امان وامق
اللہ پاک نے انسان کو بےمثال خوبیوں سے نوازا ہے اور ان میں سے ایک خوبی شرم و حیا ہے۔یہ وہ خوبی ہے جس سے انسان پرہیزگار، متقی، خداشناس اور عابد و زائد بن جاتا ہے۔اللہ رب لعزت سے بےپناہ محبت کرنے والا خدا دوست بن جاتا ہے،اس کی بدولت انسان خود کو اللہ رب لعزت کے سامنے محسوس کرتا ہے۔علامہ ابن جعر ؒکے نزدیک حیا وہ خلق ہے جو انسان کو نیکی کرنے اور برائی نہ کرنے پر ابھارتا ہے۔
قرآن پاک سے یہ حقیقت صاف واضح ہوجاتی ہے کہ حیا مرد اور عورت دونوں کا یکساں اخلاقی و دینی وصف ہے۔یہ نیک صفت ہمیں قصہ آدم و حوا میں اچھی طرح پہچان میں آتی ہے۔جب دونوں میاں بیوی نے شیطان کے وسوسے کی بدولت درخت ممنوعہ کا پھل کھا لیا تھا تو ان کے بدن سے جنت کا لباس اتروا لیا گیا تھا ،دونوں کو اپنی برہنہگی کا جوں ہی احساس ہوا تو اس حالت میں انھیں اور کچھ نہ سوجھا اور انھوں نے فوراً جنت کے درختوں کے پتوں سے اپنی شرم گاہیں ڈھاپنے کی کوشش کی۔
یہ وہ اخلاقی صفت ہے جو انسان کو بُرے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ رب لعزت کے سامنے اس انسان کو نیک طبع ،اللہ والا مستحکم ثابت کرتی ہے۔ باحیا فطرت رکھنے والا بشر ہمیشہ نیک خواہشات کی طرف گامزن رہتا ہے۔ ایسا بھی ہرگز نہیںہے کہ شرم و حیا آپ کے لباس یعنی پردہ پوشی تک ہی محدود رہے بلکہ آپ کا سر و پا تن و من میں حیا کا بول بولا ہونا چاہے۔ _اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتےہیں،’’ مومنوں کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نیچھی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کرے۔‘‘
دین ِ اسلام کا عملی دارومدار بھی حیا پر ہے ۔یہ ایک ایسا شرعی قانون ہے جو تمام افعال کو متحد و آراستہ کرتا ہے۔انبیا کرام ؑنے بھی حیا پر زیادہ زور دیا ہے، جس کے اندر شرم و حیا پایا جائے، وہ تمام تر نیک صفات سے بھی مالا مال ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوے ہیں، وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے اور جب جاتے ہیں تو دونوں ساتھ ساتھ جاتے ہیں ۔ایک دوسری حدیث مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حیا اور ایمان دونوں ساتھ ساتھ ہوتے ہیں اور اگر ان میں سے ایک بھی اُٹھ جاے تو دوسرا خودبخود اُٹھ جاتا ہے۔حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،پہلی شے جسے اس اُمت سے اٹھا لیا جاے گا، وہ حیا اور امانت ہے۔ پس تم ان دونوں چیزوں کا اللہ رب لعزت سے سوال کیا کرو۔
ایک عربی شاعرالمتنی کہتا ہے کہ اگر آپ راتوں کےبُرے کاموں کے نتیجہ سے خوفزدہ نہیں ہیں اور آپ کو شرم نہیں آتی تو آپ جو چاہیں کریں ،پس خدا کی قسم جب زندگی سے حیا چلی جاے تو زندگی اور دنیا میں کوی بھی بھلائی باقی نہیں رہتی۔ آدمی اس وقت تک بھلائی کے ساتھ زندہ رہتا ہے جب تک اس میں حیا باقی رہتی ہے۔ جیسے کہ درخت اس وقت تک زندہ رہتا ہے جب تک کہ اس کی چھال باقی رہتی ہے۔حضرت زیدبن طلحہؓ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر دین و مذہب کا ایک اپنا خاص خلق ہوتا ہے اور اسلام کا یہ خاص خلق حیا ہے۔ جس کی فطرت میں حیا شامل ہو ،وہ ہمیشہ دین و ایمان پر ڈٹا رہے گا اوربُرے کاموں سے باز رہے گا، _یہ بااخلاق اور اعلی کردار ہونے کی بالاتر علامت ہے۔
حیا کی موجب برکت سے انسان دنیا و آخرت دونوں میں اللہ رب لعزت کی قربت حاصل کرسکتا ہے۔اگر ہماری آنکھوں میں بےحیائی کے روڑے اور کنکر ہیں تو خدا کی قسم نہ ہماری دنیا صحیح ہوگی نہ آخرت ،اور نہ ہمیں کہیں خدا کی خدائی نظر آسکتی ہے، نہ خوف ِالٰہی۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی آنکھوں میں حیا کا سُرمہ ڈالیں تاکہ ہماری دنیا اور مقامِ اُخروی بالکل پاک و صاف رہے اور ہم بہشت کے دروازوں سے داخل ہونے والے بن جائیں۔
(گریز بانڈی پورہ ، رابطہ۔ 6006622656)
<[email protected]>