دہشت گردی اور انتہا پسندی کو نہ روکا گیا تو ملک کا امن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔کیونکہ ایسے منافرعناصر کے کردار و عمل سے ملک کے سیکولرازم کا چہرہ مسخ ہو چکا ہے۔
جنید اورناصر قتل کیس کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’مبینہ گئو رکھشک ‘‘ ان دونوں مسلم نوجوانوں کو زدوکوب کرنے کے بعد ہریانہ پولیس کے پاس لے گئے۔ مبینہ گئؤ رکھشکوں نے جنید اور ناصر کو گائے کی اسمگلنگ کے شبہ میں اغوا کیا۔’’ گزشتہ روز پولیس نے پہلے ملزم ٹیکسی ڈرائیور رنکو سینی کو گرفتار کیا تھا۔ ملزم رنکو سینی سے پوچھ گچھ میں کچھ اہم معلومات سامنے آئے ہیں۔این ڈی ٹی وی نے اپنی خاص رپورٹ میں بتایا کہ ذرائع کے مطابق رنکو سینی
نے اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ مل کر جنید اور ناصر کو روکا۔ رنکو نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر جنید اور ناصر کو گائے کی اسمگلنگ کے شبہ میں مارا پیٹا تھا۔ مار پیٹ سے جنید اور ناصر بری طرح زخمی ہو گئے۔ذرائع نے بتایا کہ رنکو سینی و دیگر بُری طرح زخمی جنید اور ناصر کو قریبی فیروز پور جھرکہ تھانے لے گئے۔بُری طرح زخمی جنید اور ناصر کو دیکھ کر ہریانہ پولیس نے اپنےہاتھ کھڑے کر دیئے۔پولیس نے رنکو کو جنید اور ناصر کو وہاں سے لے جانے کو کہا۔ اس کے بعد رنکو نے اپنے دوسرے ساتھیوں سے رابطہ کیا، اس دوران شدید زخمی جنید اور ناصر دم توڑ گئے۔ اس کے بعد رنکو سینی اور اس کے ساتھی گھبرا گئے اور پکڑے جانے کے ڈر سے لاشوں کو چھپانے کے طریقے سوچنے لگے۔
ذرائع نے بتایا کہ رنکو سینی بولیرو گاڑی اور دونوں لاشوں کو 200 کلومیٹر دور بھیوانی لے گئے۔ اس نے 16 تاریخ کی علی الصبح دونوں نعشوں کو بولیرو گاڑی میں پٹرول ڈال کر جلا دیا۔ ملزمان کو لگا کہ انہیں 200 کلومیٹر دور لے جا کر جلا دیا جائے تو کسی کو کچھ پتہ نہیں چلے گا۔ لیکن گاڑی کے چیسس نمبر سے معلوم ہوا کہ گاڑی سے ملنے والی لاشوں کی باقیات جنید اور ناصر کی ہیں۔پولیس ذرائع کے مطابق بجرنگ دل کا مونو مانیسر اغوا میں ملوث نہیں تھا لیکن وہ اغوا کاروں سے ضرور رابطے میں تھا۔ مونو مانیسر کی جانب سے قاتلوں کی مدد کا معاملہ بھی تحقیقات میں سامنے آرہا ہے۔ پولیس کی متعدد ٹیمیں باقی ملزمان کی تلاش میں ہیں۔ جنید اور ناصر کو زندہ جلانے کے معاملے پر موجودہ حکومت کی مجرمانہ خاموشی سے یہ صاف ہوگیا ہے کہ کہ موجودہ حکومت اپنی حرکتوں، پالیسیوںمیں کوئی بدلائو لانے کی موڈ میں نہیں ہے، اُنہیں بس اپنا سیاسی مستقبل محفوظ رکھنے کی فکر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ فرقہ پرست غنڈوں کو مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ ہر سلوک کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ عوام کی بے چینی اور بے کلی کا کوئی احساس نہیں۔ نہتےاور مغلوب مظلوم لاچار وعاجز ہیں۔
[email protected]