ابراہیم آتش
ہندوستانی مسلمانوں سے امریکی مسلمان ہر اعتبار سے بہتر ہیں، یہاں غور طلب بات یہ کہ پانچ سو سال پہلے امریکہ میں ایک بھی مسلمان نہیں تھا آج وہاں ستر لاکھ کے قریب مسلمان ہیں اور امریکہ کے شہری کے برابراُن کو تمام حقوق حاصل ہیں۔ اگر ہم ہندوستان کا جائزہ لیں تو یہاں مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک حکومت کی ،اس کے باوجود آج ہم دیکھ رہے ہمارے حقوق کو سلب کیا جا رہا ہے اور تحفظ ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اس کے ذمہ دار کوئی نہیں بلکہ یہاں کے مسلمان خود ہیں۔امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں میں اچھی خاصی تعداد ہندوستان اور پاکستان کی ہے، پھر وہ مسلما ن ہندوستانی مسلمانوں سے کیسے بہتر ہو سکتے ہیں تو اس کا جواب ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے مقابلے میں وہ تعلیم یافتہ ہیں جو ہندوستان میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پرسکونت پذیر ہو گئے۔ امریکہ میں صرف ہندوستان ,پاکستان اور بنگلہ دیش کے ہی مسلمان نہیں ہیں ،دنیا کے تمام ملکوں کے مسلمان وہاںبسے ہوئے ہیں،اس لئے ان امریکی مسلمانوں کی سوچ اور نظریہ ہندوستانی مسلمانوں کی سوچ اور نظریہ سے مختلف ہے۔ اسلام کی دعوت اگر کہیں کامیابی سے ہو رہی ہے تو امریکہ میں ہو رہی ہے۔ اس کاجائزہ ہم اخباروں کے ذریعہ بھی لے سکتے ہیں یا وہاں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے بھی کر سکتے ہیں۔ہندوستان ابھی مسلکی شدت پسندی سے پاک نہیں ہوااور جب تک شدت پسندی سے پاک نہیں ہوگا،تب تک ہندوستان کے مسلمان صحیح راستے پر چل نہیں پائیں گے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی تشبیہ اس تالاب سے دی جاسکتی ہے جو ایک گڑھے میں پانی رہتا ہے، جس کی وجہہ سے وہ پانی قابل استعمال نہیں ہوتا۔ امریکہ کے مسلمانوں کی مثال اس دریا جیسی ہے جس میں نیا پانی مسلسل ملتا رہتا ہے، اس لئے دریا کاپانی صاف ہوتا ہے۔ قوموں کی مثال بھی اسی طرح ہے، جب تک ہندوستان کے مسلمانوں میں تازہ دم نئے مسلمان شامل نہیں ہوں گے، اسی تالاب کے مانند رہیں گے۔ امریکہ کے مسلمانوں میں دنیا بھر کے مسلمان شامل ہو رہے ہیں اور دعوت اسلام کی وجہ سے امریکہ کے مسلمان بھی اسلام قبول کر کے دعوت اسلام کے کام سے جڑ رہے ہیں،یہی فرق ہے ان دونوں ملکوں کے مسلمانوں میں ہے،اسی وجہ سے امریکی مسلمان ہندوستانی مسلمانوں سے بہتر ہیں،جہاں اس عمل کے ذریعہ قوموں کے تعلق سے موثر وہ مثبت ثابت ہوتا ہے وہیں پر یہ شہروں اور ملکوں کے تعلق سے موثر اور مثبت ثابت ہوتا ہے۔ آج اگر دنیا میں امریکہ سوپر پاور ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ دنیا بھر کے مختلف لوگوں کے اعلیٰ ذ ہن امریکہ کو سُوپر بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔اگر ہم شہر کے اعتبار سے دیکھیں تو ممبئی شہر اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ ممبئی ایک ایسا شہر جہاں ملک بھر سے لوگ روٹی روزی کے لئے آ کر یہاں آباد ہوگئے، ان کو روٹی روزی تو مل گئی، اس کے ساتھ ان لوگوں نے اس شہر کو بھی چار چاند لگا دیااور ان ہی لوگوں نے ممبئی کو ملک کا سب سے بڑا شہر بنا دیا۔ آج اگر بنگلور ترقی کر رہا ہے تو اتر پردیش ،راجستھان ،اڑیسہ ،آسام ،بہار،چھتیس گڑھ ،مدھیہ پرد یش اور بنگال کے علاوہ دوسری ریاستوں سے کثیر تعداد میں لو گ زندگی کے ہر شعبہ میں خدمت کر کے بنگلور کو بلند درجے پر پہنچا رہے ہیں۔ ہندوستان کے مسلمان مسلکی شدت پسندی میں حد سے زیادہ تجاوز کر گئے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں اسلام کی صحیح تصویر پیش نہ کر سکے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اجتماع کے نام پر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کئے جا رہے ہیں، اس کا مقصد یہی ہے کہ مسلمانوں میں اس جماعت کا بول بالا ہو اور مسلمان اس جماعت کی طرف راغب ہوں ،اپنے مخصوص علماء کرام کو بلایا جاتا ہے، بیانات ہوتے ہیں ،سوائے مسلمانوں کے دوسری قوم کے لئے کوئی پیغام نہیں ہوتا۔ ان تمام جماعتوں میں جماعت اسلامی ایک الگ نظریہ رکھتی ہے۔ وہ بھی سنی ،تبلیغی اور اہل حدیث کی طرح ہی اجتماعات کرتی ہے۔ کبھی کبھی دیکھا گیا وہ غیر مسلموں میں مختلف زبانوں میں قرآن کو پہنچانے کا کام کر رہے ہیں۔ مسلمان اگر فرائض کی پابندی کریں اور حرام اور حلال کی تمیز کریں اور دعوت اسلام میں جڑ جائیں تو میں سمجھتا ہوں کچھ ہی برسوں میں مسلمانوں کی کایا پلٹ جائے گی۔ ان تمام مسلکی جماعتوں کا مقصد ہو سکتا ہے اچھا ہو،مگر ایک بات ہے ،اس کے دورس نتائج بہت بھیانک ہمیں دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ آج بھی مسلکی شدت پسندی عروج پر ہے، لوگوں کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ شخص کس جماعت سے تعلق رکھتا ہے۔ مسجدوں کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا یہ کس مسلک کی مسجد ہے۔ مسلکی شدت پسندی نے مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا ہے، ان جماعتوں کی شدت پسندی نے مسلمانوں کو مفلوج بنا کررکھ دیا ہے۔ پوری قوم کے سوچنے اور سمجھنے کے ذہن کو مائوف کر دیا ہے۔ ملک کے مسلمان مذہبی ،سیاسی , سماجی اور تعلیمی محاذ پربری طرح نا کام اور کمزور ہو چکی ہے اور اس کا سب سے بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ آج مسلمان خوف کے سائے میں جی رہا ہے۔ کب کہاں، کس کی ماب لنچنگ ہوجائے پتہ نہیں،کب کس گھر سے مسلم لڑکی فرار ہو جائے پتہ نہیں،یہ عجیب اتفاق ہے ملک میں جہاں دینی مدرسے زیادہ ہیں وہیں پر مسلم لڑکیاں ہندو لڑکوں کے ساتھ ہندو مذ ہب قبول کر کے شادی کر رہی ہیں ۔ حالیہ دنوں کی ایک مثال دینا چاہوں گا کہ اترپردیش کے بریلی میں ایک واقعہ پیش آیا ۔ایک مسلم لڑ کی جس کا نام صبا تھا ،ہندو بن کر ہندو رسم و رواج کے سا تھ آشرم میں انکورڈیول کے ساتھ 3فروری کو شادی کی، صبا سے سونی بنی اس لڑکی نے ایک فروری کو اپنے گھر سے فرار ہوئی تھی۔ شادی کے بعد اس لڑکی کے والد نے تھانہ میں شکایت درج کرائی اس لڑکی کا کہنا ہے وہ بالغ ہے اور شادی اپنی مرضی سے کرنے کا اختیار ہے ،اس کا کہنا ہے ہندو مذہب اسے پسند ہے اور مسلمانوں میں وہ تین طلاق کو پسند نہیں کرتی ،پو لیس سے اپنا تحفظ چاہتی ہے۔ اس کے شوہر اور سسرال والوں کو ہراس نہ کیا جائے ،وی ایچ پی کی لیڈر سادھوی پراچی جس کو سب جانتے ہیں ،وہ اس شادی کے موقع پر موجود تھی اور اس نے آشیر واد دیا۔ اگر کوئی ہندو لڑکی مسلم لڑکے سے شادی کر لے تو لو جہاد کہا جاتا ہے ا ور یہی وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے کارکن ہنگامہ کھڑا کر دیتے ہیں، یہ آنے والے دنوں میں مسلمانوں کے لئے بہت ہی سنگین مسئلہ ہے ۔ کیا فرق کافی نہیں کہ ہندوستان میںمسلمان ہندوازم کی طرف جا رہے ہیں اور امریکہ میں لوگ اسلام کی آغوش میں آ رہے ہیں۔ ان تمام مصائب کی جڑ میں سمجھتا ہوں ہمار اتحاد نہ ہونا ہے۔ ہمارے اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے ہم اجتماعی طور پر کوئی تحریک کوئی لائحہ بنانے سے قاصر ہیں۔ہماری تمام توانائی اور قوت جماعتوں سے مقابلہ آرائی میں صرف ہو رہی ہے۔ جب ہم امریکہ کے مسلمانوں سے ہندوستان کے مسلمانوں کا موازنہ کرتے ہیں تو ہمیں ساری حقیقت صاف نظر آ جاتی ہے۔ وہاں کے مسلمان مذہبی اعتبار سے کن چیزوں کو اہمیت دیتے ہیںاور ہم کن چیزوں کو اہمیت دے رہے ہیں۔امریکی مسلمان مذہبی آزادی ،سماجی آزادی میں ہم سے بہتر ہیں،آبادی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو امریکہ میں مسلمان ہندوستان کے مقابلہ میں بہت کم ہیں، اس کے باوجود امریکہ میں مسلما ن اپنی شناخت عزت کے ساتھ قائم رکھنے میں کامیاب نظر آتے ہیں ۔
(رابطہ۔ 9916729890 )
<[email protected]