معاشرہ
شگفتہ حسن
عورت کو تعلیم دلانا پورے خاندان کو تعلیم دلانے کے برابر ہے، کیونکہ ماں کی گود ہی بچے کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے، جہاں سے وہ بنیادی علوم سیکھنا شروع کرتا ہے۔ گویا کہ بچے کی بہترین تربیت کے لیے ماں كا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر ہم ایمان داری سے سوچیں گے تو اس کی حیثیت تو کہیں زیادہ ہے کیونکہ عورت ایک بیٹی، ایک بہن، ایک ماں، ایک بیوی جیسے عظیم الشان رشتوں کے حقوق کی تکمیل ہے، گھر کی ملکہ کے ساتھ ساتھ اس کے قدموں تلے جنت کی بشارت ہے۔ اس پر نسل کی تربیت کی ذمہ داری ہے، اس کے رہن سہن، قوم کی ترقی، گھر کی ذمہ داریوں کو اچھی طرح سے نبھانے پر ہی آئندہ نسل کی فلاح منحصر ہوتی ہے۔ یہی عورت اگر تعلیم سے محروم ہوگئی تو اپنی نسل اور اپنی اولاد کی تربیت کیسے کرے گی، کیسے اپنی آنے والی نسل کو ترقی کی راہیں دکھائے گی۔ مائیں قومیں بناتی ہیں اور ماؤں کو تعلیم سے دور رکھ کر آپ کس قسم کی نسلوں اور قوموں کی امید رکھیں گے۔ اس ذیل میں فرانس کے مشہور بادشاہ نپولین بونا پارٹ کا مشہور قول ہے:
‘Napoleon Bonaparte said, ” Give me an educated mother, I shall promise you the birth of a civilized, educated nation
“یعنی’’آپ مجھے تعلیم یافتہ مائیں دیں، میں آپ کو بہترین معاشرہ دوں گا‘‘۔علامہ اقبال کے فارسی شعر کا مفہوم ہے: ’’قوموں کو کیا پیش آچکا ہے؟ کیا پیش آسکتا ہے؟ اور کیا پیش آنے والا ہے، یہ سب ماؤں کی جبینوں سے دیکھا جاسکتا ہے‘‘۔ عورت جب تعلیم یافتہ ہوگی تبھی اپنے بچوں کی صحیح تربیت کر سکے گی۔ تعلیم کا یہ مقام ہے کہ جس گھر میں عورت تعلیم یافتہ ہوتی ہے، اس گھر کو یونیورسٹی کہا جاتا ہے اور تعلیم یافتہ و نیک ماں کو بھی یونیورسٹی کہا گیا ہے کیونکہ یہ دیکھا بھی گیا ہے اور دیکھا بھی جارہا ہے کہ ایک مرد تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھلے ہی وہ اپنے آپ تک محدود رکھے، لیکن ایک عورت اگر تعلیم یافتہ ہے تو وہ بھوکی رہ کر بھی اپنے بچوں کو پڑھا رہی ہے ۔اسی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ ایک مرد نے پڑھا تو فقط ایک مرد نے ہی پڑھا، لیکن ایک عورت نے پڑھا تو ایک خاندان نے پڑھا۔ اس لئے کہ وہ فاقہ کشی کا سامنا کریگی مگر اپنی اولاد کو تعلیم ضرور دلائے گی اور تعلیم حاصل کرنے والوں کا مقام ہمیشہ سے بلند رہا ہے، کیونکہ قدم قدم پر تعلیم کی ضرورت ہے یہاں تک کہ اولاد کی تربیت میں بھی اور پیدائش سے لے کر موت تک کے مراحل میں بھی تعلیم کی ضرورت ہے۔ اگر عورتوں کے لئے تعلیم حاصل کرنے میں تہذیبی یا مذہبی تحدید ہوتی تو حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پاس احادیث کا ذخیرہ موجود نہیں ہوتا۔ اسلام نے عورت کو تعلیم حاصل کرنے کا نہ صرف حق دیا ہے بلکہ ان پر فرض کیا ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو اسلام کے دور ِاول ہی میں ایسی جلیل القدر عالمات نہ ہوتیں۔ ہم حضرت عائشہ صدیقہؓ کو ہی دیکھیں کہ بڑے بڑے اہل علم اور کبار صحابہ کرام تک قرآن و حدیث کے مسائل کی جان کاری آپ ؓسے حاصل کرتے تھے۔ آپ انہیں مسائل بتاتی تھیں۔ ان کے علاوہ حضرت عمرہ بنت عبد الرحمن انصاریہؓ، حضرت ام سلمہؓ، حضرت ام درمانؓ ، حضرت فاطمہ بنت قیسؓ، حضرت زینبؓ، حضرت صفیہؓ، سیدہ نفیسہؓ، حضرت خدیجہ الکبریٰ ؓ، حضرت خنساء بنت عمروؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے نام قابل ذکر ہیں۔
عورت کی تعلیم و تربیت اور بہتر مستقبل بنانے کے لئے حقوق نسواں اور تعلیم نسواں پر واقعی بیداری کی ضرورت ہے۔ تعلیم نسواں کے مخالفوں کو سمجھنا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایمان و عمل کے مطابق اجر و ثواب اور فضیلت میں عورت مرد کی طرح ہے اور دونوں عبادت، اخلاق و شریعت کے پابند ہیں۔ جو تعلیم کے بغیر ممکن نہیں۔ انہیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ دینی احکام دونوں پر واجب ہیں اور روزِ آخرت مردوں کی طرح عورتیں بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ کیا یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ نہیں ہے کہ عورتیں بھی انسان ہیں ،وہ بھی تعلیم کی محتاج ہیں۔ تعلیم کے بغیر نہ تو یہ اپنے حقوق کی حفاظت کرسکتی ہیں اور نہ ہی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرسکتی ہیں جو کہ اسلام نے ان پر عائد کی ہیں۔ اس لیے مرد کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تعلیم بھی نہایت ضروری ہے۔ صحیح طریقے سے عبادت کرنے کے لئے بھی عورت کو تعلیم کی ضرورت ہے۔ صحیح طریقے سے قرآن کو سمجھنے کے لئے بھی عورت کو تعلیم کی ضرورت ہے۔ قرآن و سنت سے نصیحت حاصل کے لئے بھی عورت کو تعلیم کی ضرورت ہے۔ دین اسلام کا صحیح مفہوم جاننے کے لئے بھی عورت کو تعلیم کی ضرورت ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو سمجھنے کے لئے بھی عورت کو تعلیم کی ضرورت ہے۔ معاشرے کی ترقی کے لئے بھی عورت کو تعلیم کی ضرورت ہے۔ آنے والی نسل کی اچھی تربیت کے لئے بھی عورت کو تعلیم کی ضرورت ہے۔ پڑوسیوں کے حقوق جاننے کے لئے بھی عورت کو تعلیم کی ضرورت ہے۔ والدین کا مقام و مرتبہ جاننے کے لئے بھی عورت کو تعلیم کی ضرورت ہے۔ صحیح و غلط کی پہچان کرنے کے لئے بھی عورت کو تعلیم ضروری ہے۔ اولاد کی تربیت کے لئے بھی عورت کو تعلیم کی ضرورت ہے۔ غربت کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے لئے بھی عورت کو تعلیم کی ضرورت ہے۔ لہٰذا تعلیم نسواں کے مخالفوں کو چاہئے کہ لڑکیوں کو دینی و عصری تعلیم سے مزین کریں۔ انہیں دینی و عصری تعلیم دلا کر با عزت، با حوصلہ اور با اعتماد بنائیں تاکہ وہ اپنے خدا کو پہچان سکے، مذہبی و دینی تعلیمات و وسائل سے آگاہ ہو سکے، اللہ کی کتاب کا مطالعہ کر سکے، اپنا داعیانہ کام انجام دے سکے، اپنی نسل کی بہترین تربیت کر کے قوموں کی تقدیر بدل سکے، اپنے حق کا مطالبہ کر سکے، اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف اٹھ سکے، اپنی ذمہ داریوں کو بہتر طریقے سے نبھا سکے،اپنی قوم کی خدمت کر سکے اور سماجی ظلموں کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکے۔
[email protected]
تعلیم نسواں۔کامیاب معاشرے کی ضامن
