ڈاکٹرمحمدبشیرماگرے
یہ لا محدود کائنات کس طرح وجود میں آئی،اس میں تمام توازن،ہم آہنگیاں اور نظم ضبط کس طرح سے پیدا ہوا؟ ان سوالات کے جوابات کی تلاش میں سرگرداں سائنسدان، فلسفی و محقق اپنی عقل و دانش کی بدولت اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کائنات کی صورت گری اور اس میں موجود نظم ضبط کسی اعلیٰ ترین خالق مطلق کی موجودگی کی شہادت دے رہے ہیں جو اس ساری کائنات کا خالق و مالک ہے،جوکہ ایک غیر متنازہ سچائی ہے۔جیسے قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین(سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے انہیں پھاڑ کر جدا کردیا۔‘‘(الانبیاء آیت ۳۰) اس تحریر میں ایک معمولی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح کائنات کا وجود میں آنا اور غیر معمولی طور ایک ربط و نظم کےساتھ ا بد تا ایںدم تک قائم رہنااللہ جل شانہ کی کاریگری کاجیتا جاگتاثبوت ہے۔
سورج فضا میں پچھلے ۵ ارب سال سے ۶۰۰ میل فی سیکنڈ کی رفتار سے ایک مقرہ راستے پر مسلسل بھاگا جارہا ہے۔اس کے ساتھ جو اسکا خاندان۹ سیارے ۲۷ چاند اور لاکھوں میٹیرائڈ کا قافلہ بھی اسی مخصوص رفتار سے چلا جا رہا ہے۔یہ کبھی نہیں ہوا کہ تھک کرکوئی پیچھے رہ جائے یا راستہ بھٹک جائے؟ سبھی اپنی راہ پر اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق اپنے اپنے راستے پر چل رہے ہیں۔اب بھی کوئی کہے کہ چلانے والا کوئی نہیں، ڈیزائن ہے ڈیزائنر نہیں،قانون ہے لیکن قانون کو نافظ کرنے والا کوئی نہیں،کنٹرول ہے مگر کنٹرولر کوئی نہیں،یہ سب ایک حادثہ ہے! تو آپ اسے کیا کہیں گے؟ چاند ۳ لاکھ ۷۰ ہزار میل دور زمین پرسمندروں کے عربوں کھربوں ٹن پانی ہر روز دو دفعہ مدو جزر سے ہلاتا رہتا ہے تاکہ اس میں رہنے والی مخلوق کیلئے ہوا آکسیجن کا بندوبست ہوتا رہے، پانی صاف ہوتا رہے اس میں تعطل پیدا ہو،ساحلی علاقوں کی صفائی ہوتی رہے اور غلاظتیں بہہ کر گہرے پانی میں جاتی رہیں۔یہی نہیں سمندروں کا پانی ایک خاص مقدار میں کھارا اور نمکین ہے جو پچھلے ۳ ارب سال سے ایک مناسب توازن برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ تاکہ اس میںچھوٹے بڑے آبی جانور آسانی سے تیر سکیںاور مرنے کے بعد ان کی لاشوں سے بدبو نہ پھیلے۔ان ہی میں گرم و سرد پانی کی نہریں ساتھ ساتھ بہتی ہیں جن کو ) (Ocean Currentsکہا جاتا ہے،جو سمندر وں کے گرم و سرد پانی میں توازن برقرار رکھے ہوئے ہیں۔سطح زمین کے نیچے بھی میٹھے پانی کے سمندر ہیں،جو کھارے پانی کے کھلے سمندر سے ملے ہوئے ہیں، سب کے درمیان ایک غیبی پردہ و آڑ ہے تاکہ میٹھا پانی میٹھا رہے اور کھارا پانی کھارا۔ اس حیران کن انتظام کے پیچھے کون سی عقل ہے، اس توازن کو کون برقراررکھےہوئےہے؟کیاپانی کی اپنی سوچ تھی!اورچاندکااپنافیصلہ؟اوشینوگرافراس معاملےمیںخاموش اوربےبس ہیں؟
۱۴۵۰ سال قبل جب سائنس کا کوئی وجود نہیں تھا؟ عرب کے سحرائی جزیرے میں کوئی اسکول،کالج یا یونورسٹی نہیں تھی، ایک آدمی اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور سورج و چاند کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ سب ایک حساب کے پابند ہیں؟’’ آفتاب اور مہتات مقررحساب سے ہیں‘‘(سورہ ؒرحمٰن آیت ۵)۔سمندروں کی گہرائیوں کے درمیان بتاتا ہے کہ ایک برزخ ہے جو ان کو قابو میں رکھے ہوئے ہے۔’’ان دونوں میں ایک آڑ ہے کہ اس سے بڑھ نہیں سکتے‘‘(سورہ رحمٰن آیت ۲۰)۔ ساتھ ہی ستاروں کو ٹکے ہوئے چراغ کی مانند بتا کر کہتا ہے کہ یہ سب کے سب اپنے مدار پر تیر رہے ہیں۔’’ نہ آفتاب کی مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر آگے بڑھ جانے والی ہے،اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں‘‘(سورہ یٰسین، آیت ۴۰)۔جب سورج ساکن تصور کیا جاتا تھا تو وہ کہتا ہے کہ یہ سورج اپنی طے شدہ راستے پر اپنی منزل کی طرف گامزن ہے۔’’ اور سورج کیلئے جو مقرہ راہ ہے وہ اسی پر چلتا رہتا ہے یہ ہے مقرر کردہ غالب باعلم اللہ تعالیٰ کا‘‘۔(سورہ یٰسین آیت ۳۸)
جب کائنات کو ایک جامعہ آسمان کہا جاتا ہے، تو وہ کہتا ہے کہ یہ پھیل رہی ہے۔’’آسمان کو ہم نے (اپنے) ہاتھوں سے بنایا ہے اور یقینا ہم کشادگی کرنے والے ہیں۔‘‘(سورہ الزرئیات،آئت ۴۷)۔وہ نباتات اور حیوانی زندگی کے لئے کہتا ہے کہ ان سب کی بنیاد پانی ہے۔ البرٹ آنسٹائن(۱۸۷۹ تا ۱۹۵۵) جدید سائنس کا بانی کہلاتا ہے ،اپنی دریافت ’’قانون قدرت اٹل ہے‘‘اس نے بہت پہلے بتایا تھا کہ تم رحمٰن کی تخلیق میں کسی جگہ فرق نہیں پائو گے۔ ’’جس نے سات آسمان اوپر تلے بنائے(تو اے دیکھنے والے) اللہ رحمٰن کی پیدائش میں کوئی بے ضابطگی نہ دیکھے گا دوبارہ (نظریں ڈال) دیکھ لے کیا کوئی شگاف بھی نظر آرہا ہے۔‘‘(سورہ الملک آیت ۳)۔جدید سائنس کی قابل فخردریافت پر ۱۴۵۰ سال پہلےپردہ اٹھانےوالاانسان کس یونیورسٹی میں پڑھاتھا،کس لیبارٹری میںکام کرتاتھا۔
قرآن کا ایک ہمہ جہت اعلا ن تمام کائنات کا احاطہ کرتا ہے۔ قل فی فلک یسبحون۔ الانبیا :۲۱ ذرا سوچئے نہ مولودد بچے کو کون سمجھاتا ہے کہ بھوک کے وقت رئو کر ماں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائے۔ماں کو کون حوصلہ دیتا ہے کہ ہر خطرے کے سامنے سینہ سپر ہوکر بچے کو بچانے کیلئے ایک معمولی سی چڑیاشاہین سے مقابلے کیلئے اتر آتی ہے۔ یہ حوصلہ اُسے کس نے دیا؟ مرغی کے بچے انڈے سے نکلتے ہی چلنے لگتے ہیں، حیوانات کے بچے پیدا ہوتے ہی دودھ کیلئے مائوں کی طرف لپکتے ہیں، انہیں یہ سب کچھ کون سکھاتا ہےکہ اپنی چونچوںمیںخوراک لاکراپنےبچوںکوکھلاتی ہیں۔یہ آدابِ زندگی انہیںکون سکھاتاہے؟
شہد کی مکھیاں دور دراز علاقوں سے الگ الگ باغوں سے پھولوں کا رس چوس کر انتہائی ایمانداری سے لاکر چھتے میں جمع کرتی جاتی ہیں۔ان میں سے ہر ایک ماہر سائنسدان کی طرح جانتی ہیں کہ کچھ پھولوں میں زہریلا رس ہوتا ہے،ان کے پاس بالکل نہیں جاتیں! ایک قابل انجینئرکی طرح شہد اور موم کو علاحدہ علاحدہ کردیتی ہیں۔ یہ فن بھی ان کو آتا ہے جب گرمی ہوتی ہے تو شہد کو پگل جانے سے بچانے کیلئے شہد کی مکھیاں اپنے پرئوں کی حرکت سے پنکھا چلا کر شہد کو ٹھنڈا کرتی ہیں۔ موم سے ایسا گھر بناتی ہیں جسے دیکھ کر بڑے سے بڑا آرکیٹیکٹ بھی حیرت زدہ ہوجاتا ہے۔لاکھوں کی تعداد میں ایسے منظم طریقے سے کام کرتی ہیں کہ مثال نہیں ملتی۔ہر مکھی کے جسم میں ایک راڈار جیسا نظام نسب ہے کہ وہ اپنے گھر کا راستہ کبھی نہیں بھولتی۔انہیں یہ نظام کس نے سکھایا ہے،یہ عقل اور زندگی کے طریقے کس نے سکھائے ہیں؟
مکڑااپنے منہ کے لعاب سے شکار پکڑنے کے لئے ایسا جال بناتا ہے کہ جدید ٹکسٹائل انجینئر بھی اس بناوٹ کا ایسا نفیس قسم کادھاگہ بنانے سے قاصر ہیں۔گھریلوں چیونٹیاں گرمیوں میں موسم سرماں کیلئے بچوں کیلئے گھر بناتی ہیں، ایک ایسی تنظیم سے رہتی ہیں جہاں منیجمنٹ کے تمام اصول حیران کن حد تک کار فرما ہیں۔ٹھنڈے پانی میں رہنے والی مچھلیاں اپنے وطن سے ہزاروں میل دورگرم پانی میں انڈے دیتی ہیں۔لیکن ان سے نکلنے والے بچے جوان ہوتے ہی خود بخوداپنی مائوں کے پاس وطن میں پہنچ جاتے ہیں۔ان کو یہ درس کون دیتا ہے؟نباتات کی زندگی کا سائکل بھی کم حیران کن نہیں؟ جراثیم اور بیکٹیریا (Bacteria) کیسے کروڑوں سالوں سے اپنی بقاء کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔زندگی کے گُر انہیں کون سکھاتا ہے؟ سوشل منیجمنٹ کے اصول انہیں کس نے سکھائے ہیں؟کیا زمین خود اسقدر عقلمند ہے کہ اس نے خود بخود لیل و نہار کا نظام قائم کر لیا ہے؟ اپنے محورپر ایک خاص ڈگری پر جھک گئی اور مدار ارضی پراسطرح گامزن ہے،تاکہ دن رات بننے کا عمل و موسموں میں تغیرو تبدل ہوتا رہے! کبھی موسم بہار،کبھی موسم گرما، کبھی موسم خزاں اور کبھی موسم سرما ہوجاتاہےتاکہ اس پربسنےوالوںکوساراسال ہرطرح کی سبزیاں،پھل،میوےاورخوراک ملتی رہے۔
زمین نے اپنے اندر شمال و جنوب، ایک طاقتور مقناطیسی نظام بھی کیا خود بخودہی قائم کرلیا ہے تاکہ اس کی وجہ سے بادلوں میں بجلیاں کڑکیں ،جو ہوا کی نائٹروجن گیس کونائٹس آکسائڈ میں بدل کر بارش کے ذریعے زمین پر پودوں کے لئے قدرتی کھاد مہیا کریں۔سمندروں میں چلنے والے بحری جہاز،آب دوز،ہوائوں میں، فضاء میں اڑنے والے طیارے اس مقناطیس کی مدد سے اپنا راستہ پائیں۔آسمانوں سے آنے والی مہلک شعائیں اس مقناطیسیت سے ٹکرا کرواپس پلٹ جائے تاکہ زمینی مخلوق ان کے مہلک اثرات سے زندگی جاری و ساری رہے۔زمین،سورج،ہوائوں،پہاڑوں اور میدانوں نے مل کر سمندروں کے ساتھ سمجھوتہ کر رکھا ہے تاکہ سورج کی گرمی سے آبی بخارات اٹھیں،ہوائیں عربوں ٹن پانی کو اپنے دوش پر اٹھا کر پہاڑوں اور میدانوں تک لائیں،ستاروں سے آنے والے ریڈیائی زرے بادلوں میں موجود پانی کو اٹھا کرکے قطروں کی شکل دیں۔جب سردیوں میں پانی کی کم ضرورت ہوتی ہے تو یہ پہاڑوں پر برف کو ذخیرے کے طور پر ڈال دیتا ہے۔اور پھر یہ پانی میٹھا بن کر خشک میدانوں کو سیراب کر دیتا ہے۔گرمیوں میںجب زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو برف پگل کرندی نالوں اور دریائوں کی صورت میں میدانوں کو سیراب بھی کرتا ہے اور پھر یہی پانی سمندروں تک پہنچ جاتا ہے۔یہ ایک ایساشاندارمتوازن نظام ہائیڈرالک سائکل جو سب کو پانی مہیا بھی کرتا ہےاورکچھ بھی ضایع نہیں ہوتا۔
ہمارے جسم میں لب لبے خون میں شگر کی خاص مقدار کو بڑھنے نہیں دیتے۔دل کا پنپ(Pump) ہر منٹ میں۷۰ سے ۸۰ دفعہ منظم طریقے سے باقائدہ حرکت سے خون کو پمپ کرتا رہتا ہے۔ایک ۷۵ سالا زندگی میں بلا مرمت تقریبا ۳ ارب بار دھڑکتا ہے۔ہمارے گردے صفائی کی بے مثال اور عجیب فیکٹریاں ہیں۔جو جانتے ہیں کہ خون میں جسم کیلئے کیا مفید ہے اس کو محفوظ اور فضلات کو باہر پھینک دیتے ہیں۔اس انسانی جسم میں انجینرنگ کے شاہکار،سائنس کے بے مثل نمونے چھوٹے سے پیٹ میں یہ لاجواب،فیکٹریاں،کیایہ سب کچھ یوں ہی بن گیا ہے۔
دماغ کو کس نے بنایا ؟ مضبوط ہڈیوں کے خول میں بند پانی میں تیرتا ہوا عقل کا خزانہ،معلومات کا اسٹور،احکامات کا سینیٹر،انسان اور اسکے ماحول کے درمیان رابطے کا ذریعہ، باقی جسمانی اجزا کے تمام چھوٹے بڑے حصے پر کنٹرول اور ڈائریکشن،ایک ایسا سپر کمپیوٹر کہ سائنسدان اس کی بناوٹ اور ڈیزائن کو ابھی تک نہیں سمجھ سکے۔لاکھ کوششوں کے باوجود بھی انسانی ہاتھ اور ذہن کا بنایا ہوا کوئی سپر کمپیوٹر بھی اس کے عشر و عشیر تک نہیں پہنچ سکتا۔ہر انسان کھربوں خلیات کا مجموعہ ہے اتنے چھوٹے کہ خوردبین کے بنا نظر نہیں آتے،لیکن سب کے سب جانتے ہیںکہ انہیں کیا کرنا ہے۔یوں انسان کا ہر ایک خلیہ شعور رکھتا ہےاور اپنے وجود میں ایک مکمل شخصیت کا حامل ہے۔ان جینس میں ہماری پوری پروگرامنگ درج ہےاور زندگی اس پروگرام کے تحت خود بخود چلتی ہے۔ہماری زندگی کا پورا ریکارڈ ہماری شخصیت، ہماری عقل و دانش،الغرض ہمارا سب کچھ پہلے ہی سے ان خلیات پرلکھا جا چکا ہے۔ یہ سب کس کی پروگرامنگ ہے؟ حیوانات ہوں یا نباتات ان کے بیچ اندرون پورا نقشہ بند ہے۔یہ کس کی نقشہ بندی ہے؟ خوردبین سے بھی بمشکل نظر آنے والے سیلزسے ایک مضبوط،توانا،عقل،ہوش والاانسان بن جاتاہے،یہ کس کی بناوٹ کا سرچشمہ ہے؟ہونٹ،زبان،تالو کے اجزا کو سینکڑوں انداز میں حرکتیں کون پیدا کرتا ہے اور کون معنی دیتا ہے؟ ان حرکات سے طرح طرح کی عقلمند آوازیں کون پیدا کرتا ہے؟ اور کون معنی دیتا ہے؟لاکھوں الفاظ،ہزاروں زبانوں کا خالق کون ہے؟ بے شک وہ اللہ کی ذات ہے۔ جس نے ہمیں اور اس جہاں کو تخلیق کیا اور اپنی نعمتیں ہمارے لئے تمام میسر کردی۔اس تمام معمے کا حل صرف اور صرف قرآن مجید کے اس فرمان پر ایمان لانے سے ہی ممکن ہے جب وہ کسی کام کا فیصل فرماتا ہے تو اسے یہی حکم دیتا ہے ’’ہوجا‘‘ بس وہ ہوجاتاہے۔
لہٰذا وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کائنات خود چل رہی ہے یا کوئی سپر کمپیوٹر اسے چلا رہا ہے، وہ سب گمراہی میں ہیں۔اور ان کی عقلوں پرافسوس کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ بیشک اللہ رب العزت کی ذات کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہی عبادت کے لائق ہے اور جس طرح وہ اپنی ذات میں یکتا ہے، اسکا کوئی شریک نہیں ،اسی طرح وہ اپنی صفات میں بھی واحدہ لاشریک ہے اور تعظیم کا حق دار وہی ہے۔اللہ ہمیںمعاف فرمائے اور دین اسلام پر قائم و دائم رکھے۔آمین
(مضمون نگار جغرافی پروفیسر اور ریٹائرڈ کالج پرنسپل ہیں)