ہلال بخاری
محنت ایمانداری کی دلیل ہے۔ انسان جس بھی میدان میں محنت کے جذبے سے اترا اور پھر محنت پر عمل پیرا ہوا تو وہ ہمیشہ سرخ رو ہو کر ہی لوٹا۔ محنت ہمارے کامیاب مستقبل کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔ جو لوگ محنتی ہوتے ہیں وہ چاہے وقتی طور پر تکالیف ہی کیوں نہ برداشت کریں لیکن وہی زندگی کو حلال طریقے سے جیتے ہیں۔ محنت سے جی چرانے والے اکثر بے ایمانی کے آسان راستے چنتے ہیں۔ اگر چہ ایسے لوگ وقتی طور پر اکثر کامیاب بھی نظر آتے ہیں لیکن ان کی بنیاد اتنی مستحکم ہرگز نہیں ہوسکتی جتنی کہ محنت کرنے والوں کی ہوتی ہے۔لیکن ، ہم اپنے آس پاس کتنے ہی لوگ دیکھتے ہیں جو محنت کے بجائے چالاکی سے کام چوری کا ہنر سکھاتے رہتے ہیں۔ ان کی باتوں سے ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں محنت کرنے والوں کو کم عقل اور بے وقوف تصور کیا جاتا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے کو سب سے زیادہ فایدہ ان ہی لوگوں سے ہوسکتا ہے جو محنتی ہوں اور اپنا کام ایمانداری سے انجام دیں۔ پھر بھی ہم میں سے اکثر لوگ ایسے ہیں جن کی باتو سے لگتا ہے کہ سہل پسندی ہمارا شعار بن گئی ہے اور یہ ہمارے قوم اور وطن کے لئے بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
مثال کے طور پر، کچھ دن پہلے میری ملاقات ایک عمر رسیدہ سرکاری ملازم سے ہوئی۔وہ اپنی ملازمت کے آخری دن اس مسرت سے گزار رہا تھا کہ وہ خوش قسمت لوگوں میں شامل ہے۔یعنی ان لوگوں میں جو بر وقت ریٹائر ہو رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اب یہاں ملازمت کرنا وبال جان کی طرح ہے۔کیونکہ اب حکومت ہر بات پر سینکڑوں سوال کرتی ہے۔ملازموں کو ہر امر کا حساب دینا پڑتا ہے۔اپنے آپکو خوش قسمت سمجھنا اچھی بات ہے۔ بقول اہل دانش اس سے آپ کی ذہنی اور جسمانی صحت بہتر رہتی ہے۔ مگر ان حضرات کا یہ خیال ہونا کہ ہمارے لئے جن کر پاس ابھی شاید لمبی سروس ہے، ملازمت ایک وبال جان کی طرح ہوگی، شاید زیادتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر ایک ملازم حقیقت میں حلال روزی کمانا چاہتا ہے تو اسے جواب دہی سے ہرگز نہ گبھرانا چاہیے ۔اگر ہمارا محکمہ ہمیں زیادہ جواب دہ بنا کر ہماری ملازمت کو مشکل بنا رہا ہے تو اس میں خوبی بھی ہے۔ اس سے ہماری ملازمت پر کشش اور پر ثمر بن جائے گی۔ اگر حکومت کا واحد مقصد ایک ملازم پر ظلم کرنا ہی نہیں ہے تو اس مشکل میں بہتری کا عنصر پنہاں ہے۔ اس سے کسی شخص کو دل برداشتہ ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ہمیں خوش ہونا چاہیے کہ اس سے ہمارا پیشہ اور زیادہ بہتر اور اعلیٰ بن جائے گا۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ ہم بھی بہت خوش قسمت ہیں کہ ہمارا محکمہ ہمیں اور زیادہ جواب دہ بنا کر شاید ہم پر احسان کر رہا ہے۔ اس طرح سے ہم شاید حرام سے زیادہ آسان طریقے سے محفوظ رہ پائیں گے۔ اس لئے اس میں مثبت ہی مثبت ہے۔ ہم کیوں بے جا اس سے منفی خیال اخز کریں؟
میرا خیال ہے کہ اگر ہم اپنی ملازمت سے کماتے ہیں تو اس بات پر ہمکو دکھی نہیں ہونا چاہیے کہ ہم سے ہمارے تنخواہ کے عوض برابر محنت مانگی جا رہی ہے۔ جس طرح برابر مشاہرہ مانگنا ہمارا حق ہے اسی طرح سے برابر محنت کرنا ہمارا فرض ہے۔ہمارے عظیم دانشوروں نے بھی ہمیشہ سہل پسندی کے بجائے مشکل پسندی کو اپنانے کا درس دیا ہے۔ان کا خیال ہے کہ ایک سہل زندگی بورنگ زندگی ہوتی ہے۔بقول علامہ محمد اقبال:
خطر پسند طبیعت کو سازگار نہیں وہ گُلِستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صّیاد
اگر ان جیسے بے شمار اشعار اور اقوال کو حقیقت میں جاننا ہے تو ہمیں محنت کو اپنا شعار بنانا ہوگا نہ کہ آرام طلبی کو۔
رابطہ ۔ 9622791038
<[email protected]