عمران بن رشید
’’ اَنا‘‘ کیا ہے؟ بہت غور کیا ، کئی کتابوں کی ورق گردانی کی،اردو،عربی اور انگریزی لُغات کو کھنگالااور بالآخر اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ لفظ وسیع المعنی اور مختلَف الفیہ یعنی معناََ ایک اختلافی لفظ ہے۔لغوی اعتبار سے خودی ،پندار،غرور، گھمنڈ ،خودبینی ،خود ستائی، غیر ذمہ داری اور مطلق العنانی وغیرہ سب پر لفظ ’’اَنا‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے۔البتہ اس لفظ کا دائرہ استعمال اس قدر وسیع ہے کہ ہر پہلو سے اس کا احاطہ کرنا کارے دارد والا معاملہ ہے۔یہ لفظ ماہرینِ لسانیات کے پاس جاکر ’میں ،ریاکاری،خود غرضی اور نفسِ ناطقہ ‘‘جیسے معنیٰ پاتا ہے ۔ جبکہ صوفیاء کے یہاں ’اَنا‘کو معرفتِ ذات کے معنی میں لیا جاتا ہے۔اور فلاسفہ ’انا‘ کے معنی میں تصورات اور تخیلات کی ایک کائنات تخلیق کر بیٹھے ہیں۔ یہاں تک کہ براعظم ایشیاء کے فلسفی شاعر علامہ اقبال ؒ کا تصورِ خودی بھی اصل میں ’اَنا‘ کے اردگرد گردش کرتا ہوا ملتاہے۔اور اُن کے نزدیک خودی یا انا ایک نقطئہ نوری ہے جس کی بدولت انسانی زندگی قائم ہے۔ ؎
نقطہ نورے کہ نام او خودی است
زیرِ خاکِ ما شرارِ زندگی است
اِن سب باتوں سے صرفِ نظر ادب میں ’انا‘یا ’انانیت‘ایک علحیدہ چیزہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد گویا ہیں:۔
’’انانیتی ادبیات سے مقصود تمام اس طرح کی خامہ فرسائیاں ہیںجن میں ایک مصنف کا ایغو(ego)یعنی ’’میں‘‘نمایاں طور پر سر اُٹھاتاہے۔مثلاََ خودنوشتہ سوانح عمریاں،ذاتی واردات و تاثرات ،مشاہدات وتجربات ،شخصی اسلوبِ نظر وفکر۔‘‘
غبارِ خاطر
جب ایک ادیب ،مصنف اور شاعر اپنے آپ کو اوروں پر ترجیح دیکر مقدم کر لیتا ہے تو وہ اصل میں اپنی ’انا‘ یعنی ’ایغو‘کو ظاہر کرتا ہے۔میرؔ نے کسی زمانے میں کہا تھا ۔ ؎
اگرچہ گوشۂ گزین ہوں میںشاعروں میں میرؔ
پہ میرے شعر نے روئے زمیں تمام لیا
شاعری کی زبان میں میرؔنے صنعتِ تعلی سے کام لیا ہے۔لیکن حقیقت میں انہوں نے اپنی’’ انا ‘‘کا بھر پور مظاہرہ کیا ہے۔شعراء کے یہاں ایسی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں۔چنانچہ مرزا غالب ؔ کہتے ہے۔ ؎
گنجینہ معنی کا طلسم اس کو سمجھئے
وہ لفظ جو غالب ترے اشعار میں آوے
اسی طرح کا ایک شعر میر انیسؔ نے کہا ہے۔ ؎
گلدستۂ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
اک پھول کا مضمون ہو تو سو رنگ سے باندھوں
ان اشعار میں انانیت نمایاں ہے۔البتہ اندازِ بیاں ایسا ہے کہ قاری کو واہ واہ ! کرنے پر ابھارتاہے۔جبکہ عام خیال میں انانیت کوئی اچھی چیز نہیں ہے،بلکہ سماج میںاسے ایک عیب تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود جو فنکار اپنی انانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں سے داد و تحسین وصول کرے وہ واقعی میں ایک فنکار ہے۔اور غالب ؔ اور میرؔ جیسے شعراء میں یہ صلاحیت بدرجہ اَتم موجود تھی۔ مشہور امریکی وکیل اور قلمکار ولیم واکراٹکنسنؔ(william walker atkinson) رقمطراز ہیں:۔
“The Egotist has an overwhelming sense of the centrality of the “Me”, that is to say of their personal qualities”
یعنی انانیت کا مظاہرہ کرنے والا (فنکاریا تخلیق کار)انانیت کی عمدہ سوچ رکھتا ہے جس کی بدولت وہ اپنی صلاحیتوں کا برملا اظہار کرتا ہے ۔ لیکن انانیت کا قطعاََ یہ مطلب نہیں ہے کہ دوسروں کو کچھ کم تر سمجھا جائے ،جیسا کہ آج کل کے اکثر ادیبوں اور شاعروں کے یہاں دیکھا جاتا ہے ،بلکہ انانیت ایک فنکارانہ ادا ہے ۔جس کے سہارے ایک فنکاراپنے فن کے اظہار کو ایک خوبصورت انداز بخشتا ہے۔غالب ؔ نے اگر اپنے اشعار کو ’’گنجینہ معنی کا طلسم‘‘ کہہ کر انانیت کا بر ملا اظہار کیا ہے ۔تاہم اُس نے دوسروں کی سخنوری کا اعتراف بھی کیاہے،جیسا کہ میر تقی میر کے حوالے سے وہ کہتے ہیں ۔ ؎
ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
؎ ادب مختلف افراد کی محنت اور سعی سے تخلیق پاتاہے۔یہاں دوسروں کی مخالفت کے لئے کوئی گنجائش نہیں ،بلکہ یہاں ایک ادیب کا خیال دوسرے ادیب کے لئے مشعلِ راہ ہے۔لہذا جو ادیب یا شاعر غرور اور گھمنڈ والی انانیت کا علمبردار ہو وہ ادب تخلیق کر ہی نہیں سکتا بلکہ وہ اپنی ہی ذات میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔مولانا ابوالکلام آزادؔ رقمطراز ہیں:۔
’’انانیت کا یہ شعور کچھ اس نوعیت کا واقع ہوا ہے کہ ہر انفرادی انانیت اپنے اندرونی آئنہ میں جو عکس ڈالتی ہےبیرونی آئینوں میں اُس سے بالکل الٹا عکس پانے لگتا ہے۔اندر کے آئینہ میں ایک بڑا وجود دکھائی دیتاہے، باہر کے تمام آئینوں میں ایک چھوٹی سے چھوٹی شکل ابھرنے لگتی ہے‘‘
غبارِخاطر۔خط نمبر۔17
غرض کہ ایسی انانیت جس میں اوروں کی نفی ہو ایک ادیب کے حق میں سمِ قاتل ہے۔جو اُسے اپنی ذات سے اوپر اُٹھ کر سوچنے کی صلاحیت سے محروم رکھتی ہے۔ ایسی انانیت کو اگر ’’تنقید برائے تنقیص‘‘کا نام دیا جائے تو بیجا نہ ہوگا‘کیوں کہ تنقید برائے تنقیص میںایک ادیب یا فنکار دوسروں میں نقص اور عیب ڈھونڈتے ہوئے اپنی ذات کو مقدم کرلیتا ہے۔اُس کے لکھنے یا بولنے کا اصل مقصد ہی دوسروں کی نفی اور اپنی انانیت کو ظاہر کرنا ہوتا ہے۔ایسی انانیت ادب میں دھڑہ بندی کووجود بخشتی ہے ‘اور کوئی بھی حساس ادیب دھڑہ بندی کا قائل نہیں ہوتا‘بلکہ دھڑہ بندی نے ہمیشہ ادب کو نقصان پہنچایاہے ۔بقول عبدالرحمٰن مخلصؔ’’دھڑہ بندی نے ہمیشہ ادب کو بھی کافی نقصان پہنچایاہے اور مذہب کو بھی‘‘ [میرا ادبی سفر]۔
انا یا ایغو کا بنیادی تعلق شعورِ ذات سے ہے۔جو شخص کما حقہ اپنی ذات کا ادراک حاصل کرتا ہے اُس میں انایاایغو موجیں مارنے لگتا ہے اور وہ اپنی انا کو برملا طور پر ظاہر کرنے لگتا ہے‘اگر وہ فنکار ہے تو اپنے فن کی وساطت سے اپنی انا کی تشہیر کرتا ہے ‘فنکار نہیں ہے تو خود کو لوگوں کے حوالے کرتا ہے اور لوگ اُس پرطعنے کسنے لگتے ہیں۔گویاکہ فن انانیت کے اظہار کا بہترین وسیلہ ہے‘۱۰ نومبر ۲۰۱۷ کے روزنامہ ’’اودھ نامہ ‘‘ میں موسیٰ رضا ؔکا ایک مقالہ زیرِ عنوان ’’مولانا ابولکلام آزاد ؔاور انانیت‘‘ شائع ہوا ہے ۔اس میں وہ لکھتے ہیں :۔
’’انانیت بھی اسی نوعیت کی ایک صفت ہے جو ہر شخص کو زیب نہیں دیتی اس کے لئے انسان میں غیر معمولی صلاحیت اور کمال کا موجود ہونا ضروری ہے۔کمتر درجے کی صلاحیت اور کمال رکھنے والا شخص بھی باطن میں انانیت کی گونج محسوس کرتا ہے مگر عدمِ اعتماد کی بنا پر اس کے اظہار کی جرات نہیں کرپاتا جب انسان جہد مسلسل اور سعی ناتمام کے بعد خود میں ایسا ملکہ پیدا کرلے کہ اس کا کہا ہوا مستند اور بیان کیا ہوا گنجینہ معنی سے پُر نظر آنے لگے اس وقت اس کے منہ سے نکلنے والے لفظ ’میں‘کو عوام سراہتی ہے‘‘
ہر ادب پارے اور فن کی تخلیق کے پیچھے اصل میں ادیب اور فنکار کی ’’انا‘‘ہی کارفرماہوتی ہے‘جس کا اظہار وہ مختلف طریقوں اور مختلف زاوِیوں سے کرتا ہے۔انا ہی دراصل انسان کو اس بات پر ابھارتی ہے کہ وہ اپنے ہونے کا دوسروں کو احساس دلائے اور اسی فکر کے زیرِ اثر وہ تخلیق کا راستہ اختیار کرتا ہے۔بلکہ تخلیق اور فن کے راستے سے ہی وہ اپنی اناکو مثبت روپ عطا کرتا ہے ‘جبکہ انا ایک منفی چیز ہے۔ سماج میں ہر صورت اِ س کو حقارت سے دیکھا جاتا ہے۔اگر مشہور ماہرِ نفسیات فرائڈکی زبان میں کہاجائے تو ایک ادیب اور فنکاراپنے ’ایغو ‘ کو سُپرایغو (super ego) یعنی فوق الشعور کے طابع کرلیتا ہے۔اور وہ انانیت کے اظہار کے لئے تخلیق اور فن کا راستہ اختیار کرتا ہے جہاں اُس کا ایغو عیب نہیں بلکہ فن تصور کیا جاتا ہے۔چنانچہ علامہ اقبال کا فلسفئہ خودی اس کی بہترین مثال ہے ‘کیوں کہ اقبال سے پہلے خودی کومحض ’’انا‘‘اور ’’تکّبر‘‘کے معنی اور مفہوم میں برتا جاتا تھا۔لیکن اقبال نے آکر خودی کو فوقِ شعور کے بلنددرجے پر پہنچایا۔؎
خودی میں ڈوب جا غافل یہ سرِ زندگانی ہے
نکل کر حلقہ شام و سحر سے جاوداں ہوجا
یہ بھی کہتا چلوں کہ ادب اور انانیت میں ربط ہونے کے باوجود ہر طرح کی انانیت ادب کے لئے مفید نہیں ہوتی‘ بلکہ کبھی کبھار کسی خوبصورت ادب پارے میں ادیب یا شاعر کی انا نقص ثابت ہوتی ہے‘جس کی وجہ سے وہ ادب پارہ اپنی اہمیت کھوتاہے۔اور ادب میںایسی انا جس میں دوسروں کی نفی ہو‘کے لئے کوئی گنجائش نہیں ۔چنانچہ میں پہلے ہی عرض کر چکا کہ ادب مختلف افراد کی محنت اور سعی سے تخلیق پاتا ہے ۔یہاں دوسروں کی مخالفت کے لئے کوئی گنجائش نہیں ،بلکہ یہاں ایک ادیب کا خیال دوسرے ادیب کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ایک ادیب اور شاعر کا خیال دوسرے کو جلا بخشتا ہے ‘جہاں ایک ادیب کا قلم رکتا ہے وہاں سے دوسروں کو تحریک ملتی ہے۔بقول افریکی ناول نگار رالف آئیرن(Ralph Iron) :۔
Those coming after me will not have to cut the first steps
یعنی میرے بعد آنے والے لوگ وہاں سے سفر شروع کرینگے جہاں تک میں پہنچا ہوں ‘اُن کے لئے ابتدائی راستے میں نے عبور کرکے رکھے ہیں۔میرے قدموں کے نشاں اُن کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہونگے۔اسی اصول پردنیاکے ہر ادب کی تخلیق اور تعمیرہوتی ہے۔
���
سیر جاگیر سوپور
موبائل نمبر؛8825090545