سرینگر// پائین شہر کے نوہٹہ علاقے میں صدیوں سے کشمیری عوام کیلئے سیاسی مرکز کی حیثیت رکھنے والی جامع مسجد کے مینار اور گنبد16ہفتوں سے خاموشی کے ساتھ وادی کے لیل و نہار کی منظر کشی کر رہے ہیں جبکہ موجودہ حکومت کی طرف سے اس تاریخی مسجد کی مسلسل ناکہ بندی سے سکھ دور کی تاریخ کو دہرایا جا رہا ہے۔ وادی میں8جولائی کو شروع ہوئے احتجاجی لہر کے بعد وادی کے شرق و غرب میں کرفیو کا نفاذ عمل میں لایا گیا جس کے دوران کئی ہفتوں تک تاریخی جامع مسجد سرینگر ،درگاہ حضرت بل اور دیگر سینکڑوں مساجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ حالات میں بہتری آنے کے ساتھ اگر چہ درگاہ اور دیگر مساجد میں سخت سیکورٹی کے بیچ نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت دی گئی ،تاہم پائین شہر کے وسط میں قائم تاریخی جامع مسجد کی ناکہ بندی نہ صرف مزید سخت کر دی گئی بلکہ اس کو مسلسل محصور رکھا گیا۔ تاریخی جامع مسجد میں مسلسل15ہفتوں تک نماز جمعہ کی ادائیگی نہیں ہو سکی ہے جس کے بعد مشترکہ مزاحمتی قیادت نے جمعہ کو کرفیو اور ناکہ بندی توڑ کر جامع مسجد سرینگر میں نماز جمعہ ادا کرنے کا اعلان کیالیکن ایک مرتبہ پھر جمعہ کو تاریخی مسجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔جامع مسجد سرینگر میں نماز ادا کرنے کی پابندی کا فیصلہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ تاریخ کے دریچوں سے جھانکنے کے بعد یہ معلوم پڑتا ہے کہ ماضی میں بھی کشمیری عوام کے اس مرکز کو بند کیا گیا ہے۔جامع مسجد سرینگر میں نمازوں کی پابندی صدیوں پرانی روایت ہے جس کو وقت وقت پر نئے حکمران کشمیری مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کیلئے بھی اپنا رہے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی قیادت والی نیشنل کانفرنس سرکار نے2010میں جامع مسجد سرینگر کی ناکہ بندی کر کے مسلسل8 ہفتوں تک جامع مسجد میں نماز جمعہ دا کرنے پر پابندی عائد کی جبکہ غیر متوقع طور پر محبوبہ مفتی کی سربراہی والی پی ڈی پی،بھاجپا سرکار نے بھی اپنے پیشرئوں کی روش کو اپناتے ہوئے8 جولائی سے اس مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ جامع مسجد سرینگر میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے سکھ دور اقتدار کے دوران دیوان موتی رام کو کشمیر کا گورنر تعینات کیا گیا جس نے1819میں نمازوں کی ادائیگی پر پابندی عائد کی ۔ خارجی امور کے مرکزی وزیر مملکت اور صحافی ایم جے اکبر نے اپنی کتاب’’کشمیر بی ہائنڈ دی ویل‘‘ میں سکھ دور کے گورنر موتی رام کی طرف سے جامع مسجد سرینگر میں نمازوں پر پابندی سے متعلق مکمل تفصیلات فرہم کی ہیں۔ایم جے اکبر رقم طراز ہیں ’’ جامع مسجد1819سے1842تک مسلسل23برسوں تک بند رکھی گئی۔موتی رام نے یہ سب کچھ مقامی مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کیلئے کیا‘‘۔انہوں نے مزید لکھا ہے کہ سکھ کمانڈر پھولا سنگھ خانقاہ شاہ ہمدان کو اڑانا چاہتا تھا تاہم بعد میں اس کو ایسا کرنے سے روکا گیا۔مولانا شمس ارحمان، جنہوں نے جامع مسجد پر ایک کتاب تحریر کی ہے، کا کہنا ہے کہ1842میں سکھ دورکے آخری گورنر شیخ امام الدین کے دور میں اس تاریخی مسجد کو کھولا گیا تاہم اس دوران مسلسل11برسوں تک اس مسجد میں صرف نماز جمعہ ہی ادا کرنے کی اجازت دی گئی۔انہوں نے مزید لکھا ہے کہ اس دوران جمعہ کو کچھ گھنٹوں کیلئے ہی مسجد کو کھولا جاتا تھا اور بعد میں بند کیا جاتا تھا تاہم1898کے بعد ہی مسجد کو کھولا گیا۔جامع مسجد کو کشمیر کے ہر دلعزیز بادشاہ سلطان زین العابدین عرف بڈشاہ کے والد سلطان سکندر نے1389اور1420کے درمیان تعمیر کیا تھا۔تاریخ میں یہ بات بھی درج ہے کہ ڈوگرہ دور میں جامع مسجد کو آتشزدگی کے ایک واقع میں زبردست نقصان پہنچا جسے ڈوگرہ حکومت نے مرمت کروا کے ٹھیک کیا۔