خالد بشیر تلگامی
اَڈه
عرفہ کا دن تھا۔ بازار میں کافی بھیٹر تھی۔ لوگ بڑے جوش و خروش سے شاپنگ کر رہے تھے۔ بھیڑ میں اچانک ایک ضعیف شخص سے ایک جوان آدمی ٹکرا گیا۔ “ارے! اندھے ہو کیا۔ کتنی مہنگی چیزیں تم نے میری گرادیں۔“ معاف کیجئے محترم، جلد بازی میں آپ سے ٹکر ہو گئی ۔” اس شخص نے معذرت کی۔
ضعیف شخص نے پوچھا۔
” یہ اتفاق سے ہوا یا تم نے جان بوجھ کر میرا نقصان کیا۔”
“محترم، بھلا میں آپ کا کیوں نقصان کروں گا.. آپ سے میرا کیا دشمنی ہے؟“
” تو پھر کس بات کی جلدی تھی؟ کسی کا کچھ چرا کر تو نہیں بھاگ رہے ہو؟“
“ایسی بات نہیں ہے محترم …. دراصل بازار شیطان کا اڈہ ہوتا ہے … اس لئے میں جلد سے جلد شیطانی اڈے سے نکل جانا چاہتا ہوں۔“
قرضِ حسـنہ
وہ عید سے چار دن قبل اپنے بڑے بھائی سے ملنے اس کے گھر گیا۔ بھائی تو موجود نہیں تھا ، بھابی سے ملاقات ہو گئی۔ ادھر ادھر کی گفتگو کے درمیان بھابی نے پوچھ لیا۔ ” کیا عید کی تیاریاں پوری ہو گئیں ؟“ اس نے جواب دیا۔ ”جی بھابی ! احمد للہ ! بچوں اور بیگم کے لئے بہت کچھ لا دیا ہے۔ کسی طرح کی کمی نہیں کی ہے .. اور آپ لوگوں کی ؟ بھابی اس سوال کا جواب دیے بغیر “کچن میں دال چڑھی ہے، ابھی آتی ہوں” کہہ کر چلی گئیں۔ پاس کھڑی اس کی آٹھ سالہ بھتیجی نے کہا۔ “بابا کے پاس پیسے ہی نہیں ہے تو عید کہاں ؟ بھتیجی کے یہ الفاظ اس کے کان میں پگھلے ہوئے سیسے کی مانند اتر گئے۔ کوئی بات نہیں بیٹا… عید یہاں بھی ہو گی ان شاء اللہ دو تین منٹ میں بھابی واپس آگئیں۔ آتے ہی پوچھا۔ ”ہاں تو بشیر، بھیا سے کچھ کام تھا کیا ؟ وہ اس کے سوال کو ٹال گئیں۔
کام تو نہیں تھا بھابی۔ چند مہینے پہلے میں نے بھیا سے دس ہزار روپے قرض لیے تھے، وہ لوٹانے آیا ہوں۔ یہ کہہ کر بشیر نے نوٹوں کی ایک گڈی بھابی کے حوالے کردی۔
بھابی حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔ لیکن بشیر کو محسوس ہوا کہ اس کے ایک چھوٹے سے جھوٹ نے اسے جس مسرت سے ہمکنار کیا ہے وہ بڑی سے بڑی حق بیانی پر نہیں ملتی۔
نیکی
”بھائی جان! کیا میں آپ کے موبائل سے ایک کال کر سکتا ہوں … میرے موبائل کی بیٹری ڈاؤن ہو گئی ہے۔“
“معاف کیجئے میں کسی انجان کو اپنا فون نہیں دے سکتا ۔”
“بھائی! انسانیت کے ناطے، مجھے اپنی بہن سے کچھ دواؤں کے نام پوچھنے ہیں پلیز بھائی صاحب … بڑی مہربانی ہوگی ۔” اس نے بیچارگی سے التجا کی اس شخص کی التجا پر اس نے موبائل فون پیش کر دیا۔ فون کر کے اس شخص نے واپس کرتے ہوئے مسکرا کر شکریہ ادا کیا۔
اس مدد پر موبائل فون والے کو یک گونہ قلبی سکون کا احساس ہوا کہ آج اس نےایک نیک کام کیا ہے۔
لیکن دوسری صبح اپنے گھر پر پولیس کے ریڈ پر اس کے حواس گم ہو گئے۔ پولیس افسر نے کاغذ پر لکھے ایک فون نمبر کو دکھاتے ہوئے ، اس سے سخت لہجےمیں پوچھا۔ ” کیا یہ تمہارا ہی نمبر ہے؟”
“جی یہ تو میرا ہی نمبر ہے لیکن کیا بات سر؟”
“تمہارے اس فون نمبر سے ایک ہائے پروفائل آدمی کو جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی ہے۔ اس فون کال کے لئے تمہیں گرفتار کیا جاتا ہے۔“
اس نے دل ہی دل میں سوچا، یہی ہے نیکی کر دریا میں ڈال!
صحبت
چُھٹی کے دن احمد بھائی کا آٹھ سالہ بیٹا میدان میں کرکٹ کھیل رہا تھا۔ گھنٹہ بھر بعد ہی وہ روتے ہوئے گھر آیا۔
“کیا ہوا بیٹا… کیوں اتنا رورہے ہو؟” اس کی ماں نے پیار سے پوچھا۔
“مما، پڑوس کے لڑکے نے میرا بلّا توڑ دیا، مجھ پر ہاتھ اٹھایا اور گالیاں بھی دیں۔“
“اور تم نے چپ چاپ سب کچھ سہہ لیا ؟“
” اگر میں نے پلٹ کر گالیاں دی ہوتیں یا اسے مارا ہوتا تو کیا پاپا بخش دیتے ؟”
” چلو، اچھا کیا … ایسے گندے لوگوں کے ساتھ اب کبھی مت کھیلنا ۔” ماں نے
بیٹے کو نصیحت کی۔
کچھ ہی دیر بعد اس پڑوسی لڑکے کی ماں احمد بھائی کے گھر لڑائی کرنے چلی آئی۔ ان کی ایک نہ سنی۔ دیر تک گالی گلوج کرتی رہی۔ احمد بھائی، ان کی بیوی اور بچے ان گالیوں کی گونج تلے اپنی عزت بچاتے رہے۔
ہمدانیہ کالونی بمنہ سرینگر
موبائل نمبر;9797711122