ڈاکٹر اشرف آثاری ۔سری نگر
لگ بھگ نصف صدی قبل کشمیر یونیورسٹی کی جانب سے ماڈرن سپوکن عربک کا سرٹفکیٹ کورس شروع کرنے کا اشتہار مقامی اخبارات میں شائع ہوا دو عدد اساتذہ کا انتخاب اس ضمن میں پہلے ہی عمل میں لایا گیا تھا جن میں ایک مقامی مفتی عبدالغنی الازہری صاحب تھے اور دوسرے ریحان الحق مرحوم تھے جن کا تعلق دہلی (کتب خانہ رشیدیہ) سے تھا۔مجھے بھی اس یک سالہ پارٹ ٹائم کورس میں داخلہ لینے کا شرف حاصل ہوا یہ اس کورس کا دوسرا ہی بیچ تھا پہلے بیچ میں کئی سرکردہ لوگ شامل تھے ۔جن میں مرحوم مشتاق کاشمیری،عبداللہ خاور ؔ وغیرہ بھی شامل رہ چکے تھے۔
استاذی مفتی عبدالغنی الازہری صاحب سے میری پہلی ملاقات کشمیری یونیورسٹی میں ہی ہوئی ۔ان دنوں ٹیچرس ٹرینگ کالچ میں ہمارے کلاسز چار بجے روز لگتے تھے اس لئے لگ بھگ روز ہی ازہریؔ صاحب اور ریحانؔ صاحب سے ملاقات ہوتی تھی دونوں یونیورسٹی میں مقیم تھے اس لئے کلاس ختم ہوتے ہی اکثر بس میں بھی حضرت بل تک رفاقت رہتی تھی ریحانؔ صاحب مرحوم ہر روز شام کو آج کے NITاور تب کے انجینئرنگ کالج کے میس میں شام کا کھانا تناول فرمانے کے لئے ہمارے ہاں سے ہی گزر کر جاتے تھے اس لئے میرا معمول تھا ان کے ساتھ روز یونیورسٹی کے نسیم باغ میں واقع ان کے رہاشی کوارٹر تک ساتھ جانے کا اور پھر ٹھٹھرتی ہوئی سردیوں اور گرمیوں میں اکیلے واپس گھر آنے کا، یہ سلسلہ ان کی شادی تک جاری رہا ۔مرحوم جیسا نفاست پسند اور شریف النفس شخص آج تک میری نظروں سے نہیں گذرا،احقر اور محمد عبداللہ خاور ؔصاحب کے ساتھ مرحوم کے قریبی اور گھریلو تعلقات تھے کئی دہائیاں گذر جانے کے بعد آج بھی جب کبھی کشمیر یونیورسٹی سے گذرتا ہوں تو یہ آنکھیں سرسعید گیٹ سے اقبال لائبرریتک لمبی سڑک کے دونوں کناروں پر دور دور تک لگے ایورگریں کی کیاروں کے ساتھ ساتھ چلنے والے زرق وبرق برف جیسے سفید لباس میں ملبوس ؎؎؎؎خوبصورت داڑھی اور گول مٹول، نورانی چہرے والے شخص کو تلاش کرتی رہتی ہیں یا پھر فضا میں پھیلی ہوئی ان کی پسندیدہ خاص خوشبو کو پھیلا ہوا محسوس کرتا ہوں۔ اللہ مغفرت کرے کتنے مخلص و مہربان اور صالح و دین دار شخص تھے۔
استاذی ازہریؔ صاحب ان دنوں ساگام ککرناگ میں رہتے تھے آج کشمیر یونیورسٹی کا سرسید گیٹ جہاں ہے اس سے ذرا آگے بائیں جانب ایک ہوسٹل ہوا کرتا تھا ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی جب وہ نذر آتش ہوگیا، اس میں ازہریؔ صاحب کوبھی عام طلاب کی طرح ہی ایک کمرہ رہائش کے لئے الاٹ ہوا تھا اکثر اسی میں رہائش پزیر رہتے تھے اور خود ہی پکاکر کھاتے بھی تھے ہمارا آبائی گھر چونکہ حضرت بل کی زیارت گاہ کے عقب میں ہی تھا اسلئے اکثر ان کے ہاں آنا جانا لگا رہتا تھا اور اگر کسی مصروفیت کی وجہ سے نہ جا پاتا تھا تو یاد فرماتے تھے دہلی کے ایک مولانا حافظ جی سے بھی وہاں ملاقات ہوگئی تھی ایک دن دونوں ایک بڑے پلیٹ میں ایک ساتھ کھانا تناول فرمارہے تھے تو ازہری صاحب پلیٹ میں دال حافظ جی کی طرف بار بارڈال رہے تھے حافظ جی کے بار بار منع کر نے پر استازی فرمانے لگے حافظ جی دراصل دال میں خود کو ڈال رہا ہوں آپ نہیں دیکھتے ؟کہ میں نشیب میں بیٹھا کھا رہا ہوں اس لئے آپ کی ساری دال میری طرف آرہی ہے۔ ہاں مگر چھن چھن کر آرہی ہے(یہ جملہ اضافی ہے)
شاعری اور دیگر مشاغل کی طرح ہی راقم الحروف کے مشاغل میں مچھلیوں کا شکار بھی تھا بہت برسوں تک یہ معمول سا بن گیا تھا کی ازہریؔ صاحب اور ریحانؔ صاحب کو گرمیوں کے ایام میں ،سال میں ایک بارضرور مچھلیوں کی دعوت کی جائے اورخوب مچھلیاں جھیل ڈل سے پکڑ کر لپکاکر جی بھر کے کھلائی جاتی تھیں ازہری صاحب آج تک مچھلیوں کی اس دعوت کو نہیں بھولے تھے اورلگ بھگ ہر بار یاد دلاتے تھے۔اور میری اہلیہ سے بھی اس کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔حالنکہ وہ ان دنوں ابھی ہمارے گھر میں وارد نہیں ہوئی تھی یہ کا م اچھی طرح سے والدہ محترمہ مرحومہ انجام دیتی تھی۔
یہ 1975ء کا سال تھا اس ایک سال تک استازی اور ریحان الحق مرحوم کے ساتھ میرے ر وابط کافی مضبوط ہوچکے تھے ۔اور اس کے بعد ہم لوگوں کی کاوشوں اور کوششوں کے کئی سال بعد الگ سے شعبئہ عربی قائم ہوا اور اس کے اولین اساتذہ میں استازی ومرشدی ازہری صاحب اور ریحان الحق صاحب ہی تھے اسی دوران استاذی کو بحیثیت ویلفئیر آفسر حکومت کی طرف سے قافلہ حجاج کے ساتھ پہلی بار جانے کا اتفاق ہوا مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ مجھے استاذی نے دس ہزار روپئے ، اسٹیٹ بینک میں جمع کرانے کے لئے دئے تھے جو میں نے حضرت بل بینک میں جمع کرادئے تھے اور پھر میں نے اور محبوبؔ صاحب نے ہی حضرت کو اسٹیٹ ٹرانسپورٹ کی بس میں صبح حجاج کے قافلے کے ساتھ روانہ ہونے کے لئے بٹھایا تھا۔اور ان کا سامان وغیرہ باندھ دیا تھا۔تاکہ جموں میں بمبئی کی ٹرین میں بیٹھ سکیں۔
یونیورسٹی کا وہ یک سالہ کورس میں نے فسٹ یا سیکنڈ پوزیشن میں پاس تو کیا ،لیکن اس نے مجھے استازی اور مرشدی جیسے رہنما ریحان الحق جیسے ھمدردو خیر خواہ اور عبداللہ خاورؔ جیسے دوست عطاکئے۔ کچھ سال بعد میں نے شعبہ عربی کے قیام کے بعد عربی میں ماسٹرس ڈگری بھی پاس کی۔وائیوا کا پیپر پاس کرنا تھا دہلی یونیورسٹی کے صدرِ شعبہ عربی اور میرے ہم نام ڈاکٹر اشرف ؔاور مفتی عبدالغنی الازہری صاحب امتحان لے رہے تھے ،میرا نام بلایا گیا اور میرے کمرے میں داخل ہوتے ہی استاذی نے مجھ سے پوچھنا شروع کردیا ، ڈاکٹر صاحب جڑی بوٹیوں کے عربی نام بتائیے ؟میں نے فر فر کچھ جڑی بوٹیوں کے نام بتادئے پھر ڈاکٹراشر فؔ صاحب کچھ زیادہ نہ پوچھ سکے۔
حج بیت اللہ سے واپسی کے بعد استاذی نے مجموعہ سی حرفی کے نام سے اپنا ایک مختصر سا شعری مجموعہ چھاپا مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کا پیش لفظ’’ایک شاگرد کے تاثرات کے عنوان سے میں نے ہی لکھا ہے جو اس کے ابتدائی صفحات میں چھپ چکا ہے جس کی ایک کاپی میرے پاس بھی محفوظ ہے جسے میں مفتی نظام الدین ندوی صاحب کو بھی دکھا چکا ہوں اس میں، میں نے حضرت پر ایک نظم بھی تحریر کی تھی جو اس میں چھپنے کے بعد روزنامہ ’آفتاب‘ میں بھی چھپی تھی۔غالباً یہ حضرت پر لکھے گئے پہلے منظوم تاثرات ہیں۔ لگ بھگ نصف صدی پر محیط حضرت کے ساتھ اپنے تعلقات کا جب سرسری جائزہ لینے لگتا ہوں تو ایک ایک کرکے سارے واقعات، فلم کی طرح ، ذہن میں آنے لگتے ہیں اور مجھے نہ جانے کہاں سے کہاں لے جاتے ہیں لاتعداد واقعات ایسے بھی ہیں جنہیں یاد کرکے پورا وجود لرزنے لگتا ہے اور اپنے آپ کوحقارت بھری نظروں سے گھورنے لگتا ہوں اور یقین ہی نہیں آتا ہے کہ ایسا بھی ہوچکا ہوگا اور ذہن و دل کو کریدتا ہوا یہ سوال بار بار اپنے آپ سے پوچھنے لگتا ہوں کہ کیا ہم واقعی ایسے بھی ہوسکتے ہیں ؟کہ عزت اور رتبے اور مالی اعتبار سے ایک بہت بڑے عہدے پر فائز ،ایک ایسے شخص کی اسطرح ہم ناقدری کر سکتے ہیں کہ گولیاں چلا کر اس درویش کو خاموش کرنے کی کوشش کریں جس کے کپڑوں پر کئی کئی پیوند لگے ہوئے ہوتے تھے اور جو لاتعداد کورے اور معصوم اذہان کو قرآن و حدیث کے نور سے منور اور ان کی پاکیزہ زبانوں پردرود شریف اور مسنون اذکار کو ازبر کرنے کے لئے اپنا سب کچھ دائو پر لگادیتا ہے، ہم کتنے احسان فراموش ہیں کہ ہم اس ولی،مجتہد،صوفی،عابداور امام العصر کی قدر نہ کرسکے جس کی قدرو منزلت کا اور دینی اور علمی وروحانی قابلیت کا اعتراف آج پوری دنیا کررہی ہے خاص طورپرد نیائے عرب اور غیر مسلم بھی ، درس حدیث ،تفسیر قرآن ، فقہ اور دیگر علومِ ظاہریہ اور باطنیہ سے فیض یاب ہونے کے لئے علوم کے متلاشی طلباء دور دراز کا سفر کریں اور ہم ان کے مرتبے اورمقام اور روحانی استطاعت وعظمت سے بالکل غافل رہیں۔اور فیضان حاصل کرنے سے بھی قاصر و محروم رہیں ۔
(۲) حضرت ؔکے خون سے لت پت ،لہو لہان جسم سے گولیاں نکالنے اورخون دھونے میں احقر بھی شامل تھا اچھی طرح سے یاد ہے کہ ہم ان کے گہرے زخموں کو کرید کرید کر صاف کررہے تھے اور وہ باطن کی آنکھوں سے ان لوگوں کا انجام خاموشی سے دیکھ رہے تھے۔دوسرے دن جب میں خیریت پوچھنے گیا تو مدرسے کے دالان پر بستر پربیٹھے ہوئے تھے دائیں طرف ایک مجزوب تشریف فرما تھے مجھے اپنے بائیں طرف بٹھایا ان مجزوب کی باتیں مجھے ان کے سامنے بتانے لگے۔اللہ رب العزت کو حضرت سے بہت کام لینا تھا اسلئے طویل زندگی بخش دی اگر کچھ ہوگیا ہوتا تو پھر نہ بادشاہی باغ سہارنپور کا مدرسہ ہی ہوتا اور نہ یہ مردِ قلندر آج وہاں دفن ہی ہوتے۔میاں نظام الدین ان دنوں تعلیم کے سلسلے میں ریاست سے باہر تھے آنے پر انہیں احقر نے ہی یہ خبر سنائی۔ (مضمون جاری ہے)
موبائیل:۔ 09419017246
ای میل:۔ [email protected]