سری نگر// کشمیر کے معروف شاعر اور گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ پروفیسر رحمان راہی اتوار کی دیر شام سری نگر میں ان کی ویژرناگ رہائش گاہ پر انتقال کر گئے۔ مرحوم تقریباً 98برس کے تھے۔
کشمیری زبان اور شاعری کی ترقی اور فروغ میں بہت بڑا کردارکرنے والے، راہی نے تقریباً ایک درجن کتابیں اور ترجمے تصنیف کیے ہیں اور سینکڑوں طلبہ اور اسکالرز کی رہنمائی کی ہے۔ زبان کے لیے ان کی خدمات کے لیے انھیں تقریباً ہر ایوارڈ سے نوازا گیا۔
راہی نے اپنے کیرئیر کا آغاز 1948 میں پی ڈبلیو ڈی کلرک کے طور پر کیا۔
بعد ازاں وہ ایک اخبار سے بطور سب ایڈیٹر وابستہ رہے۔ 1952 میں انہوں نے فارسی میں ماسٹرز کیا اور ایک دہائی بعد انگریزی میں دوبارہ ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ۔ اپنے کیریئر کا بیشتر حصہ کشمیر یونیورسٹی میں پڑھایا۔
راہی کے پسماندگان میں تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ ان کی اہلیہ کا پہلے ہی انتقال ہو چکا ہے۔
راہی کی وفات کو کشمیری زبان و ادب کا بہت بڑا نقصان قرار دیتے ہوئے حلقہ ادب سونواری (HAS) کے صدر شاکر شفیع نے پروفیسر راہی کی حلقہ ادب سونواری کے ساتھ قریبی وابستگی کو یاد کیا۔
اُنہوں نے کہا،”پروفیسر راہی نے ہمیشہ تنظیم کے لیے بہت تعاون کیا ہے۔ وہ تنظیم کے تقریباً ہر بڑے پروگرام میں شریک ہوتے تھے اور پروفیسر محی الدین حاجنی ڈے پر ہمیشہ اپنی موجودگی کو یقینی بناتے تھے۔ اس طرح کے پروگراموں میں ان کی کمی ہم سب اور ان کے مداحوں کو محسوس ہو گی”۔
تنظیم سے وابستہ تمام سینئر ممبران اور ادبی شخصیات نے سوگوار خاندان کے ساتھ تعزیت کا اظہار کیا ہے اور مرحوم کی روح کے لیے دعا کی ہے۔
مرحوم پروفیسر رحمن راہی کو 1961میں ان کے شعری مجموعے “نوروزِ صبا” کے لیے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ، 2000میں پدم شری اور 2007میں ہندوستان کا سب سے بڑا ادبی اعزاز، گیان پیٹھ ایوارڈ (سال 2004) سے نوازا گیا۔
وہ پہلے کشمیری ادیب ہیں جنہیں ان کے شعری مجموعے “سیہ رود جیرن منز ” کے لیے ہندوستان کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ، گیان پیٹھ سے نوازا گیا ہے۔
انہیں 2000میں ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی نے ساہتیہ اکادمی فیلوشپ سے نوازا تھا۔
نامور کشمیری شاعر، مصنف پروفیسر رحمان راہی انتقال کر گئے
