ثریا رحمان شوپیان
انسان کو خوبصورت بنایا گیا ہے، جس پہ اللہ تعالیٰ نے چار قسمیں کھائی ہیں۔ صورت التین میںاللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے انسان کو خوبصورت سانچے میں ڈالا یعنی ظاہری طور پر خوبصورت بنایا۔تو اب اگر یہ باطنی خوبصورت ہونے کا متلاشی ہے تو اس کو چاہیے کہ اپنی بات کو بھی خوبصورت بنا لیں۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو تخلیق کیا ہے۔اخلاق اور تخلیق ان دونوں میں کس قدر مناسبت ہے۔ جب انسان اخلاق کے دائرے میں رہتا ہے تو فطرت اور تخلیق کی اصل مفہوم کو باقی رکھتا ہے،جیسے:الخلوق عربی زبان کا لفظ ہے اور خلوق ایسی خوشبو کو کہتے ہیں، جس میں جزوئے اعظم زعفران ہوتا ہے اور زعفران کی خوشبو جو ہے، وہ بہت مہنگی ہے ۔الخلق:انسان کی طبعی خصلت ہے ،جب انسان کےسارے رویے ہی اخلاقی بن جائیں اور اس کی عادت میں شامل ہو جائیں تو وہ سراپائے اخلاق نظر آتا ہے۔ اخلت کو اگر دیکھ لیا جائے جو عربی زبان میں ہے ‘یعنی زیادہ لایق اور زیادہ مناسبت ۔عبداللہ ابن المبارک ؒ فرماتے ہیں :’’اخلاق انسان کےچہرے کی کشادگی ہے،تبسم ،مسکراہٹ بکھیرنا اور کسی مسلمان سے مل کے مسکرانا،خوشی کا اظہار کرنا،یہ اخلاق ہے۔’’ ایک انسان کی جیب اگر خالی ہے تو وہ پھر بھی صدقہ کر سکتا ہے، کسی مسلمان سے مسکراہٹ سے ملنا اور یہی مسکراہٹ اسکے لیے صدقہ بن جاتا ہے۔اور یہاں سے ہی دیکھیں کہ اگر ہم ان چیزوں کو زندگی میں شامل کریں تو زندگی کتنی خوبصورت ہو جائے گی۔ اخلاق کو اگر سمجھنا ہے تو پانچ چیزوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
۱۔ایک شخص نرم خو ہو،نرمی اس پہ غالب ہو،۲۔چہرےپر کشادگی ہو ،۳۔گفتگو پاکیزہ ہو،۴۔اپنے اندرجھکاؤ محسوس کرے یعنی ناقابلِ برداشت بات کو برداشت کرے ،۵۔نفرت اس کے اندر نہ ہو۔کیونکہ جو مومن ہوتا ہے، وہ حقیقت میں انسان سے نفرت نہیں کرتا بلکہ بُرائی سے نفرت کرتا ہے ۔
چوتھے نمبر پر جو ہے، اُس پہ امام غزالی کہا کرتے تھے ‘کہ’’ جب انسان کسی کو معاف کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں ہوتا کہ یہ معافی کا مستحق تھا،اصل میں یہ معاف کرنے والے کا بڑا پن ہوتا ہے کہ میں اس سے بھی بڑا ہوں اور اسے بڑی باتیں بھی معاف کر سکتا ہوں۔‘‘اخلاق کے بارے میں دو باتیں جان لیں: ایک’’غصہ کرنا چھوڑ دو ‘‘دوسری ’’کسی کے بارے میں دل میں گرہ رکھنا چھوڑ دو ‘‘تو تم اخلاق کے بہترین پہلو پہ اپنے آپ کو گامزن کر لو گے۔
حسن اخلاق کی اہمیت :
حضرت ابو ہریرہ ؓفرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ لوگوں کو جنت میں سب سے زیادہ کون سی چیز لے کر جائے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا خوف اور اچھے اخلاق۔ پھر پوچھا گیا کہ لوگوں کو جہنم میں سب سے زیادہ کون سی چیز لے کر جائےگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زبان اور شرمگاہ۔ زبان کو حد میں رکھنا سیکھیں کیونکہ سب سے زیادہ تو مصیبتیں انسان کو اپنی زبان کی وجہ سے آتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق میں ’’دل اور زبان‘‘بغیر ہڈی کے بنائے ہیں کیونکہ اس سے ان دونوں کا سخت ہونا پسند نہیں۔دل اور زبان کو نرم رکھنا چاہیے جیسے کہ پہلے بھی لکھ چکی ہوں کہ ایک انسان نرم خو ہو۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے پانچ باتوں کی وصیت فرمائی۔جن میں تین حسن اخلاق پر مبنی ہے۔
۱۔اے انس ؓ!اچھی طرح وضو کیا کرو، اسے تمہاری عمر میں اضافہ ہو گا۔
۲۔میرا جو بھی امتی تم سے ملے ،اُسے سلام کیا کرو، تمہاری نیکیاں بڑھیں گی۔
۳۔گھر میں داخل ہوتے وقت سلام کیا کرو ،تمہارے گھر کی خیریت بڑھے گی۔
۴۔چاشت کی نماز پڑھتے رہا کرو، اس لئے کہ تم سے پہلے جو اللہ والے بنے تھے انکا بھی یہی طریقہ تھا۔
۵۔چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کو عزت کیا کرو، قیامت کے دن میرے ساتھیوں میں سے ہو گے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اگر ہم کسی کے دل میں عزت اور جگہ بنا سکتے ہیں تو وہ ہے’’عمدہ اخلاق‘‘۔دوسروںکے دلوں میں اترنے کے لئے سیڑھیوں کی نہیں بلکہ اچھے اخلاق کی ضرورت ہوتی ہے۔حسن اخلاق ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم سنت ہے، جس کی وجہ سے کی کفار اور مشرقین اسلام میں داخل ہوئے۔ اگر ہم نظر دوڑائیں تو صرف مسکرانا ہی اخلاق نہیں بلکہ اس میں کچھ بنیادی اخلاق بھی شامل ہے مثلاً,سچ بولنا،دنیا سے قطعی ناامیدی،سایل پر بخشش کرنا،پڑوسی یا دوست بھوکے ہوں تو خود پیٹ بھر کر نہ کھانا،احسانات کا بدلہ دینا،امانتداری،صلہ رحمی،دوستوں اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنا،مہمان نوازی،حیاء کرنا۔اخلاق یہ بھی ہے کہ اگر کوئی تم سے تعلق توڑے تو تم اس سے تعلق جوڑے رکھو۔اچھے اخلاق گناہوں کی کثرت کو اس طرح مٹا دیتے ہیں جس طرح سورج کی گرمی جمی ہوئی برف کو پگھلا دیتی ہے۔اخلاق کا اچھا ہونا ہی خدا سے محبت ہونے کی دلیل ہے۔ دنیا کے سبھی لوگ خوبصورت ہیں،بدصورتی تو ہمارے رویوں اور سوچ میں ہے۔لوگ بدصورت ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ ہماری تخلیق اُس اللہ نے کی ہے جو ہمیں گناہ کرنے کے باوجود بھی ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے اور ہم پر بھی یہ حق ہے کہ ہم اللہ کے بندوں سے لازماً حسن اخلاق اختیار کریں۔ اگر چاہتے ہو کہ تمہارا نام باقی رہے تو اپنے بچوں کو اچھے اخلاق سکھاؤ ۔
[email protected]>