قیصرمحمودعراقی
چاہے کوئی کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو ، سب سے بڑا بادشاہ ، وزیر اور مشیر کیوں نہ ہو، اگر وہ بندگی نہیں کر تا تو ناکام ہے ۔ کوئی بندہ جب بندگی سے دور ہو گا تو زندگی سے دور ہو گا ہی اور پھر نہ وہ اپنے لئے مخلص ہو گا نہ دوسروں کے لئے ۔ بندگی ہمیں ہمارے رب کے سامنے لیکر جا تی ہے ، زندگی میں اخلاص ہو یا بندگی دونوں ہی رب کا قرب عطا کر تی ہیں ۔ زندگی نماز کی صفت یعنی بندگی کی اصل پر آجائے تو بندہ کا میاب ہے ورنہ ناکام ہو گا ۔ نماز میں رب کے سامنے گریہ و زاری ہو اور نماز کے بعد رب کی غیر سے تعلق ہو تو کیسی کا میابی ؟ پھر عبادت بھی ناکام ، عیادت بھی، شجاعت اور دیانت بھی ناکام بلکہ دیانت اہانت بن جا ئے گی ۔ نماز کے اندر جیسے رب کے ہر حکم کی پیروی کر تے ہیں اسی طرح نماز کے باہر بھی کریں تو کامیاب ورنہ ناکام رہیں گے اور ناکامی سے بڑی کوئی محرومی نہیں ۔
زندگی میں بعض اوقات ایسا بھی ہو تا ہے کہ بہت کچھ ہو جا تا ہے مگر ہم اسے کچھ نہیں سمجھتے اور کسی سے کچھ بھی نہیں ہو تا تو ہم اسے بہت کچھ سمجھ رہے ہو تے ہیں ۔ کا میابی یا ناکامی اسی سمجھ سوچ ہی کے بطن سے تولد ہو تی ہے ۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ نوشتہ دیوار بھی نظر آرہا ہوتا ہے مگر اسے پڑھنے کی تکلیف ہی نہیں کر تے کہ اس دنیا کا سب سے مشکل کا م اپنی زندگی کے رُخ کو بدلنا ہے ۔
ناکام کو ن ہے ؟ جو اپنے حال پر مطمئن نہیں ، مسرور نہیں ناکام ہے ، یہی حال ماضی بنے گا پھر وہ اس ماضی پر روئے گا ، آہیں بھرے گا ، اگر حال پر خوش ہو گا تو ماضی پر خوش ہو نا یقینی ہو گا ،کیا دھن دولت اور دیگر چیزیں کا میابی کی ضمانت ہیں ؟ نہیں ! بلکہ مطمئن اللہ والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر ساری دنیا مل جا ئے اور آخرت میں اس کا حساب نہ لینے کی ضمانت دی جا ئے تو بھی اس سے اس طرح بچیں گے جیسے لوگ مرُ دار کے قریب سے گذرتے ہو ئے ڈرتے ہیں کہ کہیں وہ کپڑوں کے ساتھ نہ لگ جا ئے ۔ اگر کا میاب ہو نا چاہتے ہیں تو کا میابیاں ، سکون ، مروت اور رواداری تقسیم کر نا ہو گی ، نا کا میاں تقسیم کر تے رہے تو کا میاب کیسے ہو نگے ۔ اگر دولت چاہتے ہیں تو دولت تقسیم کر تے جا ئیں، تو دولت کے انبار لگ جا ئیں ، کچھ اور تقسیم کرینگے تو انبار کچھ اور لگ جائیں گے ، یقین نہ آئے تو آزما کر دیکھ لیں ۔درحقیقت ناکام وہ ہے جس کا عمل کم اور علم زیادہ ہو ۔ اور کا میاب وہ ہو گا جو در گذر کر ے گا ، اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دے گا ۔ عمل میں اگر کوتاہی ہو جا ئے تو یہ یقینا ًکمزوری ہے مگر ارداے میں کمزوری اور کوتاہی نہ ہو ، کسی کو معاف کر کے دیکھیں کا میابی راہ میں منتظر ملے گی ۔ یہ عمل نہ صرف دنیا میں بلکہ قبر میں بھی حیران کر دینے والا ہے، جب اس اندھیری کوٹھری میں ایک طرف بتی جل اُٹھے گی تو پتہ چلے گا کہ یہ تو اس درگذر کی وجہ سے ہے ، اس وقت جب تکبر کی جگہ چھوٹائی کو اپنا لیا تھا، یہ تو اس کا انعام ہے ۔
کا میابی کا اصل معیار تو وہی ہے جو ربّ نے اور ربّ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا ۔ در اصل لائق تحسین تو وہی ہے جس کا تعلق رب سے جُڑ جائے ،اس کے مقابلے میںجوغفلت میں ہے اسے کون کا میاب کہے گا ۔جو ازلی اور ابدی محبوب کے خیال سے غافل ہو ، بڑائی اور بلندی اس سے کافی نہیں بلکہ کوسوں دور ہو تی ہے ۔ محبوب تو ہو تا ہی وہی ہے جس کے لئے ساری آرزو ئیں ، ساری خواہشیں ، ساری دلچسپیاں اور ساری آسانیاں قربان کی جا سکیں ۔ ربّ کی محبت کو پا لینا اگر آخری آرزو ہے آخری حسرت ہے تو یہی حاصل زندگی ہے، اس حاصل زندگی ہی کی تلاش اصل زندگی ہے، حیات کا اور حیات جا ویداں کا مقصد ہے، جسے یہ مقصد حاصل ہو وہی کامران ہے ۔
جس طرح پیاس ، خواہش ، آرزو ، بے تابی اور وارفتگی اندرسے پیدا ہو تی ہے ۔ اس طرح کا میابی پا لینے کی خواہش بھی اندر ہی سے پیدا ہو تی ہیں ۔ پھر ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی کی خواہش تو مقدر والوں ہی کو نصیب ہو تی ہے، ورنہ بڑے بڑے سیاست داں ، امرا، وزرا اور معروف دانشور جو پیسے کے پیچھے سر پٹ بھاگتے عمربتا رہے ہیں ،اُن کے ہاں کوئی آفاقی مقصد پنپ ہی نہیں سکتا ۔ جب کوئی مسند یا اقتدار حاصل کر لیتا ہے تو لاکھوں کا مجمع ان کی ایک جھلک دیکھنے کو امڈ آتا ہے ۔ خوشامدی ٹولہ ان کے گرد ایک نقلی تعریف و تو صیف کا سلسلہ شروع کر دیتا ہے ۔بعض لوگ ان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا تے ہیں۔مگر چند ماہ یا چند سال بعد یہ مسند چھن جا تی ہے تو یہ سارا ٹولہ رفو چکر ہو جا تا ہے اور پھر کسی نئے چڑھتے ہو ئے سورج کی پوجا شروع کر دیتا ہے ۔ یہی لوگ جوان نام نہاد کا میاب ترین قائدین کی اگلی صفوں تک پہنچاتے ہیں وہی انہیں ریگدتے ہو ئے پیچھے لے آتے ہیں ۔ جو کبھی پھولوں کی پتیاں نچھاور کر تے تھے وہی دشنام طرازی پر آتے ہیں ۔ یہ جھوٹی اور لبھاتی کا میابی دراصل ناکامی کا چولا پہن کر آتی ہے ۔ غرض کہ بندہ نہ ہی دل کا محرم ہو تا ہے، نہ ہی کا میاب ہو تا ہے ۔
لہٰذا اس رب کی طرف رجوع کریں جس کے پاس کامیابیوں کے خزانے ہیں ، اس کی طرف رجوع کر لینا ہی اُسے پا لینا ہے ۔ یاد رکھو! پتھروں کی عمر ہزاروں سال ہو تی ہے مگر یہ عمر رائیگا ں کسی کام کی نہیں ہو تی۔ پتھر راستے کی رکاوٹ ہو تے ہیں کسی کو گزارنے نہیں دیتے، اس کے بر عکس پھول نرم ہو تے ہیں جو آنے والے پر راہی پر اپنی خوشبو لٹاتے ہیں اور ان کے قدموں میں لوگ لوٹ جا تے ہیں۔ یہ بالکل حقیقت ہے کہ جھکنے والے ہی رفعتیں حاصل کر تے ہیں جو اس عارضی زندگی کے عارضی فوائد کے بدلے ہمیشہ رہنے والی قیمتی آخرت کو بر باد کر دیتا ہے، اسے کون کا میاب کہے گا اور اسے کیسے سکون میسر ہو گا ۔
Mob:6291697668