مشتاق احمد تعظیم کشمیری
میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے لباس ہوتے ہیں،جس کی قدرو قیمت ہر ذی ہوش اور علم والے بخوبی جانتے ہیںاور اس لباس کو سنوارنے اور سجانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہتے ہیں، اور اس کا تقدس سمجھ کر اسے احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ لباس ہر بالغ لڑکے اور لڑکی کو پہننا پڑتا ہے اور جوکہ لازم ملزوم بھی ہے۔اس لئے اس لباس کی کو سمجھنے اور اس کا بہترین طریقے پر استعمال کرنے کے لئے شریعت نے ہمیں ہر چیز سے واقف کرکے رکھا ہے ۔اسلام نے زندگی گذارنے ہر وہ موثر طریقہ دکھایا ہے جس میں انسان کی فلاح و بہبودی ہے۔اسی لئےنیک بیوی اپنے خاوند کا ہر حکم بجا لاتی ہے اوراُس کی ہر بات پر لبیک کہتی ہےاور اپنے گھر کو سورگ بناکرزندگی اطمینان و سکون سے گذارتی ہے۔چنانچہ اسلام نے مسلم عورت پر یہ بات نافذ کردی ہے کہ بیوی کے روپ میںوہ اپنے خاوند کے ہر حکم کی تعمیل کرے، اُس کی باتوں پر عمل کرے،کسی بات پر بلا جوازضد پر اَڑنہ جائے۔اس لئے والدین کی یہ ذمہ داری ہےکہ وہ اپنی بچیوں کی اِن سب باتوں کی تاکیدی تربیت دیں،تاکہ اُن کی ازدواجی زندگی پُر سکون ماحول میں گذر جائے۔ بیوی پر لازم ہے کہ وہ اپنی ہر بات منوانے کے لئے اپنے خاوندسے ضد نہ کرے،بلکہ اُس کی ہر جائز بات مان کراُسے خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرے۔ اسی میں اُس کی عزت اور گھر میں برکت رہتی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ اس لئے ضرری سمجھتا ہو ں کہ آج کل میاں بیوی کے درمیان ازدواجی زندگی کے تعلقات میں جو صورت حال سامنے آتی ہے،اُس میں ناحق اُلجھنیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ظاہر ہے کہ میاں بیوی کے درمیان باہمی ناز وانداز کا ایک الگ تعلق ہوتا ہے،جس پر ضد ی بن کے رہنا بعض اوقات نزوع کا معاملہ بن جاتا ہے۔بے شک اکثر لڑکیاں شادی سے قبل اکثر چھوٹی چھوٹی باتوں پر ضد کرنے لگ جاتی ہیں،مگر شادی کے بعد اُن کی یہ ضد میاں بیوی کے درمیان تنازعہ کا باعث بن جاتی ہیںاور زندگی کے ناسو بن جاتی ہے،اس لئے ایک شادی شدہ عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنے خاوند کے ساتھ ہٹ دھرمی نہ دکھائیں بلکہ ہر معاملے میں تحمل دکھائیں، جب وہ خاوند اُس کی طرف دیکھے تومسکاکر کا اُس کا دل خوش کریں۔اپنے گھر میں صاف و شفاف کپڑے اور خوشبو لگاکر شوہر کے سامنے آئے۔ہمارے یہاں اکثر یہی دیکھا جارہا ہے کہ جب عورت گھر سے باہر ،بازار ،یا کسی دعوت میں جاتی ہے تو خوب بَن سنور کر جاتی ہے اور اپنے گھر میں میلی کچلی بن کر رہتی ہے۔ شریعت نے اس کو ناپسند کرتا ہے ۔عورت کی ذمہ داری ہے کہ جب خاوند گھر میں نہ ہو تو وہ اس کے مال اور اپنی آبرو کی حفاظت کرے، اور شوہر کے بغیر اس کا کوئی سامان کسی کو نہ دے۔ بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے خاوند کی اطاعت کریں اور اس کا خاص خیال رکھیں اور اُس سے ایسےچیزوں کا مطالبہ نہ کریں جو کہ اس کے بس میں نہ ہو، اور یہ بھی ذہن نشین کرلے کہ اپنے شوہر کی غیبت نہ کرے اور دوسری عورتوں کے سامنے اس کے کسی عیب کو ظاہر نہ کرے، جس میں شوہر کی ناشکری ہوگی، جو عظیم گناہ ہے۔ شوہر کی تمنا ہوتی ہے کہ بیوی اس کے گھر میں رہے، ایسا نہ ہو کہ ہر دوسرے تیسرے دن میکے جارہی ہو یا جب وہاں جائے تو طویل وقت گذارے، بیوی کو شوہر کے منشاء کے مطابق چلنا چاہیے ۔اگر والدین سے ملاقات مقصود ہے تو کبھی کبھی وہ ان سے ملاقات کےلیے ضرورجائے۔ بیوی چونکہ شریک حیات کہلاتی ہے، اس لئے ضروری ہے کہ شوہر کے تمام امور کی حفاظت کر ے۔ جو باتیں شوہر کو پسند نہ ہو ،اُس کا اظہار نہ کرے،اسی طرح اپنے شوہر کے گھر والوں کی باتیں اپنے میکے والوں کو نہ بتائیں، بلکہ ان کےراز کو راز ہی رہنے دیں، اگر راز کی حفاظت نہیں کرے گی تو نہ صرف اپنے شوہر کی مجرم ہوگی بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی مجرم ہوگی۔یاد رکھئے،نیک بیوی اور اس کا شوہر ایک دوسرے کے حقوق کا پابند رہے اور دونوں دُکھ درد، راحت و آرام ، خوشی آپس میں تقسیم بانٹ کر ہی زندگی کی تمام دشوار گذار مراحل طے کرلیتے ہیں ۔
[email protected]