میر امتیاز آفریں
حضرت نورالدین نورانی رحمۃ اللہ علیہ (1377-1438ء) کی شخصیت کشمیر کی سماجی، ثقافتی، ادبی، اور روحانی تاریخ میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ شائد ہی کوئی کشمیری ہوگا جسے شیخ نورالدین نورانی ؒ کا کوئی نہ کوئی شعر یا کوئی نہ کوئی واقع زبانی یاد نہ ہوگا۔کوئی بھی سماجی، سیاسی یا مذہبی تقریب ہو کلامِ شیخ العالمؒ میں سے ضرور کچھ نہ کچھ دہرایا جاتا ہے اور اس سے رہنمائی لی جاتی ہے۔شاید ہی کشمیر کا کوئی قصبہ، گاؤں یا بیابان ہوگا جس کے ساتھ شیخ العالمؒ کا کوئی نہ کوئی قول یا واقعہ منسوب نہ کیا گیا ہو۔ دراصل شیخ العالمؒ کی شخصیت حقیقی کشمیریت کی سب سے بڑی علامت ہے جو صدیاں گزرنے کے بعد بھی کشمیریوں کے دلوں پر راج کررہی ہے۔ شیخ العالمؒ کی مقبولیت کے پیچھے سب سے بڑا راز ان کا کلام ہے ،جس نے ایسے دور میں کشمیری قوم کی فکری و روحانی تربیت کی جب وہ جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہی تھی۔ اگرچہ انہوں نے ذاتی طور پر بھی کارہائے نمایاں انجام دئے مگر ان کے کلام نے ان کی آواز کو آفاقی و لافانی بنا دیا۔ شیخ العالمؒ کی شاعری پر تبلیغی اور عرفانی رنگ غالب ہے۔وہ شعر و سخن میں زیادہ تر’’ادب برائے زندگی‘‘
(Art for life’s sake)کے قائل ہیں اور اس لئے اپنی شاعری میں انہوں نے بہتر زندگی گزارنے کا لائحہ عمل پیش کیا ہے۔انہوں نے اپنے سدا بہار کلام میں جن موضوعات کو کلیدی حیثیت دی ہے ،ان میں حصولِ معرفتِ الٰہی، تزکیہ نفس، انسان دوستی، آخرت پسندی اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سماجی اصلاح خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
جب ہم کشمیر میں اسلامی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم پڑتا ہے کہ سب سے پہلے اس قوم کو اسلام کے ساتھ متعارف کرنے والی شخصیت حضرت بلبل شاہ ترکستانیؒ کی تھی۔انہوں نے اپنی کاوشوں سے اسلام کی مشعل کو روشن کیا اور ان کی دعوت سے بادشاہِ وقت رینچن شاہ نے اسلام قبول کیا اور اس سے اسلام کو دربار و عوام میں مقبولیت ملی۔ اس کے بعد ضرورت اس بات کی تھی کہ اسلامی نظریہ حیات کو سماج کے ہر طبقے میں راسخ کیا جائے، مساجد، خانقاہوں اور مدارس کا قیام عمل میں لایا جائے اور انسانوں کو اسلامی سانچے میں ڈھالا جائے اور علم و ہنر کے سامان سے لوگوں کو خود کفیل بنایا جائے ،جس سے اسلام پر حقیقی طور پر ان کا دل جم جائے۔ اس صورت حال میں شاہ ہمدان میر سید علی ہمدانیؒ اپنے 700 ساتھیوں کے ساتھ تشریف لائے اور انہوں نے فیاضی کے ساتھ اس قوم کی فکری تعمیر میں کلیدی کردار ادا کیا اور ‘معمارِ تقدیرِ امم کہلائے۔ کشمیری قوم کے یہ دونوں اولین محسن باہر سے تشریف لائے تھے اور ابھی بھی اس خاک کے ضمیر سے ایک مقامی آواز local voice کا پیدا ہونا باقی تھا جو خود اعتمادی کے ساتھ نہ صرف یہ کہ قوم کو صحیح رہنمائی فراہم کرے بلکہ ساتھ ہی اسلام اور روحانیت کے پیغام کو لوگوں کی اپنی زبان میں پیش کرے اور یہ پیغام نہ صرف ان کے لبوں پر آجائے بلکہ ہمیشہ کے لئے ان کے قلب و باطن اور اجتماعی لاشعور collective unconscious کا جزو لاینفک بن جائے۔ قریہ قریہ، بستی بستی اور گھر گھر یہ پیغامِ حق پہنچانے والی شخصیت اور کوئی نہیں بلکہ علمدار کشمیر شیخ نورالدین نورانی ؒ کی شخصیت ہے۔تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں شیخ العالمؒ نے زندگی میں تین بار پورے کشمیر کا سفر کیا۔
اس دور میں ضرورت اس بات کی تھی کہ قران و سنت پر مبنی اسلامی تعلیمات کو سماج کے ہر طبقے تک مقامی زبان local language یعنی کشمیری زبان میں اس طرح پہنچایا جائے کہ یہ پھر ان کی زبانوں سے کبھی نہ اتر پائے۔ یہ کارنامہ بحسن و خوبی انجام دیا شیخ العالم شیخ نورالدین نورانیؒ نے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کشمیر میں شاہ ہمدانؒ کے بعد جس شخصیت نے ان کے مشن کو آگے بڑھایا وہ کوئی اور نہیں بلکہ ان ہی کے فرزند ارجمند میر محمد ہمدانیؒ تھے اور میر محمد ہمدانیؒ نے پھر کشمیری ریشیت کے سب سے بڑے رہنما شیخ نورالدین نورانیؒ کی روحانی و فکری تربیت کرکے ان کی زندگی میں انقلاب برپا کردیا اور انہوں نے پھر اپنے دلکش کلام کے ذریعے یہ پیغامِ حق گھر گھر پہنچادیا۔
دینی و سیاسی حلقوں میں فارسی زبان کے غلبے کے دور میں آپ نے کشمیری زبان کو فروغ دیا اور تبلیغِ دین کے لئے کشمیری زبان کی اہمیت کو سمجھ کر اس کا انتخاب کیا جو عام لوگوں کی زبان تھی۔ چونکہ کشمیری ادبی میں لل دیدؒ کے بعد شیخ العالمؒ اس زبان کے سب سے بڑے شاعر بن کر ابھرے۔
تاریخ حسن میں ہے:’’ کہتے ہیں کہ حضرت شیخ العالمؒ نے ولادت کے وقت دودھ نہ پیا اور اس کی والدہ کو تشویش ہوئی ۔اسی وقت لل عارفہؒ پہنچی اور بچے کو گود میں لے کر اسے اپنا دودھ پلاتے ہوئے فرمایا:’’ (دنیا میں) آنے سے نہیں شرمائے اور دودھ پینے سے شرماتے ہو! اس کے بعد بچہ دودھ پینے لگا۔‘‘
گویا ایک طرف آپ فکری و روحانی معاملات میں میر محمد ہمدانیؒ کے وارث قرار پائے اور دوسری طرف شعر و سخن کا روحانی فیض آپ نے لل دیدؒ سے اخذ کیا ۔
تیرہویں اور چودھویں صدی عیسوی میںلوگوں کی ایک بڑی تعداد کے وسطی ایشیا سے کشمیر آنے سے ایک طرف تو تہذیب و تمدن، صنعت و حرفت اور علم و سخن کے میدانوں میں کافی ترقی دیکھنے کو ملی مگر ساتھ ہی اس سے مقامی تشخص local identity کے معدوم ہونے خطرہ بھی منڈلانے لگا۔ایسی صورتحال میں شیخ العالمؒ نے کشمیری قوم کو کشمیری روایات اور زبان کی بنیادوں پرمتحد کرکے احساسِ کمتری inferiority complexسے نکال کر اپنی خوابیدہ صلاحیتوں سے روشناس کروایا۔ اس طرح سے آپ نے حقیقی معنوں میں ‘علمداربن کر کشمیری تہذیب و ثقافت کو اوجِ ثریا تک پہنچادیا۔
شیخ نورالدین نورانیؒ کی ذات بابرکات سے کشمیر میں امن و آشتی اور عشق و محبت کی باد بہار چلی اور امن و امان اور روحانیت اور طمانیت کی ایک نئی فضا قائم ہوگئی۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک ‘الدّین النصیحۃ یعنی دین سراسر خیرخواہی ہے، پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ۔آپ نے دعوتِ دین کے لئے مثبت طرز عمل positive approach اختیار کیا۔ عارف اور حکیم ہونے کی حیثیت سے آپ کی ذات ہزاروں لوگوں کے لئے مرکزِ ثقل تھی اور آپ اسلامی تصوف کے سب سے بڑے داعی تھے۔
آپ رافت و محبت میں یقین رکھتے تھے اور محبت کل بھی فاتح عالم تھی اور اور آج بھی فاتح عالم ہے۔شیخ العالمؒ اس اسلامی نقطہ نظر کے داعی ہیں جس میں امن و سلامتی، اخوت و مساوات اور باہمی اشتراک ہے اس میں جبر و تشدد اور نفرت و عداوت کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ انسان تو انسان آپ جانوروں حتیٰ کہ پیڑ پودوں کو بھی مارنا اور نقصان پہنچانا پسند نہیں فرمایا کرتے تھے۔آپ نے قوم کو اخوت و انسان دوستی کی بنیادوں پر اس طرح متحد کردیا کہ مسلمان ایک طرف آپ کو شیخ العالمؒ، علمدار کشمیرؒ، شمس العارفین اور پیرِ کامل جیسے گرانقدر القاب سے یاد کرتے ہیں تو دوسری طرف کشمیری پنڈت احسان کے درجے پر فائز ہونے کی وجہ سے آپ کو ‘سہز آننداور نند ریشی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
چونکہ آپ فرماتے ہیں:(ترجمہ(: ’’ایک ہی ماں باپ سے پیدا ہونے والے بچوں(یعنی ہندوؤں اور مسلمانوں) میں کیوں بھید بھاو کرتے ہو۔ اے کاش! خدا سے بندوں کو یہ توفیق عطا ہو کہ وہ ایک دوسرے کے خیرخواہ بن جائیں۔‘‘ شیخ العالمؒ چاہتے ہیں کہ دنیا میں صرف انسان دوستی کا بیج بویا جائے اور باہمی ہمدردی و رواداری سے اس کھیت کی آبیاری کی جائے۔دوسرے مقام پر فرماتے ہیں کہ’’ اس انسان کا دنیا میں آنا کس کام کا، جو دودھ کو چھوڑ کر پانی کے پیچھے پڑ جائے۔ دنیا میں آنا صرف اس شخص کے لئے سود مند ہے جو اپنی بھلائی کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھلائی کے لئے بھی برابر کوشاں رہے اور حقیقت میں صرف ایسے لوگوں کا ہی بیڑہ پار ہے۔‘‘
بدقسمتی سے شیخ العالمؒ کی حیات کے بارے میں عصری تاریخی مواد دستیاب نہیں ہے، ان کی وفات کے بعد تحریر کردہ تذکرے یا ریشی نامے ہمیں صرف مبہم واقعات فراہم کرتے ہیں اور آج بھی ہمارے پاس ان کی کوئی مستند سوانح عمری نہیں ہے۔ کچھ مصنفین نے تحقیقی انداز میں حقائق پر پڑی ہوئی دھند ہٹانے کی کوشش ضرور کی ہے مگر انہیں بھی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے۔ ترجمے کے ساتھ کلام شیخ العالمؒ کے کئی مجموعے شائع ہوچکے ہیں مگر ان میں زیادہ تر شیخ العالمؒ کو ایک من پسند نظریاتی سانچے میں فِٹ کرنے کی کاوشیں کی گئی ہیں۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ تحقیقی بنیادوں پر حضرت شیخ العالمؒ کی حیات اور کلام پر کام کیا جائے تاکہ ہم اس سے استفادہ کرکے صحیح معنوں میں رہنمائی حاصل کرسکیں۔
[email protected]