Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
جمعہ ایڈیشن

وجودِ الٰہی اور دین کا تصّوُر ایک جائزہ

Mir Ajaz
Last updated: January 6, 2023 1:03 am
Mir Ajaz
Share
9 Min Read
SHARE

عابد حسین راتھر

دورِ حاضر میں کچھ مسلمان خاص طور پر مسلم نوجوان خدا، مذہب، روح جیسے تصورات کے بارے میں متشکّک ہیں۔ ایسے حضرات ان تصورات کو مشکوک سمجھ کر کبھی کبھار ان اصطلاحات کا مذاق بھی اڑاتے ہیںاور جدید مغربی مُلحدانہ فلسفہ سے متاثر ہوکر ماہر نفسیات سِگمنڈ فرائیڈ کی طرح اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خدا اور مذہب جیسے تصوّرات انسانی ذہن کی پیداوار کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کے مطابق دنیا کے تمام مسائل کی جڑ مذہب ہے۔ یعنی مذہب دنیا میں افلاس، بدبختی وغیرہ کا ماخذ ہے۔اگر دنیا میں مذہب کا تصوّر نہیں ہوتا تو شاید ان چیزوں کا وجود بھی نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ سائنسی اشتراکیت کے بانی کارل مارکس کے اس عقیدے سے بےحد متاثر ہیں کہ مذہب حکمران طبقہ کی ایجاد ہے تاکہ وہ مزدور اور کمزور طبقہ کو مذہبی عقائد کے تلے دبا کر ان پر اپنی حکومت اور اپنا غلبہ برقرار رکھ سکے۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے کچھ مسلمانوں خاص طور پر تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کے اندر پنپتے اِس مُلحدانہ رویہ کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے؟ کیا اس کے ذمہ دار ہمارے روایتی مبلغین و واعظین حضرات ہیں جو اپنے ذاتی مفاد کیلئے معاشرے کے اعلیٰ طبقے کے زیر اثر اسلام کے حقیقی پیغام اور اصل تعلیمات کو چھپا کر جعلی اور بناوٹی اسلام لوگوں کوپیش کرتے ہیں اور سائنس کو اسلام کا متضاد سمجھتے ہیںیا اس رویہ کے ذمہ دار مسلمانوں کا وہ دانشور طبقہ ہے جنھوں نے اپنے دین ِ اسلام اور سائنس کے درمیان ہم آہنگی اور موزونیت ڈھونڈ کر اسلام میں جدید مسائل کا حل تلاش نہ کرنے کے بجائے اپنے سائنسی جنون کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش میں اپنے دین کو بالائے طاق رکھ کر جمُودیت کا شکار بنا دیا اور اپنے لوگوں کے اندر اس مُلحدانہ رویے کو پنپنے کا موقع دیا۔یہاںاس مرحلے پر اس بات کا تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ خدا اور مذہب کے خلاف بدظنی اور عناد کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے بلکہ یہ نظریات دور جدید کے اولین مرحلے یعنی اٹھارویں صدی کے دورِ عقلیت یا روشن خیالی کے دور میں نمودار ہوئے، جس کی پشت پناہی اور حمایت میں سولہویں صدی کا سائنسی انقلاب تھا۔ کیونکہ مختلف کتب میں اس بات کے واضع ثبوت موجود ہیں کہ دورِ ماضی میں سقراط اور افلاطون جیسے کئی عظیم فلسفی الوہیت اور عظیم غیبی طاقتوں پر یقین رکھتے تھے۔ سائنسی انقلاب کی آمد کے ساتھ ہی لوگوں نے جدید فکری سوچ کی بنیادوں پر مذہبی عقائد پر سوالات کرنا شروع کئے اور بالآخر یورپ کے ریفارمیشن دور یعنی تحریک اصلاح کلیسا میں لوگوں نے مذہب کو سیاست سے الگ کردیا۔ لوگوں کے دلوں میں مذہب کے تئیں اس نفرت کی بنیادی وجہ کلیسا کی بلاجواز ظلم و زیادتی تھی جس نے عام لوگوں اور دانشوروں کو پادریوں کے اقتدار اور حکمرانی کو چیلنج کرنے پر مجبور کردیا۔ پوپ کے اقتدار میں تخلیقی سوچ پر مکمل پابندی تھی اور کسی بھی قسم کے اختلاف کی بالکل گنجائش نہیں تھی، اختلاف کے عوض سخت نتیجہ بھگتنا پڑتا تھا۔ ان ہی بنیادوں پر اٹلی کے مشہور فلسفی اور ریاضی دان ‘گیوردانو برونو کو 17 فروری 1600ء کو زندہ جلا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا کیونکہ اُس نے کلیسا کے رائج کردہ سخت عقائد کو چلینج کیا تھا۔ ان باتوں کے پیش نظر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کلیسا کے اس ظالمانہ برتاؤ اور رویہ سے لوگوں کے دلوں میں مذہب کے تئیں پنپتی مایوسی اور نفرت کو جوازیت حاصل تھی لیکن یہاں پر ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ اگر ایک کشتی ہمیں ساحل تک پہنچانے میں ناکام ہورہی ہے تو ہمیں ساحل تک پہنچنے کیلئے کشتی سے دریا میں چھلانگ مارنے کے بجائے عقلمندی کا ثبوت دے کر کشتی کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرکے مسئلے کو حل کرنا چاہئے۔ اگر اس اصول کو اپنا لیا جائے کہ ہر اُس چیز کو ترک کر دینا چاہئے جو امن اور اچھائی کی فراہمی یا برائی سے نجات دلانے میں ناکام رہی ہو تو سب سے پہلے سائنس کو ترک کردینا ضروری ہے۔بغور دیکھا جائے تو سائنس کی وجہ سے دنیا کا امن بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ ظالم برطانوی سلطنت نے سائنس اورٹیکنالوجی کی مدد سے ہی تقریباً آدھی دنیا کو اپنی نو آبادیات بناکر وہاں کے مقامی باشندوں پر اپنے ظلم و ستم ڈھائے۔ امریکہ نے اپنے جوہری حملوں سے جاپان کے دو بڑے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی کو تباہ کیا۔ عراق اور افغانستان میں ڈرون حملے کے ذریعے امریکہ کے وحشیانہ طرز عمل اور بربریت کے مظاہرے میں جدید سائنس کا ایک اہم رول تھا۔ کیا ان چیزوں کو مدنظر رکھ کر ہمیں سائنس سے کنارہ کشی اختیار نہیں کرنی چاہئے؟ یہاں پر کچھ لوگوں کا جواب ہوگا کہ سائنس نے تو بنی نوع انسان کو بہت ساری سہولیات بھی فراہم کی ہے اور کسی بھی چیز کا غلط استعمال کرکے اس کو نقصان دہ ثابت کیا جاسکتا ہے۔ جی ہاں، آپ بالکل صحیح سوچ رہے ہیں اور اسی نقطے میں سارا فلسفہ چھپا ہے۔ چیزوں کے استعمال کا طریقہ ان سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ہم یہی اصول سائنس کی طرح مذہب میں بھی اپنا سکتے ہیں۔ سائنس کی طرح مذہب کا بھی غلط استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا اگر کچھ لوگ اپنے ذاتی مفاد کیلئے اصلی دین کو چھپا کر لوگوں کے سامنے بناوٹی دین پیش کررہے ہیں تو اس وجہ سے ہمیں اپنے دین کو ترک کرنے کے بجائے علمی تحقیق کرکے لوگوں کے سامنے حقیقی دین کو پیش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس نقطۂ نظر پر ہم سب کو غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
امریکہ کے ایک دانشور تھامس وی مورس نے ایک اہم کتاب (God and the Philosophers: The Reconciliation of Faith and Reason) ترتیب دی ہے جو اصل میں بہت سارے مضامین کا مجموعہ ہے جن میں مختلف عیسائی فلسفیوں اور دانشوروں نے اپنے ملحدانہ نظریہ سے مذہبی نظریہ تک کا سفر قلمبند کرکے یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ انھوں نے کس طرح علمی تحقیق سے مذہب، عقل اور سوچ کو آپس میں ہم آہنگ پایا۔ اب اگر ہم مسلمانوں کی بات کرے تو ان کے نزدیک ایمان اور عقل کی آپسی ہم آہنگی کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ مسلم نشاۃ ثانیہ کے دور میں اکثر مسلم دانشور اس بات پر پریقین تھے کہ ایمان اور عقل کا آپس میں ایک اہم میل جول اور مطابقت ہے اور یہی نقطۂ نظر اسلامی تہذیب کی بنیاد بنی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے بعد میں جب مختلف وجوہات کی بنیاد پر اسلامی تہذیب کا زوال آیا تو مسلمانوں کی سائنس میں دلچسپی ختم ہوگئی اور انھوں نے غور وفکر کرنا چھوڑ دیا۔ اب مسلمان دو گروہوں میں بٹ گئے ہیں۔ ایک گروہ سائنس کو قرآن کے خلاف سمجھتا ہے اور دوسرا گروہ (جس میں نوجوانان کی تعداد زیادہ ہے ) سائنس پر سخت یقین رکھتا ہے لیکن اسلام اور خدا کے بارے میں مشکوک ہے۔(جاری)
(رابطہ۔ 7006569430)
[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
ٹریڈ یونینوں کا بھارت بند: حکومت کی مزدور و کسان مخالف پالیسیوں کے خلاف 25 کروڑ ملازمین سڑک پر
برصغیر
جھلسانے والی گرمی سے راحت ،اگلے48گھنٹوں کے دوران بارشوں کا امکان
تازہ ترین
امرناتھ یاترا:بھگوتی نگر بیس کیمپ سے 7 ہزار سے زیادہ یاتریوں کا آٹھواں قافلہ کشمیر روانہ
برصغیر
پہلگام یاترا قافلے کی گاڑی چنینی کے قریب حادثے کا شکار، ڈرائیور سمیت پانچ افراد زخمی
تازہ ترین

Related

جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 3, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

June 26, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل

June 19, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

June 12, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?