شہباز رشید
قرآن مجید میں قوم نوح کے بعد جس قوم کا عذاب سے نسیاً منسیاً کر دینے کا ذکر ہے وہ قوم عاد ہے جسے عاد اولیٰ یا عاد ارم بھی کہا جاتا ہے۔قوم عاد کو عادِ ارم اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ سامی نسل کی اس شاخ سے تعلق رکھتے تھے جو ارم بن سام بن نوحؑ سے چلی تھی اور بعض مورخین کا خیال ہے کہ یہ قومِ عاد کے شاہی خاندان کا لقب تھا۔یعنی جس طرح مصر کے شاہی خاندان کا لقب فراعنہ تھا یا عراق میں نماردہ اسی طرح قوم عاد کا شاہی لقب ارم تھا، یہ قوم بڑی قد دراز تھی جس کے متعلق سورۃ الفجر میںلم یخلق مثلھا فی البلاد ”سے تذکرہ کیا گیا ہے،انہیں اپنی طاقت پر بڑا غرور تھا وہ اپنی قوت و طاقت جتلا کر کہنے لگے ‘من اشد منا قوم اور جب ان کی طرف مبعوث کئے گئے رسولؑ نے انہیں ‘یقوم اعبدواللہ کہاتو انہوں نے جواب میں کہا ‘ انی لنرک فی سفاھۃ ۔ وہ نام ونمود اور تفاخر وتنافس کے خاطر بلند وبالا عمارتیں تعمیر کرنے کے شوقین تھے اور اس کے علاوہ اپنی حکومت اور فتوحات کی نشانیاں ستونوں کے رنگ میں بنایا کرتے تھے جیسے ہندوستان کے راجہ اور بادشاہ ’لات ‘بنایا کرتے تھے جیسے اشوک اور فیروز شاہ کی لات ۔قرآن نے ان کے اس شوق کی خاطر ان کو ‘ذات العماد ‘ کے لقب سے یاد کیا ہے یعنی بڑے بڑے ستونوں والے اور اسی فاسد تمدن کے متعلق حضرت ہود ؑ نے ان سے فرمایا ‘اتبنون بکل ریع ایۃ تعبثون۔ لیکن یہ لوگ تھے کہ ہٹ دھرمی سے جواب میں کہتے ‘سواء علینا اوعظت ام لم تکن من الواعظین۔
مؤرخین کے مطابق اگر چہ اس قوم کا قابلِ اعتماد تذکرہ تاریخ کی کسی بھی کتاب میں نہیں ملتا لیکن اہل عرب کے ہاں ان کا ذکر افسانوں اور اشعار کی صورت میں زندہ تھا۔مولانا مودودی تفہیم القرآن میں راقمطراز ہیں ‘یہ عرب کی قدیم ترین قوم تھی جس کے افسانے اہل عرب میں زبان زدعام تھے۔ بچہ بچہ ان کے نام سے واقف تھا۔ ان کی شوکت و حشمت ضرب المثل تھی۔ پھر دنیا سے ان کا نام و نشان تک مٹ جانا بھی ضرب المثل ہو کر رہ گیا تھا۔ اسی شہرت کی وجہ سے عربی زبان میں ہر قدیم چیز کے لیے عادی کا لفظ بولا جاتا ہے۔ آثار قدیمہ کو عادیّات کہتے ہیں۔ جس زمین کے مالک باقی نہ رہے ہوں اور جو آباد کار نہ ہونے کی وجہ سے اُفتادہ پڑی ہوئی ہو، اسے عادیُّ الارض کہا جاتا ہے۔ قدیم عربی شاعری میں ہم کو بڑی کثرت سے اس قوم کا ذکر ملتا ہے۔ عرب کے ماہرینِ انساب بھی اپنے ملک کی معدوم شدہ قوموں میں سب سے پہلے اسی قوم کا نام لیتے ہیں۔
مولانا سید سلیمان ندوی اپنی معروف کتاب ‘ارض القرآن ‘ میں لکھتے ہیں:’عاد کوئی محدود اور مختصر قبیلہ نہ تھا بلکہ ایک عظیم الشان قوم تھی،جو دنیا کی قدیم ترین تہذیب کی بانی تھی۔ایشیا اور افریقہ کا کثیر حصہ اس کے زور و قوت کا تماشگاہ تھا،بڑی بڑی عظیم الشان عمارتیں اس کے دست صنعت کا نتیجہ تھیں،اس بنا پر عرب کے لئے اس قوم سے زیادہ عبرت و بصیرت کا کوئی دوسرا نمونہ نہ تھا۔اس لئے قرآن مجید نے عرب کی اس عظیم الشان قوم کی داستان بار با دہرائی ہے۔
قران مجید میں قوم عاد کے وطن کے حوالے سے الاحقاف کا ذکر آیا ہے۔یعنی یہ قوم الاحقاف میں آباد تھی۔احقاف حقف کی جمع ہے جس کے معنی ریت کے بلند ٹیلے کے ہیں لیکن اصطلاح میں اس سے صحرائے ریگستان یا صحرائے عرب مراد ہے جو الربع الخالی(Empty quarter) کے جنوبی حصے کا نام ہے۔یہ وہ ریگستان ہے جو عمان،یمن،نجد اور حضر موت کے درمیان واقع ہے ۔جس زمانے میں قوم عاد یہاں موجود تھی تو یہ سرزمین سرسبز ی و شادابی اور تہذیب وتمدن کی ترقی میں اپنی مثال آپ تھی۔اس کا زمانہ حضرت نوح ؑ کے بعد اور ابراہیم ؑ سے پہلے کا ہے۔ قوم عاد کے زمانہ قیام و ترقی کے متعلق علامہ سید سلیمان ندوی نے ارض القرآن میں لکھا ہے ‘عاد کی عظمت اورترقی کا زمانہ 2200ق م سے لیکر 1700 ق م تک ہوسکتا ہے۔
قوم عاد طوفان نوح کے بعد شرک میں مبتلا ہوئی اور علامہ طبری اور ابن کثیر کے مطابق تین معبودانِ باطلہ،صدا،صمود اور وھرا کی عبادت کرنے لگ گئے۔قرآن مجید کی الفاظ ‘واذکرو اذ جعلکم خلفاء من بعد قوم نوح ‘سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ چند لوگ طوفان نوح ؑ کے بعد وہاں سے ہجرت کرکے جنوبی عرب میں مقیم ہوئے اور وہاں رفتہ رفتہ بڑی شان وشوکت حاصل کی۔ان کی شان وشوکت کے افسانے عرب میں عام طور پر مشہورتھے۔ عاد قددراز،قوی الجثہ اور محنت کش لوگ تھے۔ قوم عاد کی طرف حضرت ہودؑ کو مبعوث کیا گیا ان کی دعوت کا خلاصہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آیا ہے۔سورۃ الاحقاف میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
’’اور عاد کے بھائی کو یاد کرو، جبکہ اس نے اپنی قوم کو احقاف میں ڈرایا اور یقیناً اس سے پہلے بھی ڈرانے والے گزر چکے ہیں اور اس کے بعد بھی یہ کہ تم سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کی عبادت نہ کرو بیشک میں تم پر بڑے دن کے عذاب سے خوف کھاتا ہوں۔قوم نے جواب دیا کیا آپ ہمارے پاس اس لئے آئے ہیں کہ ہمیں اپنے معبودوں (کی پرستش) سے باز رکھیں؟ پس اگر آپ سچے ہیں تو جس عذاب کا آپ وعدہ کرتے ہیں اسے ہم پر لا ڈالیں۔ (حضرت ہود نے) کہا (اس کا) علم تو اللہ ہی کے پاس ہے میں تو جو پیغام دے کر بھیجا گیا تھا وہ تمہیں پہنچا رہا ہوں، لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ نادانی کر رہے ہو۔پھر جب انہوں نے عذاب کو بصورت بادل دیکھا اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے تو کہنے لگے۔ یہ ابر ہم پر برسنے والا ہے (نہیں) بلکہ دراصل یہ ابر وہ (عذاب) ہے جس کی تم جلدی کر رہے تھے ہوا ہے جس میں دردناک عذاب ہے۔جو اپنے رب کے حکم سے ہرچیز کو ہلاک کر دے گا، پس وہ ایسے ہوگئے کہ بجز ان کے مکانات کے اور کچھ دکھائی نہ دیتا تھا گناہ گاروں کے گروہ کو ہم یونہی سزا دیتے ہیں۔اور بالیقین ہم نے (قوم عاد) کو وہ مقدور دیئے تھے جو تمہیں تو دیئے بھی نہیں اور ہم نے انہیں کان آنکھیں اور دل بھی دے رکھے تھے۔ لیکن ان کے کانوں اور آنکھوں اور دلوں نے انہیں کچھ بھی نفع نہ پہنچایا جبکہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کرنے لگے اور جس چیز کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے وہی ان پر الٹ پڑی۔
حضرت ہودؑ کی دعوت کا یکسر انکار کرنے کے بعد اللہ تعالی نے انہیں نیست و نابود کر دیا۔قرآن مجید کی مختلف سورتوں میں ان پر عذاب نازل کرنے کے احوال کو بیان کیا گیا ہے،ہم نے ان پر منحوس دنوں میں باد صرصر بھیجا تاکہ عذاب ذلت کا اسی زندگی میں مزہ چکھائیں۔(حم السجدہ)اور عاد میں بھی نشانی ہے جب ہم نے نامبارک ہوا چلائی وہ جس چیز پر بھی چلتی اس کو ریزہ ریزہ کئے بغیر نہ چھوڑتی۔(سورۃ الذاریات) ‘اور عاد ایک بڑی شدید طوفانی آندھی سے تباہ کر دئے گئے۔اللہ تعالی نے اس کو مسلسل سات رات اور آٹھ دن ان پر مسلط رکھا (تم وہاں ہوتے تو) دیکھتے کہ وہ وہا ں اس طرح پچھڑے پڑے تھے جیسے وہ کھجور کے بوسیدہ تنے ہوں۔(الحاقۃ)
قوم عاد حضرت ہودؑ کی مخالفت کرنے کے عوض تباہی سے دوچار ہوئی،ان کی عمارتیں زمیں بوس ہوئیں،ان کا فخر وغرور خاک میں مل گیا اور ان کے تہذیب و تمدن کے آثار ہمیشہ کے لئےغائب ہوگئے۔کئی ہزار سالوں تک اس قوم کا نام ونشان تک معلوم نہ ہوسکا لیکن آج جدید سائنسی تحقیقات کے نتیجے میں الربع الخالی سے ان کے باقیات دریافت ہورہے ہیں۔آج تک اس لربع الخالی کے شمالی حصہ میں جو حضر موت کے قریب واقع ہے کوئی یہ گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کبھی یہاں تعمیر و تمدن کا کوئی نقش قائم ہوا ہو گا۔اس صحرا کی خوفناکی کا یہ عالم ہے کہ وہاں ہزار ہا سال سے کسی نے قدم رکھنے تک کی جراء ت نہ رکھی تھی اور آج بھی اس کے اندرونی حصے میں جانے کی ہمت نہیں رکھتا۔
(مضمون جاری ہے۔باقی اگلی سوموار کو ملاحظہ کریں)