اسلام آباد// پاکستان دفتر خارجہ نے ہندوستانی ہائی کمیشن کے 8 افسران کی بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے خفیہ ایجنٹس ہونے کی تصدیق کی۔اسلام آباد میں پریس بریفنگ کے دوران دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے بتایا کہ بھارتی ہائی کمیشن میں تعینات یہ خفیہ ایجنٹس تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے رابطے میں تھے جبکہ پاکستان میں دہشت گردی اور تخریبی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے دی گئی معلومات کے مطابق 6 افراد کا تعلق ’را‘ سے تھا جبکہ 2 افراد 'آئی بی' کے لیے کام کرتے تھے۔ترجمان نے بتایا کہ کمرشل کونسلر راجیش کمار اگنی ہوتری ’را‘ کے اسٹیشن چیف ہیں، جبکہ فرسٹ سیکریٹری کمرشل انوراگ سنگھ، ویزا اسسٹنٹ امردیپ سنگھ بھٹی، اسٹاف ممبران دھرمندر سودھی، وجے کمار ورما اور مدھاون نندا کمار ’را‘ کے لیے کام کر رہے ہیں۔یہ بھی بتایا گیا کہ فرسٹ سیکریٹری پریس اینڈ انفارمیشن بلبیر سنگھ اور اسسٹنٹ پرسنل ویلفیئر آفس جیابالن سینتھل آئی بی کے ایجنٹ ہیں۔دفتر خارجہ نے یہ دعوی بھی کیا کہ چند روز قبل ناپسندیدہ قرار دیئے جانے والے بھارتی ہائی کمیشن کے اہلکار سرجیت سنگھ بھی بلبیر سنگھ کے ماتحت آئی بی کے لیے کام کر رہے تھے۔یاد رہے کہ سرجیت سنگھ نے عبدالحفیظ کی جعلی شناخت کے ساتھ خود کو ایک ٹیلی کام کمپنی کا ملازم ظاہر کیا تھا۔دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ بھارت نہ صرف پاکستان میں تخریب کاری کی سرگرمیوں کو بڑھاوا دینے میں دہشت گردوں کی مدد کررہا ہے بلکہ اپنے سفارتی وفد کو بھی مجرمانہ کارروائیوں کے لیے استعمال کررہا ہے۔دفتر خارجہ کے مطابق خفیہ اداروں کے لیے کام کرنے والے یہ اہلکار جاسوسی، حکومت کو نقصان پہنچانے، سندھ اور بلوچستان میں دہشتگرد کارروائیوں میں مدد، پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو سبوتاڑ کرنے اور صوبوں میں عدم استحکام بڑھانے میں ملوث تھے۔نفیس زکریا نے مزید بتایا کہ، یہ ایجنٹس گلگت بلتستان میں حالات متاثر کرنے، پاک افغان تعلقات کو مختلف سرگرمیوں کے ذریعے نقصان پہنچانے، فرقہ واریت بڑھانے، انسانی حقوق سے متعلق پروپیگنڈا کرکے پاکستان کو بدنام کرنے، مذہبی اقلیتوں کو اکسانے، کشمیریوں کی حق خودارادیت کی تحریک کے بارے میں بین الاقوامی برادری کو گمراہ کرنے اور تحریک طالبان پاکستان کے مختلف دھڑوں سے تعلقات میں بھی تھے۔یاد رہے کہ ماضی میں بھی پاکستان میں ہونے والی بیشتر دہشت گرد کارروائیوں میں بھارت کے ملوث ہونے کے الزامات سامنے آتے رہے ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ سرکاری سطح پر ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان میں روابط کی نشاندہی کی گئی ہے۔بھارتی خفیہ ایجنٹس کے حوالے سے اطلاعات نے پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات کو عروج پر پہنچادیا ہے۔اس سے قبل نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن میں تعینات 6 افسران و ارکان کو پاکستان واپس بلانا پڑا تھا کیوں کہ ان میں سے چار پر بھارت نے پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے لیے کام کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔پاکستانی ہائی کمیشن کے 6 ارکان گزشتہ روز لاہور پہنچ گئے۔واضح رہے کہ دسمبر 2010 میں ڈرون حملے کے متاثرہ ایک شخص کی جانب سے دائر کیے جانے والے مقدمے میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے اسٹیشن چیف جوناتھن بینکس کی شناخت منظر عام پر آگئی تھی جس کے بعد امریکا نے انہیں واپس بلالیا تھا۔اس واقعے کے بعد پاکستان اور بھارت میں سفارتی اہلکاروں کا بطور خفیہ ایجنٹس منظر عام پر آنا انتہائی اہم انکشاف ہے۔2010 میں ہی انڈین انڈر کور سی اپ بھی جزوی طور پر بے نقاب ہوا تھا جب بھارت نے اپنے ہی ہائی کمیشن کے ایک افسر کو آئی ایس آئی کے لیے کام کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا تھا۔ماضی میں بیک وقت اتنی زیادہ تعداد میں خفیہ ایجنٹس سے متعلق معلومات کبھی منظر عام پر نہیں لائی گئیں۔رواں برس کے آغاز میں سیکیورٹی ایجنسیوں نے بلوچستان سے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا تھا جسے اب تک کی سب سے اہم انٹیلی جنس کامیابی قرار دیا جارہا ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے یہ تنازع اس وقت شروع ہوا تھا جب بھارت نے پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک افسر محمود اختر کو حراست میں لے لیا تھا اور انہیں چار سفارتکاروں کے نام بطور جاسوس لینے پر مجبور کیا گیا تھا۔بعد ازاں محمود اختر کا ریکارڈڈ بیان بھارتی میڈیا پر چلنا شروع ہوگیا تھا جس سے بھارت میں موجود پاکستانی سفارتی عملے کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوگئے تھے۔محمود اختر کا کہنا تھا کہ انہیں پولیس اسٹیشن میں کہا گیا کہ وہ چار سفارتکاروں کے نام لیں اور کہیں کہ یہ خفیہ ایجنٹس ہیں۔