سال2022ہم سے رخصت ہورہا ہے اور2023کا سورج بس طلوع ہونے ہی والا ہے ۔جموں وکشمیر میں انسانی ہلاکتوںکے تعلق سے اگرچہ گزرنے والا سال گزشتہ برس کے مقابلے میں کسی حد تک بہتر رہا اور تشدد آمیز کارروائیوں میں اُتنے بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا اتلاف نہیں ہوا تاہم حسب سابق ہر اعتبار سے یہ سال بھی عوام کیلئے مایوس کن ہی رہا اور مسرت و فراوانی کا شاید ہی کوئی لمحہ جموںوکشمیرکے عوام کو بالعموم اور کشمیری عوام کو بالخصوس ہاتھ لگاہوگا۔رواں سال میںجب جموںوکشمیر کورونا لاک ڈائونوں کے طویل سلسلے سے ابھرنے لگا ہی تھا تو پتہ چلا کہ کورونا نے ہماری معیشت کا پہیہ ہی جام کردیا ہے ۔کوروناکی تیسری لہرختم ہوتے ہوتے وادی میں بہار آچکی تھی اور گرما نے بھی دستک دی تھی تاہم لوگوں میں گرم جوشی مفقود ہی رہی کیونکہ راحت رسانی کا کوئی سامان میسر نہ ہوا۔مسلسل لاک ڈائون کی وجہ سے بے پناہ مصائب سے دوچار ہونے والے عوام راحت و سکون کے منتظر رہے لیکن راحت کا کوئی پل میسر نہیں آیا اور کووڈ انیس کی وباء کے اثرات نے تباہی مچادی ۔بہار ختم ہوئی اور خزاں نے دستک دی لیکن اہل وادی نے بہار میں بھی خزاں کا سماں پایا اور خزاں آتے آتے ان کی امیدیں کافور ہوگئی تھیں ۔اسی کشمکش میں سرما نے دستک دی اور حاجن بانڈی پورہ اور درگمولہ کپوارہ میں ضلع ترقیاتی کونسل کی خالی نشستوں پر انتخابات ہوئے جن میں رائے دہی اطمینان بخش رہی ۔ ان سب واقعات کے علاوہ دیگر کئی چھوٹے بڑے واقعات بھی پیش آئے تاہم ترقیاتی اور معیشی فرنٹ پر کوئی ایسی پیش رفت نہ ہوسکی جو قابل ذکر ہو بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ان دونوں محاذوں پر امسال بھی مایوسی ہی ہاتھ لگی تو بیجا نہ ہوگا۔بیروزگازری اور مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کرکے رکھ دیا ہے ۔بیروزگاروںکی فوج میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا اور اختتام ہونے والے سال میں صرف دھاندلیوں کی وجہ سے چند بھرتی فہرستیں ہی کالعدم کرنا پڑیں جبکہ عملی طور کوئی نئی بھرتی نہیںہوئی اور یوں پڑھا لکھا نوجوان طبقہ مایوسیوں کے اتھاہ سمندر میں ڈوبتا رہا اور اب حالت یہ ہے کہ نشہ تقریباً ہر گھر تک پہنچ چکا ہے کیونکہ مایوسی کے عالم میں نوجوان اب اداسی سے چھٹکا را پانے کیلئے نشے کے عادی ہونے لگے ہیں اور اس کے ڈپریشن کی وباء بھی کسی سے پوشیدہ نہیںہے ۔2022میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں دو سے تین گنا اضافہ ہوا اور یوں بیشتر چیزیں عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوگئیں اور غریبوںکے چولہے ٹھنڈے پڑنے لگے تاہم اطمینان کی بات یہ ہے کہ اس دوران مفت راشن کی صورت میں لوگوںکو قدرے سہاراملتا رہا جو اب آئندہ سال بھی ملتا رہے گا۔زراعت و باغبانی کے اعتبار سے بھی یہ کام کچھ خاص نہیں رہا ۔زرعی پیداوار توقعات کے برعکس کم رہی اور بیماری لگنے کی وجہ سے دھان کی فصل متاثر ہوئی ۔جہاں تک باغبانی کا تعلق ہے تو گوکہ سیب کی پیداوار امیدوں سے کہیں زیادہ ہوئی تاہم بازار میں ڈیمانڈ نہ ہونے کی وجہ سے ریٹ نہ ہونے کے برابر ہے جس کے نتیجہ میں باغبانی سے جڑے کسانوںکو اُتنا پیسہ بھی واپس نہیں مل پارہا ہے جتنا اس فصل کی تیاری میں لگا تھا ۔حق گوئی سے کام لیا جائے تواچھے سیاحتی سال کے باوجود مجموعی طور پر پورا سال مایوسیوں سے عبارت رہا اور جہاں حکومتی سطح پر عوامی راحت رسانی کا کوئی بڑا کام نہ ہوسکا وہیں اپنے آپ کو عوام کے بہی خواہ کہلانے والی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے گو مگو کی سیاست ہی چلتی رہی اور عوامی نمائندگی کا کوئی واضح اور ٹھوس پروگرام سامنے نہیں آیا۔ یوں پورے سال میں کوئی ایک بھی ایسا واقعہ رونما نہ ہوا جو اہلیانِ جموںوکشمیر کیلئے راحت اور شادمانی کا باعث بن جاتا بلکہ الٹا نامرادیوں اور مایوسیوں کا یہ عالم رہا کہ بیروزگار نوجوانوں سے لیکر عام آدمی تک تمام طبقوں سے وابستہ لوگ نالاں ہی نظر آئے۔اب جبکہ 2022کا سورج غروب ہو رہاہے اور2023کا سورج طلوع ہورہاہے، تو یہی امید کی جاسکتی ہے کہ نیا سال اہلیانِ جموںوکشمیرکیلئے خوشیوں کی نوید لیکر آئے گا اور سارے نہیں تو کم از کم بیشتر مسائل حل ہوپائیں گے۔