سرینگر//وادی میں100دنوں کے دوران مجموعی طور پر94افراد جان بحق ہوئے جبکہ15ہزار سے زائد مضروب ہوئے۔ کمانڈر برہان کی ہلاکت کے بعد کشمیر کے یمین و یسار میں شروع ہوئی احتجاجی لہراب بھی جاری ہے اور فورسز کی کاروائی میں90شہریوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ایجی ٹیشن کے دوران2پولیس اہلکار بھی ہلاک ہوئے جبکہ خشت باری اور فورسز کی طرف سے ٹیر گیس شلنگ کی وجہ سے ہوئے حادثات میں ایک طالبہ سمیت2افراد لقمہ اجل بن گئے۔ احتجاجی جلوسوں،جلسوں،ریلیوں اور مارچوں کا سلسلہ بھی100دن سے جاری ہے جبکہ فورسز ،فوج اور پولیس نے گولیوں،پیلٹ بندوقوں،ٹیرگیس شلو،مرچی گولوں اور پائوا شلوں کا استعمال کیا،جس کے نتیجے میں زائد از15ہزار شہری زخمی ہوئے۔ اس دوران سب سے زیادہ شہرہ ہلاکتیں جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں ہوئی جن کی تعداد24ہے جبکہ ضلع کولگام میں13اور پلوامہ میں11کے علاوہ ضلع شوپیاں میں شہری ہلاکتوں کی تعداد10ہے۔وسطی کشمیر کا ضلع گاندربل ہی واحد ایسا ضلع ہے جہاں وادی میں کوئی شہری ہلاک نہیں ہوا ۔ سرینگر میں11اور ضلع بڈگام میں جان بحق شہریوں کی تعداد9 ہے۔ شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ میں6جبکہ کپوارہ میں5اور بانڈی پورہ میں ایک شہری فورسز کی کاروائی میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔8جولائی سے8اگست تک ایجی ٹیشن کے پہلے ماہ میں مجموعی طور پر55افراد جان بحق جبکہ6ہزار کے قریب زخمی ہوئے ۔ دوسرے ماہ میں20شہری لقمہ اجل بن گئے اور5ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔تیسرے ماہ میں از جان ہونے والے شہریوں کی تعداد18تھی جبکہ4ہزار شہری زخمی ہوئے تاہم گزشتہ10دنوں میں جہاں ایک نوجوان موت کی آغوش میںسو گیا وہی400کے قریب شہری زخمی ہوئے۔ گزشتہ100دنوں سے مسلسل55دنوں تک کرفیو کا سلسلہ جاری رہا،جس کے بعد علاقائی سطح پر بندشوں ،غیر اعلانیہ کرفیو اور ناکہ بندی کی گئی۔ریاست کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عید الضحیٰ کے روز بھی وادی کے بیشتر علاقوں میں کرفیو کا نفاذ عمل میں لایا گیا،جبکہ خانقاہوں،جامع مساجد اور عیدگاہوں میں باجماعت عید نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔مزاحمتی قیادت نے جہاں پہلے سخت احتجاجی کلینڈر جاری کیا وہی دوسرے ماہ میں ہڑتال میں ڈھیل دی گئی اور تیسرے ماہ کے دوران جہاں چلو،جلسوں،کنونشنوں،مظاہروں اور دیگر پروگراموں کو عملانے پر زور دیا وہی ہڑتال میں بھی شام کے وقت ڈھیل دی گئی۔2ہزار300سے زائد کیس بھی پولیس اسٹیشنوں میں درج کئے ہیں۔مزاحمتی لیڈر اور میر واعظ کشمیر مولانا عمر فاروق،لبریشن فرنت چیئرمین محمد یاسین ملک،تحریک حریت کے جنرل سیکریٹری محمد اشرف صحرائی،فریڈم پارٹی کے سربراہ شبیر احمد شاہ سمیت چھوٹے برے سینکڑوں مزاحمتی لیڈرں کو جیلوں میں بند کیا گیا ہے۔مذہبی لیڈروں کے خلاف بھی برے پیمانے پر گرفتاریوں کا چکر جاری ہے جس کے تحت جماعت اسلامی کے درجنوں لیڈروں کے علاوہ امت اسلامی اور دیگر جماعتوں سے وابستہ علمائے کرام شامل ہے،کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔100دنوں کے دوران قریب500 لوگوں کو پی ایس ائے کے تحت وادی اور بیرون وادی کے زندان خانوں میں بند کیا گیا ہے۔