سرینگر// دسویں اور 12ویں جماعت کے امتحانات پر اٹھے تنازعہ کے بیچ کشمیر پرائیو ٹ سکولز ایسوسی ایشن نے فروری مہینے تک امتحانات ملتوی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ نومبر امتحانات سے طلبہ میں خودکشی کا رجحان پیدا ہوسکتا ہے۔ ایسو سی ایشن نے کہا کہ حریت سمیت کوئی امتحانات کے خلاف نہیں ہے تاہم حکومت کو چاہئے کہ وہ سازگار ماحول تیار کرے اور اس کے بعد ہی امتحانات کیلئے موزون تاریخوں کا فیصلہ لے ۔ وادی میں 10ویں اور 12ویں جماعت کے امتحانات کے انعقاد کی تاریخیں جوں جوں نزدیک آتی جارہی ہیں وہیں دوسری جانب امتحانات کو فروری تک ملتوی کرنے کے حق میں بھی تیزی سے آوازیں اٹھ رہیں ہیں۔ کشمیر پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن کے صدر جی این وار نے مطالبہ کیا ہے کہ 10ویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات کو فروری تک ملتوی کیا جائے۔ ایسوی ایشن کے صدر جی این وار نے کہا کہ موجودہ نامسائد حالات کے دوران70فیصد طالب علم متاثر ہوئے ہیں اور ایسے میں امتحانات منعقد کرنے سے بچوں پر ذہنی دبائو بڑھ جائے گا‘‘ ۔جی این وار نے کہا کہ موجوہ نامسائد حالات کے دوران سب سے زیادہ نقصان طالب علموں کو ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا ’’اس وقت امتحانات بچوں کی ذہنی و جسمانی نشو نما کے اصولوں کے عین منافی ہے اور امتحانات فروری میں منعقد کئے جائیں تاکہ طلبہ کو تیاری کا موزون وقت مل سکے ۔2014کے سیلاب میں سات ماہ ضائع ہوگئے تاہم سیشن کو بچالیاگیا ،لہٰذا وقت کا مسئلہ نہیں ہے اور حکومت کو طلبہ کے وسیع تر مفاد میں سوچنا ہوگا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ سماج کا کوئی بھی طبقہ امتحانات منعقد کرنے کے خلاف نہیں ہے اور نہ ہی حریت نے کبھی امتحانات منعقد کرنے کی مخالفت کی ہے مگر امتحانات سازگار ماحول میں منعقد ہونے چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ سال 2014میں جب 7ماہ ضائع ہونے کے بائوجود ہم بچوں کا سال بچنے میں کامباب ہوئے تو آج کیوں نہیں بچا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہرسال حکومت امتحانات کے دوران سرمائی تعطیلات کا اعلان کرتی ہے ، تب کوئی وقت ضائع نہیں ہوتا اور آج جب بچے امتحانات کیلئے تیار نہیں ہیں ، یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم امتحانات کا اعلان کرکے بچوں کو ذہنی کوفت کا شکار کریں۔ایسو سی ایشن نے سماج کے تمام طبقوں سے اپیل کی کہ وہ سیاست کو ایک طرف چھوڑ کر لاکھوں طلبہ کے فائدے کیلئے کوئی درمیانی راستہ تلاش کریں۔ایسو سی ایشن نے سکول جلانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی ذی حس شخص خاص کر مسلمان سکول نہیں جلا سکتا کیونکہ یہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے اور مساجد کے بعد اسلام میں سکولوں کا درجہ ہے۔ایسو سی ایشن نے پورے سماج سے اپیل کی کہ وہ سامنے آئے اور سکولوں کو بچانے میں رول ادا کرے۔جی این وارکا کہنا ہے’’ہم نے نجی عملہ سے کہا ہے کہ وہ اپنا تعاون پیش پیش رکھیں ،یہاں تک کہ بچوں اور ان کے والدین کو بھی رول ادا کرنا ہے کیونکہ یہ ہمارے مستقبل کا مسئلہ ہے‘‘۔وار نے کہا کہ حکومت سمیت سبھی کو نومبر میں امتحانات منعقد کرنے سے متعلق اپنا سخت موقف ترک کرنا چاہئے ۔وار نے کہا کہ طلبہ برادری پہلے ہی ذہنی تنائو کا شکار ہے اور امتحانات کا دبائو ان میں خودکشی کا رجحان پیدا کرسکتا ہے ۔وار کا کہناتھا’’ امتحانات لازمی نہیں ہے کیونکہ یہ محض ایک ضرورت ہے جبکہ بنیادی اہمیت کلاس روموں کی ہے جہاں طلبہ کچھ سیکھتے ہیں جبکہ امتحانات کا مقصد یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ طلبہ نے کلاس روم میں کیاسیکھا ہے ۔جب طلبہ نے کچھ سیکھا ہی نہیں ہو تو امتحان لینے کی کیا منطق ہے ‘‘۔ انہوں نے کہا کہ کام کرنے کے دن کم ملے اور نصاب نامکمل ہے جبکہ پریکٹیکل کام بالکل ہی نہیں ہوا ،لہٰذا کن بنیادوں پر حکومت امتحانات منعقد کرنے جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں طلبہ کو بے پناہ نقصان اٹھانا پڑے گا اور اس سے ان کا کیرئر بھی متاثر ہوگا۔وار کا کہناتھا’’جب طلبہ نے کچھ سیکھا ہی نہیں ہو تو وہ امتحانات میں مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کرینگے اور وہ NEET،JEEاورCETجیسے امتحانات کو کوالیفائی کرنے سے بھی رہیں گے ‘‘۔وار کا مزید کہناتھا’’موجودہ صورتحال میں جب درجنوں طلبہ مارے گئے ،طلبہ کسی بھی طورامتحان کیلئے تیار نہیں ہیں ۔امتحانات کا دبائو خود کشی کے رجحان کو جنم دے سکتا ہے اور اس کے نتیجہ میں ان میں برتائو کی تبدیلی بھی واقع ہونگیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ جن طالب علموں کو پی ایس ائے کے تحت گرفتار کیا گیا ہے ، ان سب کو رہا کیا جائے اور اسکے بعد ہی امتحانات کے حوالے سے سوچا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سیاست کے بغیر امتحانات چاہتے تھے مگر حکومت نے امتحانات کو سیاست کے نظر کردیا ہے۔ ادھر کل ٹینڈل بسکو، برنہال اور آر پی سکول سے آئے طالب علموں کے ایک وفد نے بتایا کہ وہ امتحانات کے انعقاد کے حوالے سے حریت گ سربراہ سید علی گیلانی سے ملاقات کرنے کے غرض سے حیدر پورہ گئے تھے ۔ پولیس کے کہنے پر طالب علموں کا یہ وفد اجازت نامہ لینے کیلئے ڈی سی سرینگر کے دفتر گیا تاہم انہیں مایوس ہی لوٹناپڑا کیونکہ انتظامیہ نے انہیں ڈی سی سے ملنے نہیں دیا۔ وفد میں شامل آر پی سکول سے تعلق رکھنے والے طالب علم دانش محمد نے بتایا کہ ہماری کوئی آواز نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ہمیں یہ بتارہا ہے کہ ہم امتحانات میں کیسے بیٹھیں گے۔ دانش نے بتایا ’’ نصاب نامکمل، نصاب میں کمی کا کوئی علم نہیں، کیا پڑھنا ہے کیا نہیں، وہ بھی معلوم نہیں ، تو ہم امتحانات میں کیسے بیٹھیں اور اگر بیٹھ بھی گیا تو کیا کرنا ہے۔ دانش نے بتایا ’’ کیونکہ 10اور 12ویں جماعت کے طالب علموں کی کوئی انجمن نہیں، اسلئے ہم گیلانی سے ملاقات کیلئے گئے تھے مگر وہاں موجود پولیس نے ہمیں اندر جانے کی اجازت نہیں دی ‘‘۔ دانش نے بتایا کہ سکولوں پر پیٹرول بموں سے حملے ہو رہے ہیں ، سکولوں کو نذر آتش کیا جارہا ہے اور ایسی صورتحال میں ہم امتحانی مراکز میں بیٹھ کربھی پرچے نہیں لکھ سکتے ہیں۔