ناظمہ چوہدری ،جموں
دنیا بھر میں غربت اور خراب صحت کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ عالمی سطح پر لاکھوں لوگوں کی خراب صحت کی وجوہات سیاسی، سماجی اور معاشی ناانصافیوں میں پیوست ہیں۔ غربت صحت کی خرابی کا سبب بھی ہے اور نتیجہ بھی۔اس کی وجہ سے ہر سال لاکھوں غریب اور سب سے زیادہ کمزورطبقےسے وابستہ لوگ ہلاکت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ غربت اور ناقص صحت سے نمٹنے کے لیے ناکارہ اور غیر منصفانہ معاشی اور سیاسی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ صحت کے معاملے میںپسماندہ گروہ اور کمزور طبقوں کے افراد سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ کیونکہ معلومات کی کمی اور محدودذرائع آمدنی کے باعث بہتر صحت کی خدمات تک اُن کی رسائی نہیں ہوپاتی ہے ،جس کے نتیجے میں انہیں بیماریوں سے بچنے اورمناسب علاج کی سہولیات کے حصول سے بھی محروم ہونا پڑتا ہے۔صحت کی خرابی کی دوسری وجہ ڈاکٹروں کی فیس، ادویات کا کورس اور صحت کے مرکز تک پہنچنے کے لیے ٹرانسپورٹ کے اخراجات بھی ایک غریب گھرانوں کے لیے تباہ کن ثابت ہورہے ہیں۔حکومتی اداروں اور صاحب ثروت لوگوں کے لئے لازم ہے کہ اُن کی دیکھ بھال کا خیال رکھیںیا اُن تک پہنچنے اوراُن کے علاج و معالجہ کی سہولیات بہم پہنچانے میں مدد کرنے کی کوششیں کریں۔اکثر دیکھا جارہا ہے کہ بدترین صورت حال میںیا بیماری پر اخراجات کےنا قابل برداشت بوجھ سے بیشتر خاندان اپنی جائیداد بیچ دینے پر مجبور ہورہے ہیںاور روزی کمانے کے لیے بچوں کوا سکول سے نکال دیتے ہیں یا پھربھیک مانگنا شروع کر دیتے ہیں۔اس ساری صورت حال اور گھر کی دیکھ بھال کا بوجھ زیادہ تر ایک خاتون پر ہی پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں اسے اپنی تعلیم ترک کرنی پڑ تی ہے، یا گھریلو اخراجات کو پورا کرنے کے لیے مزدوری کرنی پڑتی ہے۔تعلیم سے محروم رہنے اورمزدوری کرنے سےعورت کی صحت پر طویل مدتی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ناقص غذائی خوراک،پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی اور صفائی و ستھرائی کی کمی بھی اُس کی صحت کو متاثر کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ کم آمدنی پر حصول تعلیم ناممکن ہے اور صحت کی کمزور اور ذرائع آمدنی کے فقدان سے ناخواندہ لوگوں کی صحت مراکز تک رسائی نہیں ہوتی اور پھر بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی جیسے مقوی غذا، صاف پانی اور محفوظ رہائش جو کہ صحت مند رہنے کے لیے ضروری ہیں، کو پورا کرنے کی صلاحیت متاثر کرتی ہیں۔ دیہی باشندوں کو صحت پر اثرانداز ہونے والے کچھ سماجی عوامل کا تجربہ کرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ ان چیلنجوں کے اثرات کو دیہی علاقوں میں پہلے سے موجود رکاوٹوں جیسے عوامی نقل و حمل کے محدود اختیارات اور صحت مند خوراک کے حصول کے لیے کم انتخاب کی وجہ سے بڑھایا جا سکتا ہے۔ دیہی باشندے اپنے شہری ہم منصبوں کے مقابلے میں کمزور ہوتے ہیں۔ ان کے پاس غربت کی شرح بھی زیادہ ہے، صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کم ہے، اور صحت کی بیمہ کے امکانات کم ہیں۔یہ تمام عوامل صحت کے خراب نتائج کا باعث بن سکتے ہیں۔ہندوستان میں غربت کی پیمائش کی رپورٹ کے مطابق ماہانہ فی کس کھپت کے اخراجات دیہی علاقوں میں 972 روپے اور شہری علاقوں میں 1407 روپئے کو آل انڈیا سطح پر غربت کی لکیر کے طور پر تجویز کیا گیا ہے۔ ہندوستان نے ایک دہائی سے زائد عرصے میں اپنی آبادی کی صحت میں نمایاں پیش رفت کی ہے، جس سے دیہی اور شہری علاقوں اور امیر اور غریب کے درمیان فرق کو کم کیا گیا ہے۔ تاہم اب بھی بہت بڑی تفاوت برقرار ہے، اور دیہی علاقوں میں صحت کی دیکھ بھال تک رسائی ایک بہت بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔ درحقیقت خراب صحت بھی غربت میں اضافہ کرتی ہے اور خاندان کے کام کی پیداواری صلاحیت کو کم کرتی ہے۔
جموں و کشمیر میں لوگوں کی صحت کی صورتحال قومی سطح کی کامیابیوں کے ساتھ مطابقت نہیں رکھ پائی ہے۔ خاص طور پر یہاں کے دیہی علاقوں میں صحت کے عام مسائل ہیں، آبادی کا ایک بڑا حصہ آج بھی خطے افلاس سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں زیادہ تر صحت مراکز غیر ہنر مند یا نیم ہنر مند پیرامیڈیکس چلاتے ہیں اور دیہی سیٹ اَپ میں ڈاکٹر شاذ و نادر ہی دستیاب ہوتے ہیں۔ ایمر جنسی کی صورت میں، مریضوں کو بڑے ہسپتال میں بھیجا جاتا ہے جہاں وہ زیادہ اُلجھن کا شکار ہو جاتے ہیں اور صحت کے کارکنوں اور دلالوں کے گروہ کے جھانسے میں آکر دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ بنیادی ضروریات اور ادویات کی عدم دستیابی ہندوستان میں دیہی علاقوں کے لوگوں کی صحت کے لئے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کئی دیہی ہسپتالوں میں طبی ارکان کی تعداد انتہائی کم ہے۔اس کے علاوہ دیہی علاقوں کے اسپتالوں میںزیادہ تر دوائیاں دستیاب نہیں ہوتی ہیں۔ اور اُن کی فراہمی نہایت ناقص ہوتی ہے۔دیہی علاقوں میں محکمہ طبی ضروریات کمی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ضلع ڈوڈہ کے کاسر راتھر کا کہنا ہے کہ یہاں ڈوڈہ کے ایک دور اُفتادہ پہاڑی گاؤں تک صرف گھوڑوںکے ذریعے ہی رسائی ممکن ہے اور قریب ترین سرکاری اسپتال تک کی دوری 5-10کلومیٹر ہے۔ دور دراز کے علاقوں میں صحت کی دیکھ بھال کی خراب حالت پر روشنی ڈالتے ہوئے انکا کہنا ہے، اگرچہ ہسپتال تک کوئی شخص پہنچ بھی جائے تووہاں طبی عملے کی عدم دستیابی ، ادویات کے فقدان اور دیگر طبی سہولیات کی عدم موجودگی سے دیہی عوام کے صحت کی دیکھ بھال نفی کے برابر ہے۔جبکہ غیر تربیت یافتہ پرائیویٹ پریکٹیشنرز کی برتری سےعلاج و معالجہ کا نظام بالکل خراب ہے۔ راجوری کے ایک دور دراز پہاڑی علاقے سے تعلق رکھنے والے حامد کا کہنا ہےکہ جب کسی اوپری پہاڑی علاقے میں کوئی شخص بیمار پڑتا ہے تو وہاں سے تھوڑی دوری پر میڈیکل ڈسپنسری جانا پڑتا ہے تو وہاں بخار،نزلہ ، بلڈ پریشر جیسی بیماری کا کسی حد تک علاج ہو جاتا ہے لیکن اگر کوئی شخص کسی بڑی یا مہلک بیماری میں مبتلا ہوجائے تو انھیں راجوری ہسپتال سے جی ایم سی جموں کا رُخ کرنا پڑتا ہے۔جو کہ اُن کے لئے انتہائی دشوار ہوجاتا ہے ،کچھ لوگ اخراجات برداشت نہیں کرپاتے ہیںاور کچھ بڑے ہسپتالوں تک پہنچنے کی قوت نہیں رکھتے ہیں۔اکثر لوگ کام کاج کی غرض سے ہی شہر کا رُخ کرتے ہیں، اسکے لئے بھی انھیں کسی نہ کسی سے قرضہ لینا پڑتا ہے اور پھر اس قرضے کو اُتارنے کے لئے دوگنی محنت کرنا پڑتی ہے۔جسکے نتیجے میں اُنکی صحت پر بری طرح متاثر ہوجاتی ہے۔اس بات کا اظہار کشمیر کے ضلع اننت ناگ سے تعلق رکھنے والے بشیر تیلی ، جو جموں میں مزدوری کرنے کی غرض سے آتے ہیں نے کیا ہے۔ کشتواڑ کے رہنے والے عادل کا اس سلسلے میں یہ کہنا ہے کہ انھیں بیروزگاری اور غریبی کے مسلے تو تھے ہی، ساتھ ہی ساتھ صحت کے مسئلے بھی درپیش ہیں۔ کشتواڑ زیادہ تر علاقہ پہاڑی ہے اور اگر یہاں کوئی اچانک بیمار ہوجاتا ہے تو نزدیکی ہسپتال تک پہنچتے پہنچتے دیر ہو جاتی ہے اور اگر وقت پر پہنچ بھی گئے تو وہاں سےدوسرے کسی ہسپتال میں جانے کا مشورہ ملتا ہے۔جبکہ ضلع کے مقامی ہسپتال میں طبی آلات اور ٹیسٹ مشینوں اور دیگرطبی سہولیات موجود نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں یا تو سرینگر یا پھرجموں کے ہسپتالوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔
دیہی اور دور دراز علاقوں میں لوگوں کی بنیادی صحت کی دیکھ بھال کی رسائی کا طریقہ اکثر میٹروپولیٹن علاقوں میں رہنے والوں سے مختلف ہوتا ہے۔ خصوصاً دور دراز دیہی علاقوں کے لئے طبی سہولیات محدود ہوتی ہیں،جبکہ طبی سہولیات کی فراہمی کا ڈھانچہ بھی کمزور ہوتا ہے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان علاقوں میں وسیع پیمانے پر صحت کی خدمات مہیا ہوںکیونکہ ان منقسم وسیع رینج کے علاقوں میں کافی آبادی رہتی ہےجوکہ ایک وسیع پیمانے کے طبی سہولیات کی موجودگی اور حصول کی متقاضی ہے ۔ظاہر ہے کہ غریب و پسماندہ طبقوںکی اکثریت دیہی علاقوں میں ہی رہتی ہے، جن میں دیہی پہاڑی علاقے بھی شامل ہیں۔ اسلئے وہاںضروریات ِ زندگی کے بنیادی ڈھانچوں کو بہتر بنا کراور انہیں طبی سہولیات فراہم کرکے ہی دیہی لوگوں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔بصورت دیگر ان لوگوں کا بے موت مرجانا اُن کا مقدر رہے گا۔ (چرخہ فیچرس)