محمد اشرف بن سلام
کائنات ہست وبود میں خدا تعالیٰ نے بے حدو حساب عنایات واحسانات فرمائے ہیں۔ انسان پر لاتعداد انعامات و مہربانیاں فرمائی ہیں اور اسی طرح ہمیشہ فرماتا رہے گا کیونکہ وہ رحیم وکریم ہے۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہزاروں نعمتیں دیں لیکن کبھی کسی پر احسان نہیں جتلایا، اس ذات رو ٔف الرحیم نے ہمیں پوری کائنات میں شرف و بزرگی کا تاج پہنایا اور احسنِ تقویم کے سانچے میں ڈھال کر رشکِ ملائک بنایا ہمیں ماں باپ، بہن بھائی اور بچوں جیسی نعمتوں سے نوازا۔ غرضیکہ ہزاروں ایسی عنایات جو ہمارے تصور سے ماورا ہیں اس نے ہمیں عطا فرمائیں لیکن بطور خاص کسی نعمت اور احسان کا ذکر نہیں کیا اس لئے کہ وہ تو اتنا سخی ہے کہ اسے کوئی مانے یا نہ مانے وہ سب کو اپنے کرم سے نوازتا ہے اور کسی پر اپنے احسان کو نہیں جتلاتا۔لیکن ایک نعمت عظمیٰ ایسی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے جب حریم کبریائی سے اسے بنی نوع انسان کی طرف بھیجا اور امت مسلمہ کو اس نعمت سے سرفراز کیاتواس پر احسان جتلاتے ہوئے فرمایا۔
’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہیں میں سے عظمت والا رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘(سورة آل عمران 3 : 164)
چھٹی صدی عیسوی میں دنیا کی زبردست دوطاقتیںتھیں رومن امپائر مغرب میں اور مشرق میں پرشین امپائر تھیں دونوں میں زر و دولت اور تمدن عرو ج پر تھا ۔لیکن اخلاقی حالت ناگفتہ بہ اور روح وقلب میں ہر قسم کی بیماریاں پھیلی ہوئی تھیں اور انسان کا رشتہ اپنے خالق سے بالکل ٹوٹا ہوا تھا ، انسان موجود تھا لیکن شعور نہیں تھا ۔اور یہی حال کم وبیش ساری دنیا کا تھا۔اس دور میں ملک عرب کا نمبر خاص تھا۔ شاعری کے آرٹ میں یہ قوم یقیناً طاق اور تجارت میں بھی ممتاز ہونے کے ساتھ ساتھ بہادری و سپہ گری بھی تھی لیکن لوٹ مار ، بے حیائی ، شراب نوشی اور جوئے بازی عام تھی۔ انتقام در انتقام کاایسا سلسلہ تھا کہ اس میںپشتیں گذرتی تھیں لیکن جھگڑا چکائے نہیں چکتا ۔ اسی ملک عرب کا مشہور اور مقدس شہر مکہ تھا جس میں رحمت الٰہی کے منشا کے مطابق۱۲؍ربیع الاول۵۷۰عیسوی کی مبارک صبح کوحضرت احمد مجتبیٰ محمدمصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے نورانی قدم سے اس ظلمت کدۂ عالم کو منور فرمایا۔ تو تاریکیوں اور گہرے اندھیروں میں اُجالا پھیل گیا۔ خاتم النبیینؐ نے اپنی عظیم الشان اصلاحات کا سنگ بنیاد عقیدہ ٔتوحید پر رکھا۔ آپؐ نے بندہ اور اس کے خالق کے درمیان براہ راست رابطہ قائم کر دیا اور درمیانی واسطوں کو مٹایا۔
میلاد شریف کو موجودہ شکل میں منانے کا آغاز ساتویں صدی ہجری کے اوائل میں اِربل کے حکمران سلطان صلاح الدین ابوبیؒ کے بہنوئی سلطان مظفر کے دور میں ہوا۔ جن کا شمار عظیم سلاطین اور فیاض رہنماؤں میں ہوتا ہے اور بہت سے کارناموں کا سہرا اُن کے سر ہے ۔ انکی یادگاروں میں جامع مظفری سر فہرست ہے جس کی تعمیر قاسیون کے قریب ان کے ہاتھوں عمل میں آئی۔ابن کثیرؒ سلطان مظفر کے بارے میں بیان کرتا ہےکہ سلطان مظفر کا معمول تھا کہ وہ میلادنبیؐ کا اہتمام بڑے تزک وا حتشام سے کرتا اور اس سلسلے میں وہ شاندار جشن کا انتظام کرتا تھا۔ سبط ابن الجوزی نے اپنی کتاب’’مراةالزمان‘‘میں لکھا ہے کہ سلطان مظفر کی منعقد کی گئی محفل میلاد میں جہاں عام لوگوں میں خیرات بانٹتا ،وہیں عالی مرتبہ علمائے کرام اور صوفیاءکومدعو کیا جاتا اور انہیں شاہی خلعتوں اور دیگر انعام واکرام سے نوازا جاتا۔ لیکن اب ہمارے یہاں ایک افسوسناک اورقابل اصلاح پہلو یہ بھی ہے کہ میلاد النبیؐ کا عقیدہ رکھنے والے اور جشن میلاد کے جلوس کااہتمام کرنے والے ایک تو رسول رحمتؐ سے اپنی محبت وعقیدت کا مظاہرہ تو کرتے ہیںمگر میلاد کی خوشیوں کو جزوایمان کو برقرار رکھنا بھول جاتے ہیں۔میلاد النبی ؐ پر خوشیاں منانا ،جشن کرنا اپنی جگہ درست اور حق ہے مگر اس کے تقاضوں کوبھی بہرحال مدنظر رکھنا انتہائی اہم ہے۔کاش ان عقیدت مندوں کو رسول رحمتؐ کی بارگاہ کی تعظیم کابھی کماحقہ علم ہوتا۔فی زمانہ بعض مقامات پر جاہل اور مقام وتعظیم رسالت سے بے خبر لوگ جشن میلاد کو گونا گوں منکرات،بدعات اور محرمات سے ملوث کرکے بہت بڑی نادانی اور بے ادبی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ جلوس میلاد میں ڈھول ،نوجوانوں کے رقص وسرود اور اختلاط مرد وزن جیسے حرام اور ناجائزامور انجام دیے جاتے ہیں ،یہ سب انتہائی قابل افسوس اور قابل مذمت ہے ۔اگر ان لوگوں کو ان محرمات اور خلاف ادب کاموں سے روکا جاتا ہے تو وہ منع کرنے والے کو میلادالنبیؐ کا منکر ٹھہرا کر ان قابلِ اصلاح امور کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے ۔ان نام نہاد عقیدت مندوں کو سختی سے سمجھانے کی ضرورت ہے ،ورنہ کچھ عرصہ بعد جشن میلاد النبیؐ ان ادب ناشناس جہلاءکی اسلام سوز رسوم ورواج کا گہوارہ بن جائے گا۔جب تک ان محافل ومجالس کو کما حقہ تقدس اور میلاد کو ادب وتعظیم رسولؐ کے سانچے میں نہیں ڈھال لیا جاتا اور ایسی تقاریب سے ان تمام محرمات کا خاتمہ نہیں کردیا جاتا ،اس وقت تک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی رضا ہمارے شامل حال نہیں ہو سکتی ۔ ایسی محافل میں جہاں بارگاہ رسالتؐ کے ادب سے پہلو تہی ہورہی ہو ،نہ صرف یہ رحمت خداوندی اور اس کے فرشتوں کا نزول نہیں ہوتا ،بلکہ اہل محفل ومنتظمین جلوس خدا کے غضب اور حضورؐ کی ناراضگی کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔
حضرت عبدالحق محدث دہلوی ؒ نے ایک بہت ہی فکر انگیز اور بصیرت افروز بات تحریر فرمائی ہے جو اہل محبت کے لئے نہایت ہی لذت بخش ہے، وہ لکھتے ہیں کہ اس جگہ میلاد کرنے والوں کے لئے ایک سند ہے کہ یہ رسول رحمتؐکی شب ولادت میں خوشی مناتے ہیں اور اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔مطلب یہ ہے کہ جب ابو لہب کو جو کافر تھااور اس کی مذمت میں قرآن نازل ہوا، امام الانبیاؐ کی ولادت پر خوشی منانے،اور باندی کا دودھ خرچ کرنے پرجزا دی گئی تو اس مسلمان کا کیا حال ہو گا جو رسول اللہؐ کی محبت میں سرشار ہو کر خوشی مناتا ہے اور اپنا مال خرچ کرتا ہے۔
جب یہ رہبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہوئے توآپؐنے دنیا کے ہاتھ میں ایک مکمل ہدایت اور جامع و مفصل دستور العمل قرآن کریم کی صورت میںعطا کیا۔ آپ ان سب کی مشق سالہا سال تک اپنے سامنے کرا کر گئے اور اپنے پیچھے اپنے شاگردوں کی ایک کثیر جماعت صالحین چھوڑی اور دس لاکھ مربع میل پر آپؐ نے اپنی عادلانہ حکومت کا نقش قائم کر دیا۔ رسول رحمتؐ نے چودہ سو سال پہلے جو کچھ فرمایا آج ہم وہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں مثلاً جب قاتل کو یہ علم نہ ہوگا کہ میں نے کیوں قتل کیا اور مقتول کو یہ علم نہ ہوگا کہ مجھے کیوں قتل کیاگیا۔ جب کام نا اہلوں کے سپرد کر دیئے جائیں گے۔فاسق و فاجر لوگ قوم کے سردار بنیں گے، آدمی کے شر کے خوف سے اس کی عزت کی جائے، مسلمانوں پر قافیہ حیات تنگ ہوگا، دُنیا میں اہل ایمان کا جینا دوبھر ہوگا۔ یہ سب آج کے دور کی ٹھوس حقیقتیں ہیں۔
آخر پر میں تمام علماءکرام سے گذارش کرتا ہوںکہ خدارا اس تقدس اور تعظیم رسالت ؐ کو اپنے تمام تر مالی ،مسلکی اور دنیوی مفادات سے بلند تر سمجھتے ہوئے اپنے کردار کو درست اور ان خرافات کو ختم کرکے جلسوں اور جلوسوں کا ماحول ہر قسم کے خرافات اور غیر شرعی امور سے پاک رہے۔ کیونکہ اس پُرفتن دور میں بدعت کے اندر پڑنا نہایت آسان اور سنت پر چلنا انتہائی مشکل ہے ، ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ سرور دوعالمؐ کے صدقہ میں ہم سب کی مغفرت فرما ۔بیماروں کو شفادے اور ہماری ہر نیک آرزو کو پورا فرمادے اور کشمیر کو ہر مصیبت سے آزاد ہو اور دنیا کے نقشہ پر ایک پُرامن ریاستوں میں شمار ہو۔آمین
اوم پورہ بڈگام 9419500008