عبدالغنی شیخ لداخی لداخ کے چاند نگر میں اُردو کا روشن مینار

سبزار احمد بٹ

آج تک اردو دنیا میں جتنے بھی ادیب قلمکار، تواریخ دان، افسانہ نگار اور ناول نگار پیدا ہوئے ہیں ان میں عبدالغنی شیخ لداخی کا نام سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔عبدالغنی شیخ 5 مارچ 1936 میں لیہہ(لداخ) میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ لداخ ایک دوردراز علاقہ ہے جو 2019 تک جموں وکشمیر کا حصہ ہوا کرتا تھا اور اب ایک الگ مرکزی زیر انتظام خطہ ہے ۔یہ ایک الگ تھلگ علاقہ ہے جو سال کے تقریباً چھے مہینے باقی ملک سے کٹ کے رہتا ہے ۔لداخ کی اپنی ایک تہذیب، تاریخ، ثقافت اور پہچان ہے ۔لداخ کے اس سپوت عبدالغنی شیخ کو لکھنے پڑھنے کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ ان کی پہلی تحریر ماہنامہ “پیامِ تعلیم ” میں چھپ گئی ۔ادبی شغف کے علاوہ اداکاری اور کھیل کود میں بھی کافی دلچسپی رکھتے تھے ۔موصوف کو کہانیاں لکھنا بھی اچھا لگتا تھا ۔طالب علمی کے زمانے میں ہی “لوسر اور آنسو ‘ آرزوئیں ‘ اور نوری” جیسی کہانیاں لکھیں ۔عبدالغنی شیخ نے کچھ عرصہ ریڈیو اور ٹی وی پر بھی پروگرام پیش کئے۔ عبدالغنی شیخ نے لداخ کی تاریخ کو محفوظ کرنے میں اپنا اہم کردار نبھایا ہے ۔ لداخ کی تاریخ اور تجارتی اہمیت پر بات کرتے ہوئے عبدالغنی شیخ رقمطراز ہیں کہ ” نہر سویز کے لیے پورٹ جعید جتنی اہمیت رکھتا ہے اتنی اہمیت لیہہ بھی وسط ایشیا کی تجارتی راستوں کے لیے رکھتا ہے “۔ عبدالغنی شیخ کا مزید ماننا ہے کہ تجارتی تبادلوں سے لداخ کی تہذیب کی بنیادیں نہ ہل سکیں لیکن مغربی تعلیم نے لداخ کی تہذیبوں کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔
عبدالغنی شیخ ایک مورخ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب ادیب اور افسانہ نگار بھی ہیں ۔ان کے ابھی تک چار افسانوی مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ “زوجیلا کے آرپار”1970 میں شائع ہوا ۔اس افسانوی مجموعے میں ان کے دس افسانے شامل ہیں ۔اس افسانوی مجموعے میں زوجیلا کے پہاڑوں میں رہنے والے لوگوں کا حال بیان کیا گیا ہے اور پانچ کہانیوں میں ملک کے دیگر حصوں میں رہنے والے لوگوں کا حال بیان کیا گیا ہے ۔ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ “دوراہا” ہے جو 1993 میں منظر عام پر آیا ہے اس میں تئیس افسانے شامل ہیں۔اس افسانوی مجموعے کو کافی سراہا گیا اور اس پر تبصرے بھی کئے گئے ہیں۔ عبدالغنی شیخ نے اپنے افسانوں میں عام اور بظاہر معمولی دکھائی دینے والے واقعات کو بہت خوبصورتی کے ساتھ کہانی کا روپ دیا ہے۔کسی کسی موقع پر تو واقعات کو جوں کا توں پیش کیا ہے اور ان پر حقیقت کا گماں ہوتا ہے۔forsaking peradise عبدالغنی شیخ کا تیسرا افسانوی مجموعہ ہے جو سال 2001 میں شائع ہوا ہے ۔دراصل یہ اردو اور لداخی زبان میں لکھے گئے بارہ افسانوں کا انگریزی ترجمہ ہے جو امریکہ کی ایک خاتون نے کیا ہے ۔عبدالغنی شیخ نے اگر چہ اپنے افسانوں میں نصیحت کا پہلو نہیں اپنایا ہے تاہم انہیں انسانی اقدار جیسے محبت، انسان دوستی، ہمدردی اور ایثار پر پورا بھروسہ ہے جو ان کے افسانوں میں خوب جھلکتا ہے۔ان کا چوتھا افسانوی مجموعہ 2015 میں” دو ملک ایک کہانی” نام سے شائع ہوا ۔اس افسانوی مجموعے میں 45 افسانے شامل ہیں جن میں لوگوں کے روزمرہ کے مسائل کے ساتھ ساتھ چند افسانے طنز و مزاح پر بھی لکھے گئے ہیں ۔عبدالغنی شیخ نے اپنے افسانوں میں اخلاقی قدریں، سماجی نابرابری، طبقاتی کشمکش، رشوت خوری جیسے موضوعات کو پیش کیا ہے ۔عبدالغنی شیخ کی افسانہ نگاری کو دیکھ کر اگر یوں کہا جائے کہ انہوں نے لداخ میں افسانہ نگاری کی جوت کو جلائے رکھا ہے تو بیجا نہ ہوگا۔ عبدالغنی شیخ کی افسانہ نگاری پر بات کرتے ہوئے راشد سیسوامی رقمطراز ہیں کہ “بعض مقامات پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے چشم دید واقعات کو من و عن تحریر کی شکل دی ہے لیکن ایسی تحریروں میں بھی اخبارات کی رپورٹ کا رنگ نہیں ہوتا “۔عبدالغنی شیخ کے مختلف افسانوں پر تجزیاتی جائزہ بھی لیا گیا ہے ۔عرفان عالم اس حوالے سے لکھتے ہیں “دو ملک ایک کہانی رشتوں اور ورثے کی تقسیم کا المیہ، 1947 کی ہجرت کے دوران مہاجرین نے اکثر و بیشتر بڑے شہروں میں مکمل سکونت اختیار کی ۔ان کے افسانے جہاں دیدہ کا تجزیاتی جائزہ ڈاکٹر الطاف انجم نے لیاہے جبکہ عرفان عالم نے ان کے ایک اور افسانے دو ملک ایک کہانی کا ہجرت کے اضطراب کا کلامیہ کے نام سے تجزیاتی جائزہ لیا ہے ۔موصوف نے اس افسانے کی تکنیکی ہیت پر بھی بات کی ہے ۔انہوں نے سفر نامے بھی تخلیق کئے ہیں۔ “سفر نامہ روم و استنبول” اور سفر نامہ انگلستان اور برازیل ” عبدالغنی شیخ کے مشہور سفرنامے ہیں۔عبدالغنی شیخ کو دنیا کے مختلف ممالک میں منعقد ہونے والے سمیناروں میں شرکت کا موقع ملا ہے جہاں انہوں نے مختلف موضوعات پر تقاریر اور اپنے مضامین پڑھ کر اپنا لوہا منوایا ہے ۔موصوف نے سات قسطوں پر مشتمل ‘”انجام ” نام کا ڈرامہ بھی تخلیق کیا ہے ۔اس ڈرامے کے ہر منظر کا جائے وقوعہ لداخ ہی ہے اور اس پورے ڈرامے میں لداخ کا روایتی ماحول دکھانے کی بہترین کوشش کی گئی ہے۔عبدالغنی شیخ کے نام ادبی دنیا کی مشہور ہستیوں نے خطوط بھی لکھے ہیں اور مضامین بھی ان پر لکھے گئے ہیں ۔خطوط لکھنے والوں میں شمیم طارق، ایم عالم، عظیم الدین عظیم، ٹی این راز، حسن ساہو اور عشاق کشتواڑی جیسے لوگ شامل ہیں ۔ٹی این راز عبدالغنی شیخ کو لکھے گئے خط میں رقمطراز ہیں کہ”مکرمی شیخ صاحب ۔۔۔آجکل میں قلم، قلمکار اور کتاب نامی مقالہ پڑھ کر آپ کا قلم چومنے کو جی چاہتا ہے، واقعی قابل صد ستائش و تحسین ہے”۔جبکہ ڈاکٹر شہاب للت اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ “اداکار” آپ کی حقیقت نگاری پر دال ہے یہی دیکھ کر حد درجہ طمانیت ہوئی کہ آپ ابھی تک سرگرم تخلیق ہیں ورنہ عمر کی تیکھی ڈھلان پر آ کر پڑھنے لکھنے سے تعلق رفتہ رفتہ کم ہوتا جاتا ہے”۔ ایسے درجنوں خطوط ہیں جن میں ادب کے شائقین نے عبدالغنی شیخ کے کام کو سراہا ہے ۔
عبدالغنی شیخ کی تصانیف پر نہ صرف مضامین تبصرے لکھے گئے ہیں بلکہ ان کی شخصیت پر مضامین بھی قلمبند کئے گئے ہیں ۔ان پر مضامین تحریر کرنے والوں میں محمد یوسف ٹینگ، راشد عزیز، گلشن آرا، پریمی رومانی، قدوس جاوید، دیپک بدکی،بلراج بخشی، مشتاق احمد وانی، نور شاہ اور آفاق عزیز کے علاوہ بہت سارے لوگ شامل ہیںتاہم معذرت کے ساتھ عرض کرنا چاہوں گا کہ ان سبھی لوگوں کے نام لینا ممکن نہیں ہے ۔عبدالغنی شیخ نے “صنم نربو” نام کی سوانح حیات بھی تحریر کی ہے ۔یہ سوانح عمری انہوں نے لداخ کے ایک انجینئر صنم نربو کی شخصیت سے متاثر ہو کر لکھی ۔مذکورہ سوانح متاثر کن اور سبق آموز سوانح ہے جو قاری کو ایک سچے،دیانتدار اور ایماندار شخص سے متعارف کراتی ہے ۔عبدالغنی شیخ کی سوانح نگاری پر جواد جالب امینی نے ایک مدلل مضمون بھی تحریر کیا ہے ۔عبدالغنی شیخ کے قلم سے بہترین مضامین بھی نکلے ہیں ۔ان کے چند مشہور مضامین یوں ہیں۔دنیا کے پچاس مشہور ترین ناول، لداخ کا جغرافیائی محل وقوع، تبت میں آباد کشمیری مسلم اسرارالحق مجاز ،لداخ کے بعض عقائد و اوہام وغیرہ ۔دیکھا جائے تو عبدالغنی شیخ نے نثر کی تقریباً تمام اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ وہ ناول نگاری میں بھی پیچھے نہیں رہے ۔انہوں نے 1977 میں “وہ زمانہ” اور1978 میں “دل ہی تو ہے”نام کے بہترین ناولیں شائع کی ہیں ۔ناول “وہ زمانہ” کو کشمیر مرکنٹائل سرینگر نے شائع کیا۔ مذکورہ ناول ایک تواریخی ناول ہے جس میں لداخ کی تاریخ کو الفاظ کا جامہ پہنایا گیا ہے۔” دل ہی تو ہے” ناول کو بھی کشمیر مرکنٹائل سرینگر سے شائع کیا ۔اس ناول کو 1980 میں کلچرل اکادمی جموں وکشمیر کی جانب سے بہترین کتاب کے اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ یہ ایک رومانی ناول ہے جس میں حسن وعشق کی داستان پیش ہوئی ہے۔ “وہ زمانہ” ناول سے ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ عبدالغنی شیخ کو ناول نگاری پر مکمل گرفت حاصل تھی۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے تاریخ جیسے مشکل موضوع کو ناول کا جامہ پہنایا ہے ۔ناول “وہ زمانہ “پر جان محمد آزاد اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ “اسی دوران آپ کا ناولٹ وہ زمانہ شائع ہوا جس میں 1947 سے پہلے کے لداخ کی معاشرتی، ثقافتی، اور مجلسی زندگی اور اس کے بعد ہونے والی تبدیلیوں کو جزئیات، مزاحیہ اور دلکش پیرائے میں پیش کیا گیا ہے “۔موصوف کی ایک اور کتاب ” اسلام اور سائنس ” 2009 میں شائع ہوئی ۔جس کی پانچ سو کاپیاں ہاتھوں ہاتھ بک گئیں ۔ان کی ایک کتاب” قلم قلمکار اور کتاب” کو مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات نے شائع کیا جبکہ ان کی ایک اور کتاب” لداخ محققوں اور سیاحوں کی نظر میں “کو نیشنل بک ٹرسٹ نے شائع کیا ہے ۔اس کتاب میں عبدالغنی شیخ نے لداخ کے تاریخی جھروکے، علاقائی خصوصیات، آبادی، کھیت، آثارِ قدیمہ، عبادت گاہوں اور حکومتوں کے بارے میں تفصیل سے بات کی ہے۔ لداخ میں پائی جانے والی جڑی بوٹیوں اور ان کے طبی فوائد پر بھی بات کی گئی ہے ۔
دیکھا جائے تو عبدالغنی شیخ ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں ۔ایک دوردراز اور پسماندہ علاقے میں رہنے کے باوجود انہوں نے اردو کی جو خدمت کی ہے ،وہ قابل سراہنا ہے۔ ان کی چند تحریرات جیسے ’’ کتابوں کی دنیا ‘‘ اور ’’لداخ کی سیر ‘‘ کو ریاستی حکومت نے 1979ء میں منعقدہ بچوں کے بین الاقوامی صد سالہ میلے میں ایوارڈ سے نوازا۔ان کی لکھی گئی کہانی” دادی اماں” کو جموں وکشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن نے انگریزی میں ترجمہ کر کے دسویں کے نصابی میں شامل کیا جبکہ ان کے ایک بہترین اور معلوماتی مضمون “سلک روٹ” کو گیارہویں کے اردو نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔مہاراشٹر سرکار نے بھی ان کی تحریروں کو نصاب کا حصہ بنایا ہے ۔انگریزی سے ترجمہ کی ہوئی ایک کہانی “آوی لے” کو بھی بورڈ آف سکول ایجوکیشن نے دسویں کے نصاب میں شامل کیا ۔گاندھی جی کی حیات اور فلسفہ پر لکھی گئی ان کی تحریر کو بھی انعام سے نوازا گیا ہے ۔ لداخ کے تہذیب و تمدن پر عبدالغنی شیخ نے “لداخ تہذیب و ثقافت “نام کی ایک تصنیف بھی تخلیق کی ہے جسے کریسنٹ پبلی کیشن جموں نے شائع کیا ۔اس کے علاوہ لداخ، محققوں اور غیر ملکی سیاحوں کی نظر میں، Reflection on ladakh, Tibet and central Asia اور لداخ کی تاریخ کے اہم گوشے ایسی تصانیف ہیں جو عبدالغنی شیخ نے لدا خ کے موضوع پر لکھی ہیں ۔لداخ تہذیب و ثقافت کو عبدالغنی شیخ کاشاہکار مانا جاتا ہے۔ اس کتاب کو مکمل کرنے کے لیے موصوف کو عرق ریزی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بارے میں عبدالغنی شیخ خوف لکھتے ہیں۔۔”یہ اردو میں لداخ پر اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے جو میرے پنتالیس سال کی تحقیق اور ریاضت کا ثمرہ ہے۔ اس میں لداخ کی تاریخ، ثقافت، تمدن، یادگاروں، اہم مقامات، مذاہب، شخصیات، لوک ادب، زبان اور جنگلی جانوروں کے بارے میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ “لداخ کی تاریخ اہم گوشے” عبدالغنی شیخ کے تحقیقی مضامین کا ایک مجموعہ ہے ۔راشد عزیر اس کتاب کو جدید دور کی ویڈیو ریلوں سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کتاب کو لداخ کا قاموس قرار دیتے ہیں ۔اس کتاب میں لداخ کی جغرافیائی کیفیات اور تاریخ پر تفصیل سے بات ہوئی ہے “۔عبدالغنی شیخ کا طرز ِ تحریر سہل اور عام فہم ہے ۔وہ زندگی کے گوناگوں تجربوںکو اپنی کہانیوں کے موضوع چن لیتے ہیں اور وہ معمولی چیز یا واقعہ سے شہ پاکر اس کے ارد گرد اپنی کہانی کے تانے بانے بنتے ہیں ۔ان باتوں کا اظہار کاچواسفندیار خان نے عبدالغنی شیخ کے بارے میں “شیخ صاحب سے میری شناسائی ” نامی مضمون میں کیا ہے ۔
عبدالغنی شیخ کا کلام اگر چہ اردو میں ہے تاہم ان کا بیشتر کلام انگریزی، ہندی، ملیالم ،کشمیری ،بنگالی، گجراتی اور تیلگو زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔جس سے انہیں بہت زیادہ شہرت ملی ہے ۔بہت کم ایسے ادیب اور قلمکار ہیں جنہیں جیتے جی اتنی شہرت ملی ہے جتنی عبدالغنی شیخ لداخی کو ملی۔عبدالغنی شیخ کی چند کہانیاں جموںوکشمیر سے باہر کے معتبر رسالوں جیسے” بانو” اور “شمع” میں بھی شائع ہوئی۔ ان دنوں شمع میں چھپنا آسان نہیں تھا ۔’’میری ایک کہانی بلا عنوان شائع ہوئی تو رسالے کے مدیر یونس دہلوی نے مجھے خط لکھا کہ آپ کی کہانی کو بہت زیادہ پسند کیا گیا ہے تقریباً چھ ہزار قارئین نے عنوان ارسال کئے ہیں ‘‘۔ان باتوں کا اظہار عبدالغنی شیخ نے خود سلیم سالک کے ساتھ ایک انٹریو میں کیا۔مذکورہ انٹریو “گفتگو بند نہ ہو” کے عنوان سے شائع ہوا ہے ۔عبدالغنی شیخ کی شخصیت کے بارے میں بہت سارے ادیبوں اور معتبر قلمکاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جن میں راشد سہسوامی، علی باقر، اسداللہ وانی، وحشی سعیداور ابرار رحمانی جیسے لوگ سر فہرست ہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عبدالغنی شیخ کے ادبی کارناموں کو ایک چھوٹے سے مضمون میں قلمبند کرنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہےلیکن یہ چند حروف لکھ کر میں اپنے حصے کا حق ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اللہ کرے کہ ان کا سایہ اردو ادب پر تادیر بنا رہے کیونکہ اردو دنیا کو ایسے سپوتوں کی ابھی ضرورت ہے (آمین)
رابطہ۔کولگام، کشمیر، فون نمبر۔7006738436