بِچُھو افسانہ

رحیم رہبر
کشمیری سے ترجمہ ،نیلوفر ناز نحوی
اُس سبزہ زار میں ہر ہفتے کسی نہ کسی نوجوان کی بے کفن لاش ہوتی تھی۔کشمیری سے مہدہ اس سبزاہ زار سے دس کلو میٹر کی دوری پر رہتا تھامگر سادہ لوح انسان ہونے کے ناطے اسکے من میں یہ بات گھر کر گئی تھی کہ ان نوجوانوں کو سبزے کے اندر سے بچھو کاٹتا ہے اور یہ نوجوان بنا بیماری کے مر جاتے ہیں۔

بچھو صرف جوانوں کے پیچھے پڑا ہے۔آج انکی کل میری باری ہوگی۔بچھو مجھ سے دوستی کرکے مجھے سبزہ زار میں پہنچائے گا۔پھر میرا حشر بھی وہی ہوگا جو اُن نوجوانوں کا ہوا۔

مہدہ کے دل میں جانے کون کون سے خیالات نے جنم لیا ۔بچھو کے خوف سے اس کا ریشہ ریشہ پسینہ سے شرابور ہو رہا تھا۔مہدہ کو یقین کامل تھا کہ بچھو بے خبری میں ڈنک مارتا ہے ۔پھر بنی آدم کا سارا تن بدن نیلا پڑ جاتا ہے اور پھر تڑپ تڑپ کر اپنی جان دیتا ہے۔
مہدہ اب ہر کسی شخص سے یہی سوال کرتا تھا۔’’بچھو کیسا ہوتا ہے۔؟‘‘مہدہ کا سوال سُن کر کچھ لوگ طنزیہ ہنسی ہنستے تھے اور کچھ لوگ سنجیدگی کے ساتھ جواب دیتے تھے۔آباد خانوادے کا اکلوتا وارث ہونے کے باوجود بھی بچھو کے خوف نے اسکی راتوں کی نیندیں اُڑائی تھیں۔اب مہدہ کو ہر انسانی چہرے پر بچھو نظر آتا تھا۔سر پر خوفناک سینگ لیکر،رینگتے ہوئے ،جونک کی چال چلتے ہوئے،آہستہ آہستہ آرہا ہے۔

مہدہ بچھو کے خوف سے بار بار اپنے کپڑے جھاڑتا تھا۔وہ اس وقت زیادہ باولا ہو جاتا تھا جب کسی نوجوان کا جنازہ اٹھتے دیکھتا تھا۔سیاہ رات جونہی مہدہ کے برآمدے میں اپنا ڈھیرہ ڈالتی تھی۔اسکے سارے جسم میں تھرتھراہٹ نمودار ہوتی تھی اور پیمانے کی طرح سارے بدن میں سرسراہٹ ہوتی۔
مہدہ کی حرکات و سکنات دیکھ اسکا باپ خوجہ رسول سخت پشیمان اور بے چین ہو گیا۔اس نے اپنی زوجہ عذی کے ساتھ مشورہ کیا کہ مہدہ کو ناتھ حکیم کے پاس لے جائیں گے۔ناتھ حکیم اس سارے علاقے میں اپنی حکمت میں نامدار تھا۔کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ ناتھ حکیم کے پاس دست شفا ہے اور کچھ اسے نبض شناس کہتے تھے۔وہ نبض پر ہاتھ رکھتے ہی بیمار کے داخلی معاملات بیان کرتا تھا۔

دوسرے دن صبح سویرے دونوں میاں بیوی اپنے اکلوتے کو لیکر گاڑی میں ناتھ حکیم کے کلنک پر چلے گئے۔آدھے گھنٹے کا سفر طے کرکے تینوں ناتھ حکیم کے کلینک پر پہنچ گئے۔اس وقت دن کے بارہ بج رہے تھے۔مریض اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔خوجہ رسول نے فیس جمع کی اور مہدہ کو لیکر باہر صحن میں دیور کنی(ایک قسم کا خاص پتھر جو صرف کشمیر میں ملتا ہے اور اسکو الگ الگ سائز اور موٹائی میں بنایا جاتا ہے۔)کے بنچ پر بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگے۔

کچھ دیر بعد مہدہ ایکدم سے اُٹھ گیا اور سہما ہوا مریضوں کے بیچ میں چلا گیااور ایک خوبصورت جوان لڑکی کا شلوار ٹخنوں سے اوپر اٹھایا۔
’’you non scenes‘‘
’’پاگل ،دیوانہ‘‘جوان لڑکی نے غصہ سے مہدہ سے کہا۔
’’میں ۔۔۔دیکھ رہا ہوں ۔۔۔تمہاری ٹانگ پربچھو کا ڈنک کہاں ہے؟‘‘مہدہ نے سنجیدگی کے ساتھ جواب دیا۔
’’ڈنک؟؟‘‘جوان لڑکی نے حیرانی سے پوچھا۔

’’ہاں ہاں ڈنک۔۔وہ بے خبری میں ڈنک مارتا ہے ۔۔۔اس کو جوانوں سے نفرت ہے۔وہ پہلے یارانہ دکھاتا ہے ۔پھر جب انسان اسکو اپنا سمجھ کر ،بے خوف ہوکر،سُستانے لگتا ہے تو وہ بھورا بچھو اسے ڈنک مارتا ہے اور خود چھپ جاتا ہے۔‘‘
خوبصورت بیمار لڑکی مہدہ کا سٹیٹ منٹ سُن کر حیران ہوگئی۔
’’بچھو کیسا ہوتا ہے؟‘‘اس نے ساتھ بیٹھے جوان سے پوچھا۔وہ اسکا ساتھی ہوتا،یا بھائی،یا رشتہ دار یا اسکا بوائے فرنڈ،یا۔۔۔یا ۔۔ہوتا،خیر چھوڑو۔
’’وہ جونک کی طرح کا ایک دو سینگ والا بھورا کیڑا ہوتا ہے‘‘جوان نے لڑکی کو جواب دیا۔

اسی لمحے نسخوں میں مہدہ کا نام آگیا۔خوجہ رسول اور عذی نے اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑا اور حکیم کے پاس پہنچ گئے۔
’’کیا بات ہے؟‘‘حکیم نے خوجہ رسول سے پوچھا۔
’’حکیم صاحب ،ہمیں ہمارا بیٹا واپس کردیں۔اسکے گلے میں بچھو پڑ گیا ہے۔اس کو ہر انسانی چہرے پر بچھو نظر آتا ہے۔پھر اس کو دورے پڑتے ہیں،تھرتھراتاہے اور یہاں تک کہ اس پر غشی طاری ہو جاتی ہے۔‘‘عذی نے خون کے آنسو بہاتے ہوئے حکیم صاحب سے کہا۔
حکیم نے مہدہ کے نبض پر ہاتھا رکھا۔نبض دیکھتے ہی اسنے خوجہ رسول سے کہا۔

’’اس کو کوئی بیماری نہیں ہے۔اسکو وہم کے مرض نے جکڑ لیا ہے۔اس بیماری کا ایک ہی علاج ہے۔آپ لوگ اسکی شادی کردو۔باقی سب ٹھیک ہو جائے گا۔’’جاو،بھگوان کے حوالے‘‘تینوں لوگ خوشی خوشیحکیم کے یہاں سے باہر آئے۔
خوجہ رسول راستے گاڑی بھر چلا رہا تھا لیکن اندر ہی اندر کھوج رہا تھا۔بہر حال گھر پہنچ کر اسکو خیال آیا کہ اسکے دوست احد میر کی ایک حور جیسی بیٹی ہے۔خوجہ رسول نے اپنی سالی جگری کو احد میر کے گھر بیٹی کا ہاتھ مانگنے کے لئے بھیجا۔

’’میرے یار ،روسل خوجہ کا کیا کہنا،بھرا پُرا گھر،کسی چیز کی کمی نہیں۔مگر پھر بھی ہم مشورہ کر لیں گے۔ہفتے بھر کے بعد جواب دیں گے۔‘‘
احد میر نے جگری سے کہا۔
جگری ناز نخروں کے ساتھ بہنوئی کے گھر آئی ۔جواب سُن کر سب خوش ہو گئے۔ہفتے کے بعد جگری وہاں سے اقرار کی خوش خبری لیکر آئی۔مہینے میں ہی روسل خوجہ نے شادی کی مکمل تیاریاں کیں۔بہو رانی لچکتے مٹکتے سسرال پہنچ گئی۔سارے رشتہ دار جمع تھے۔
پہلی ہی رات نماز شکرانہ سے فارغ ہوکر مہدہ نے اپنی دلہن سے پوچھا۔’’بچھو کیسا ہوتا ہے۔؟‘‘

دلہن نے جلدی جلدی کاغذ کے ورقے پر بچھو کی تصویر بنائی۔۔مہدہ نے جب بچھو کی صورت دیکھی اسکے سارے بدن پر کپکپی طاری ہوگئی۔اچانک اسکے منہ سے ایک چیخ نکل گئی اور بیڈ سے نیچے گر گیا۔تھرتھراتے، مہندی سے رنگے ہاتھوں سے دلہن نے جلدی جلدی اندر سے کُنڈی کھول دی۔مہدہ کا جسم نیلا پڑ چکا تھا۔
٭٭٭
موبائل نمبر؛09906570372