ڈاکٹر عریف جامعی
نفس انسانی کو راہ راست پر ڈالنے اور اسی راہ پر رواں دواں رکھنے کے لئے رب کائنات نے ابتدائے آفرینش سے ہی اچھا خاصا انتظام کررکھا ہے۔ نظری اور فکری سطح پر اگر اس کے لئے خدائے واحد کا تصور بنیادی اہمیت کا حامل ہے، تو عملی سطح پر اسی ایک خدا کی بندگی اور فرمانبرداری ایک طرف اس تصور کو مضبوط کرتی ہے تو دوسری طرف انسان کے لئے خدا کی یافت کو ایک زندہ تجربے میں تبدیل کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مراسم عبودیت بجا لاکر انسان خدا کے ساتھ ایک ایسا والہانہ تعلق قائم کرلیتا ہے کہ اس کی زبان ہر سانس کے ذریعے خدا کے ذکر سے تر رہتی ہے، جبکہ اس کا فکر ہر لحظہ اسی ’’حقیقت منتظر‘‘کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان کی ’’جبین نیاز‘‘ ہر آن سجدوں سے سرشار ہوکر بھی ایسے سجدے کے لئے تڑپتی رہتی ہے جو اسے ’’ہزارہا سجدوں‘‘ سے نجات دلاسکے۔
اب ظاہر ہے کہ عبادت رب کو جن و انس کا مقصد حیات قرار دیا گیا ہے۔ (الذاریت، ۵۶) اس سلسلے میں ہم اکثر اس غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں کہ ہر آن کیونکر خدا کی عبادت کی جاسکتی ہے؟ انسان ضرور یہ سوچتا ہے کہ کار جہاں میں محو و مصروف ہوکر کس طرح خدا کی عبادت کا فریضہ انجام دیا جاسکتا ہے؟ دراصل فکری اور نظری سطح پر خدا کی وحدانیت، قدرت کاملہ اور عظمت کا اعتراف ہی عملی سطح پر اس کی عبادت کی شکل اختیار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’شہادت حق‘‘ کے ساتھ بندے کی طرف سے رب تعالی کے لئے عبودیت اور عبدیت کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس طرح اس مقام پر بندے کے دل کی ذرخیز، ستھری اور پاکیزہ زمین میں اس پاک کلمے کا بیج پڑتا ہے جو صلوۃ، زکوۃ، صوم اور حج کی صورت میں برگ و بار لاکر ایک تناور شجر کی شکل اختیار کرتا ہے، جسے رب کائنات نے شجر طیبہ سے ممثل کیا ہے، جو ہر وقت پاکیزہ عمل کے پھل دیتا رہتا ہے۔ (ابراہیم، ۲۴-۲۵)
عبادت کا یہی جامع تصور، جس کی بنیاد پاکیزگی اور طہارت پر رکھی گئی ہے، انسان کے ہر عمل کو عبادت بنادیتا ہے۔ یہ پاکیزگی جب انسان کے فکر، قول اور عمل کا احاطہ کرتی ہے تو انسانی فکر کا ہر زاویہ، انسانی قول کا ہر نکتہ اور انسانی عمل کا ہر انداز خالص عبادت بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دل و دماغ میں پیدا ہونے والے ہر خیال، جو نیک عمل پر منتج ہوتا ہے یا برے عمل میں ظاہر نہیں ہوتا، پر انسان کو اجر ہی ملتا ہے۔ (متفق علیہ) اس لئے بندے کی دل کی گہرائیوں سے نکلنے والے خدا کی تقدیس اور تعظیم کے الفاظ، جو اگرچہ بندے کی زبان پر نہایت ہلکے ہوتے ہیں، لیکن یہ خدا کو اتنے محبوب ہوتے ہیں کہ قیامت کے روز میزان پر بہت ہی بھاری ہونگے۔ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’کلمتان خفیفتان علی اللسان، حبیبتان الی الرحمن، ثقیلتان فی المیزان: سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم۔‘‘ (متفق علیہ)
اللہ تعالی کی انہی صفات کا عکس بندے کے وجود سے منعکس ہوجائے تو اس کا ہر ہر عمل عبادت متصور ہوگا۔ تاہم بندے سے جس صفت کا پرتو سب سے زیادہ مطلوب ہے وہ رب تعالی کی پاکیزگی کی صفت ہے۔ یہی صفت بندے کو خدائے تعالی کی اس جنت کا وارث بنادیتی ہے جس میں فقط پاکیزہ صفت لوگ ہی داخل ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی جن لوگوں کو حتمی طور پر پاکیزگی نہیں بخشے گا، وہ جنت کے مستحق قرار نہیں پاسکتے۔ اس بارے میں رب تعالی کا فرمان ہے: ’’بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اللہ نہ تو ان سے بات چیت کرے گا، نہ ان کی طرف قیامت کے دن دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا۔‘‘ (آل عمران، ۷۷)
صاف ظاہر ہے کہ رب تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چہارگانہ ذمہ داری میں پاکیزگی، طہارت اور تزکیہ کو ایک خاص اہمیت دی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ ذمہ داری ذرا سے مختلف الفاظ کے ساتھ قرآن نے چار جگہوں پر بیان کی گئی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’ہم نے تم میں تمہی میں سے رسول بھیجا جو ہماری آیتیں تمہارے سامنے تلاعت کرتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت کی وہ چیزیں سکھاتا ہے جن سے تم بے علم تھے۔‘‘ (البقرہ، ۱۵۱) اس کا مطلب یہ ہے کہ تلاوت آیات سے بندے کے اندر پاکیزگی اور پارسائی کا کا مادہ پیدا ہونے کے بعد ہی وہ اس قابل ہوتا ہے کہ اس کو احکام الٰہی پر کھڑا کیا جاسکے اور اس سب کارکردگی اور کارگزاری کی معراج یہ ہے کہ اللہ تعالی ایسے بندے کو حکمت سے نوازتا ہے۔ تاہم پاکیزگی اور پرہیزگاری کے بغیر احکام خداوندی پر کھڑا ہوا جاسکتا ہے اور نہ ہی حصول حکمت کی کوئی توقع کی جاسکتی ہے۔
اب جہاں تک زکوۃ کا تعلق ہے، تو اس کا مادہ اور مصدر ہی تزکیہ یعنی پاکیزگی، طہارت اور پارسائی ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ زکوۃ سے کس کو پاکیزگی حاصل ہوتی ہے، مال کو یا صاحب مال کو؟ جہاں تک مال کا تعلق ہے تو اس سے کوئی حصہ گھٹا کر یا اٹھا کر یہ مجرد طور پر پاک نہیں ہوتا۔ البتہ صاحب مال کے اندر جب یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ فقط خدا کے عطا کردہ مال کا امین اور خلیفہ ہے، تو وہ اس کو اپنے ساتھ ساتھ خلق خدا پر بھی خرچ کرنے لگتا ہے۔ ایسا کرنے سے اس کا نفس پاکیزگی کے لطیف احساسات سے نہا اٹھتا ہے اور اس کا میلان اعلی حقائق کی طرف ہوتا شروع ہوتا ہے، جس سے اس کے نفس کو نشوونما ملنا شروع ہوتی ہے۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: ’’جس نے اسے پاک کیا، وہ کامیاب ہوا۔‘‘ (الشمس، ۹)
ظاہر ہے کہ انسان کے اس کثیر جہاتی تزکیہ کے لئے اس کے فکر یعنی عقیدے کا تزکیہ ہونے کے بعد یا اس کے ساتھ ساتھ انسان کے اقوال اور افعال کا تزکیہ ہوتے رہنا لازمی ہے۔ پاکیزگی کے اس مسلسل عمل کے لئے انسان کا نسب کام آتا ہے اور نہ ہی اس کا رنگ اور پیشہ اس میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن اس زعم باطل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے کہ انسان حسب و نسب پر اترائے اور عمل صالح کے ذریعے حاصل ہونے والے تزکیہ کو ایک موروثی معاملہ سمجھے۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ نیت کی پاکیزگی کو بھانپ کر خدا خود انسان کے لئے تزکیہ کے عمل کو آسان بنادیتا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کا ارشاد ہے: ’’کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا جو اپنی پاکیزگی اور ستائش خود کرتے ہیں؟ بلکہ اللہ جسے چاہے پاکیزہ کرتا ہے۔‘‘ (النساء، ۴۹) یہی نہیں بلکہ تزکیہ کی اس شاہراہ عظیم پر قدم رکھتے ہی رب کائنات بندے کے لئے اس راہ کو کشادہ بھی بناتا ہے اور آسان بھی۔‘‘ (العنکبوت، ۶۹)
چونکہ اسلام میں مال و دولت کو خیر سے تعبیر کرکے ایک طرف دنیا سے کنارہ کشی کرنے کی نفی کی گئی ہے اور دوسری طرف اس خیر کو اپنے آپ سمیت خلق خدا کے لئے خرچ کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے، اس لئے ایسے جذبے اور اس شوق سے خرچ کرنے سے سب سے پہلے خود خرچ کرنے والے کا نفس نہ صرف مطمئن ہوتا ہے بلکہ ایسا شخص طمانیت قلب کی ایک ایسی کیفیت سے سرشار ہوتا ہے کہ وہ اس راحت میں بھی شریک ہوجاتا ہے جو خلق خدا اس کے مال سے محسوس کرتی ہے۔ بندے کا یہ ’’حال‘‘ ایسا ہوتا ہے جس میں اس کا عقیدہ اور عمل ہمرنگ اور ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔ بندے کی اس کیفیت کو رب کائنات نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ’’ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ کی رضامندی کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں اس باغ جیسی ہے جو اونچی زمین پر ہو۔‘‘(البقرہ، ۲۶۵)
جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بنیادی ذمہ داری تھی کہ انسان کے فکر و عمل کا تزکیہ کیا جائے، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کمانے اور مال خرچ کرنے کے پورے ڈھانچے یا بالفاظ دیگر معیشت کے پورے نظام کو انہی بنیادوں پر استوار فرمایا۔ ریاست مدینہ کے قیام کے ساتھ ہی ایک طرف صحابہ کرام (رض) کی محنت کشی کی حوصلہ افزائی کی گئی اور دوسری طرف مالداروں کو خلق خدا اور راہ خدا میں خرچ کرنے پر ابھارا گیا۔ منہج نبوی پر غور کرنے سے یہ بات بھی سمجھ آجاتی ہے کہ کس طرح سے دین اور دنیا کا ایک بہترین امتزاج پیش کیا گیا۔ اللہ کی پکار یعنی اذان پر لبیک کہتے ہوئے عبادت کی طرف لپکنا اور نماز سے فراغت کے ساتھ ہی خدا کی زمین پر خدا کا فضل تلاش کرنے کی طرف دوڑنا (الجمعہ، ۹-۱۰) یہی واضح کرتا ہے کہ ان دونوں قسم کے اعمال سے دراصل تزکیہ ہی مقصود ہے۔ اور تو اور نبی (ص) کو واضح حکم دیا گیا کہ لوگوں سے زکوۃ اور صدقات حاصل کرکے ان کا تزکیہ کریں: ’’آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے جس کے ذریعے سے آپ ان کو پاک صاف کردیں اور ان کا تزکیہ کریں۔‘‘(التوبہ، ۱۰۳)
نظام زکوۃ سے اس بات کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ مال مجموئی طور پر گردش میں رہنا چاہئے۔ اسی گردش سے مال میں برکت بھی ہوتی ہے اور معاشرہ خوشحالی کی طرف بھی گامزن رہتا ہے۔ تاہم زکوۃ کے ساتھ ساتھ جب مال مختلف اور طریقوں سے لیکن آداب کے ساتھ گردش کرتا رہے تو معاشرے کی ترقی کے امکانات روشن رہتے ہیں۔ غور کیا جائے تو قدرتی عوامل بھی اسی بات کا عندیہ دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ زکوۃ کے ذریعے مال اہل ثروت سے ضرورت مندوں کی طرف ’’اوپر سے نیچے‘‘ اترتا ہے، جس سے معاشرے
کی جڑیں مضبوط ہوجاتی ہیں۔ کاروبار سے انسان نہ صرف محنت کش بنا رہتا ہے بلکہ خدا کے فضل کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے، جس سے کاروبار بھی ایک عبادت بن جاتا ہے۔ تحفے تحائف بھی اگر آداب کا لحاظ کرتے ہوئے دیئے جائیں، تو مال گردش کرتا ہے، جس سے معاشرے میں محبت و اخوت کی فراوانی رہتی ہے۔ اگر انسانی معاشرے کو ایک باغ سے تشبیہ دی جائے تو تحائف ان چھوٹی چھوٹی انہار کی مانند ہیں جن سے باغ میں چلنے پھرنے والا انسان کبھی اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتا ہے، کبھی ہاتھ پیر دھوکر راحت محسوس کرتا ہے اور کبھی ان سے اٹھنے والی ٹھنڈی ہوائیں اس کو تروتازہ کرتی ہیں! قدرتی عوامل یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ سمندروں کا پانی بھاپ بنکر ’’نیچے سے اوپر‘‘ کی طرف جاتا ہے، لیکن یہ پانی پھر بارش بنکر ’’اوپر سے نیچے‘‘ کی طرف آتا ہے۔ چشموں کے ذریعے اگرچہ پانی ’’نیچے سے اوپر‘‘ کی طرف آتا ہے، لیکن یہ پانی پھر نشیبی علاقوں کی راہ لیکر پیاسی انسانیت اور سوکھے کھیتوں کے لئے رحمت بنتا ہے۔ پہاڑی ندی نالوں اور دریا یہی مناظر پیش کرتے ہیں کہ پانی ’’اوپر سے نیچے‘‘آکر زندگی کا سامان کرنے کےساتھ ساتھ ہر جگہ پاکیزگی اور طہارت کا ذریعہ بنتا ہے۔
تاہم سود کے ذریعے مال محتاجوں سے نکل کر امراء کی جیبوں میں ’’نیچے سے اوپر‘‘ کھینچا جاتا ہے، جس سے معاشرے کی جڑیں خشک ہوجاتی ہیں۔ چونکہ یہ عمل فطرت کے اصولوں اور سنت الہی کے خلاف ہے، اس لئے سود سے کسی قسم کی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ رب تعالی ’’سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے۔‘‘ (البقرہ، ۲۷۶) سود خوار کی کیفیت کچھ ایسی ہوتی ہے کہ اس کو ’’شیطان چھوکر بھاولا کردیتا ہے‘‘ (البقرہ، ۲۷۵) اور جس کو شیطان مس کرکے بھاولا کردے اس کی پاکیزگی اور طہارت باقی رہتی ہے اور نہ ہی اس کا تزکیہ ممکن ہوتا ہے۔
(مضمون نگار محکمہ اعلی تعلیم میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
: [email protected]
������������������