فرحان بارہ بنکوی
قوم و ملت کی بقا انسان کے خود کی بقا تصور کی جاتی ہے۔ اگر کوئی قوم، سماج محفوظ ہے تو اس کا ہر ہر فرد محفوظ ہے اور اگر قوم محفوظ نہیں تو افرادِ قوم کا بھی ہلاکت خیز حالات سے سامنا ناگزیر ہے۔ مسلمانوں میں موجودہ وقت میں جہاں بے شمار برائیاں رونما ہو رہی ہیں، تو انہیں میں سے ایک بڑی اور قوم و ملت کے لیے مہلک بیماری رو بہ ترقی ہے۔ اس خطرناک برائی اور اس مہلک مرض کے شکار روزانہ کثیر تعداد میں بڑھتے جا رہے ہیں، جس نے قوم و ملت کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔ یہ مرض کوئی ڈھکا چھپا مرض نہیں، بلکہ ایک عام سی وبا ہے جسے ’’مخبری‘‘ کہتے ہیں۔
مسلم نوجوان اور بالخصوص بے روزگاری کی شکار یہ نسلِ نو اس مخبری کو عظیم نعمت اور قوم و ملت کی بڑی خیر خواہی شمار کرتی ہے، جب کہ معاملہ یہ ہے کہ وہ خود کے پیروں پر کلہاڑی مار رہے ہیں اور اپنی قوم کو ہلاکت کی کھائی میں ڈھکیل رہے ہیں۔چند سکوں اور تسکینِ نفس کی خاطر قوم کے افراد کی معمولی سی بات کو ایک موذی مرض کی طرح پیش اور خود کو اعلی حکام کے سامنے خیر خواہ ثابت کرکے افرادِ قوم کے توسط سے قوم کو برباد کرنے کے درپے ہیں۔
ایک اعلیٰ افسر کے بقول ’’پولیس و حکومت کے 90 فیصد مخبر مسلم نوجوان ہیں۔ یہ مخبر ہر ایک مخبری کا معاوضہ وصول کرتے ہیں، حتیٰ کہ مساجد و مدارس کی مخبری پر گراں قدر انعام حاصل کرتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کا وہ قہر زدہ ماحول بھلا کون بھول سکتا ہے کہ جس وقت لوگ بارگاہِ ایزدی میں سجدہ ریز ہونے کو ترس رہے تھے، اور مسجد میں جا کر اپنے اور اپنی قوم و ملک کے لیے بارگاہِ خدواندی میں گڑگڑا کر خیر و عافیت اور امن و سلامتی کی دعائیں کرنا چاہتے تھے۔ اس پر آشوب دور میں یہ مخبرین مساجد و مدارس کی مخبری کرکے اپنا کمیشن اور ہر مخبری کے عوض فیصد وصول کر رہے تھے۔
قوم کے مفاد کے تئیں متفکر تنظیم و افراد کو مخبری کرکے فنا کے گھاٹ اتارنے والے یہی افراد ذمہ دار ہیں۔ وہ این آر سی کے کے خلاف احتجاج کا زمانہ ہو یا کوئی دوسرا موقع ہو، یہ میر جعفر و میر صادق کی اولاد، اپنے ذاتی مفاد کو پیش نظر اور قوم و ملت کے مفاد کو پسِ پشت ڈال کر مسرور و مگن پھرتے رہے۔ اسی مخبری نے نہ جانے کتنے بے گناہوں کو ناحق تکایف میں مبتلا کیا، کتنی مساجد کو سیل، کتنے مدارس کو زمیں دوز، کتنے نوجوانوں کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا ہے۔
نام نہاد سیاست دانوں اور نیتاؤں نے حکام سے جان پہچان اور آمدنی کے ذرائع کے لیے اسی مخبری کو اپنا ذریعۂ معاش اور پیشہ بنا لیا۔ انہیں اس سے کوئی مطلب نہیں کہ قوم کا کیا حال کیا جا رہا ہے۔ انہیں تو شاید یہ بھی علم نہیں کہ قوم تو افراد کے مجموعے کا نام ہے، اگر افراد کا خاتمہ کر دیا جائے گا تو قوم کا وجود از خود اس روئے زمیں سے معدوم ہو جائے گا۔
تاج دارِ مدینہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں کی مثال ایک دوسرے سے محبت، آپس میں رحم دلی اور ایک دوسرے کی طرف التفات و تعاون میں ایک جسم کی طرح ہے، کہ جب اس کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے، تو باقی سارا جسم بیداری اور بخار کے ذریعے سے (سب اعضا کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر) اس کا ساتھ دیتا ہے۔ (مسلم شریف: كتاب البر والصلہ و الآداب)
حدیث شریف میں تو مومن کی شناخت یوں کرائی گئی ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے تئیں اس قدر متفکر اور خیر خواہ ہوتے ہیں کہ کسی دوسرے کی تکلیف و مصائب کے وقت کی آنکھوں سے نیند کافور ہو جاتی ہے، تمام شب کروٹ بدلتے ہوئے گذرتی ہے، جب کہ منافق وہ ہے کہ جو بہ ظاہر مسلمانوں کہ صف میں نظر آئے، مگر پسِ پردہ وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور اسلام کو حدفِ ملامت بنانے والا ہر عمل کرتا نظر آئے، چونکہ مخبری ایسا عمل ہے کہ جس میں مخبر فقط اپنے ذاتی فوائد کو پیش نظر رکھ کے مصروفِ عمل نظر آتا ہے، سوائے دنیاوی اغراض و مقاصد کے حصول کے، اس کا کوئی دوسرا مقصد نہیں ہوتا۔
اعلی حکام سے روابط، ہر مخبری کے عوض انعام، ہم سایوں اور اہلِ محلہ کو اپنے تعلق و روابط سے خوف و ہراس میں مبتلا کرنا، ذہنی مظالم کا پہاڑ توڑنا، یہ مخبری کے چند فوائد ہیں کہ جن کے عوض ایک مخبر دینی احکام، اسلامی شعائر، افرادِ قوم کو قربان کر دیتا ہے، اور چند ٹکے حاصل کرتا ہے۔بعض لوگ بغیر کسی فوری فائدے کے، فقط تسکینِ نفس، تفریح طبع کے لیے مخبری کو جیسا قبیح عمل اپنا لیتے ہیں۔اب مخبرین یہ فیصلہ کریں کہ ان کا عمل کس زمرے میں آتا ہے؟ کیا ان کا عمل مومنین والا ہے یا منافقین والا؟
[email protected]>