گزشتہ روز یہ خبر مقامی اخباروں میں شہ سرخی کے ساتھ شائع ہوئی کہ عرصہ درازسے خانہ نظر بند حریت (گ) چیئر مین سیدعلی گیلانی کے ساتھ حریت ( ع ) چیئر مین میرواعظ عمر فاروق اور لبریشن فرنٹ سربراہ محمدیاسین ملک کے درمیان ہونے والی ملاقات میں پولیس کی جانب سے روڑے اٹکائے گئے۔ مجوزہ ملاقات سرے سے ہی منعقدنہ ہو ،اس واسطے جہاں میرواعظ کو گھر سے باہر آنے کی اجازت نہ دی گئی، وہیں یاسین ملک پر حیدپو رہ میں مدتِ مدید سے زیر محاصرہ گیلانی صاحب کے گھرا ور دفتر کے ا ندر جانے سے سنٹرل ریزرو پولیس اور کشمیر پولیس کے پہرہ داروں نے مشتر کہ طور ممانعت عائد کی۔ بدیں وجہ مسٹرملک کو وہاں سے واپس لو ٹنا پڑا۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق تینوں مزاحمتی قائدین کی ملاقات مستقبل کے حوالے سے اپنا لائحہ ٔعمل ترتیب دینے کی غرض سے طے تھی۔ یہ لائحہ عمل کیا ہوتا اور کیا نہ ہوتا اس کی پیش بینی کرنا بعیدا زامکان ہے مگر پولیس نے ملاقات کو ناکام بنا کر گویا کشمیر میں نامساعد حالات کو جوں کا توں رکھنے میں جانے انجانے اپنا کردار ادا کر دیا۔ اس ضمن میں حکومت کا چاہے جو بھی موقف ہو، اس سے شاید ہی کو ئی جمہوریت پسند اور گفت وشنید کا قائل فرد بشر اتفاق کر ے گا۔ سوال یہ ہے کہ اگر ان قائدین کو ملنے جلنے دیا جاتا تو اس سے پہاڑ ٹوٹ پڑتے نہ امن وقانون کا کوئی مسئلہ اُٹھ کھڑا ہوتا بلکہ اس بات کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا کہ باہمی مشاو رت سے زیادہ سے زیادہ یہ حضرات اپنے ہفتہ وار پروگراموں کے حسن وقبح پر تفصیلی بات چیت کر کے ان کے پس منظر اور پیش منظر کا معروضی جائزہ لیتے، اپنے پروگراموں کی افادیت میں نکھار لاتے یا ان کے تسلسل یاعدم تسلسل کا متفقہ فیصلہ لیتے کیونکہ زندہ قیادتیں زمینی حالات کے تناظر میں وقت وقت پر اپنی مبنی بر حق تحریک کی رگوں میںحقائق کا خون دوڑانے سے کبھی نہیں چوکتیں۔ امید اور توقع یہی تھی اس روبرو ملاقات سے کچھ نہ کچھ عوام اور کشمیر کاز کے مفاد میںاُبھر کر سامنے آسکتا تھا۔ قبل ا زیں سابقہ بھارتی وزیر خارجہ اور معروف بھاجپا لیڈر یشونت سنگھ کے ساتھ اپنے تبادلہ ٔ خیال میں اور باتوں کے علاوہ سید علی گیلانی نے اس بات کی خواہش بھی ظاہر کی تھی کہ قید وبند میں جکڑی مزاحمتی قیادت اور سینکڑوں سیاسی اسیروں کی رہائی عمل میں لائی جائے تاکہ کشمیر کی موجودہ صورت حال پر باہم دگر گفت وشنید کر کے مزاحمتی لیڈر شپ اپنی حکمت عملیوں پر غور وخوض کر سکے ۔ یہ اس بات کا بھی بلیغ اشارہ سمجھا جاسکتا تھا کہ قائدین کو رواں ایجی ٹیشن پر تازہ دم غور وفکر کر نے کی ناگزیر ضرورت کا احساس دامن گیر ہے مگر حکومت نے مجوزہ ملاقات پر عملاً ممانعت عائد کرکے اس احساس کی نفی کردی اور ساتھ ہی اس کے مثبت پہلوؤں کو جان بوجھ کر نظرا نداز کر نے کا نامعقول کام بھی انجام دیا ۔ اگر یہ بات محض ڈائیلاگ بازی نہیں بلکہ ا یک امر واقع ہے کہ جمہوریت خیالات کی جنگ ہے ،جیسا کہ سابق وزیر اعلیٰ بابار اپنی تقاریر میں عوام کوباور کرا تے تھے تواس جنگ کا اولین تقاضا اوربنیادی شرط یہ ہے کہ نہ صرف اپنے خیالات اور محسوسات کو اوروں پر بلا کم وکاست ظاہر کیا جائے بلکہ اپنے رقیبوں کے اختلافی نقطہ ہائے نظر کوبرداشت کر نے کی وسعت قلبی اور جمہوری مزاج کا بھی اول تاآخر پاس ولحاظ رکھا جائے۔ا س کے علی الرغم جب ریاستی حکومت یہ جانتے اور مانتے ہوئے بھی کہ مزاحمتی قیادت کا کشمیر اور وادی ٔ چناب اور خطہ ٔ پیر پنچال میں ایک ٹھوس سیاسی اور عوامی رول بنتاہے ، پھر اس میں کیا تک ہے کہ وہ اگر آپس میں ملیں جلیں، تازہ ترین سیاسی صورت حال کا تجزیہ کریں اور اپنے لائحہ عمل اور حکمت عملیوں کا محاکمہ کریں، ان چیزوں سے ڈرنا کیوں؟جہاں کوئی حکومت اپنے مخالف سیاسی گروپوں کی اٹھک بیٹھک پر قدغن لگائے،ان کی پُرا من سیاسی سرگرمیوں اور باہمی صلح مشوروں پر بھی پابندی عائد کر ے،ان کے لب ِ اظہار پر بھی مقفل چڑھا ئے اور مخالف سیاسی دھارے کے حامیوں کو بلاوجہ اور اندھا دھند اسارت کی سزا دے، ایسا طرزعمل کاہے کا خیالات کی جنگ ہوا؟ یہ صرف آمر یت کے پر ستاروں کاشیوہ اور شعار ہوتا ہے۔ اس میں دوارئے نہیں کہ دونوں حریت دھڑوں اور فرنٹ کااتحاد ثلاثہ گزشتہ چار ماہ سے کشمیر میں لوگوں کو ہفتہ وار کلینڈر دیتا چلا آرہاہے ۔ ہڑتالی کلینڈروں اور ان میں دی جارہی وقفے وقفے کی ڈھیل پر عوامی سطح پر عمل درآمد ہونے سے عوام کا جذبہ ٔ مزاحمت ہی نہیںجھلکتا بلکہ اس سے یہ بھی متباور ہو تاہے کہ عام لوگوں میں حکومت کی کوئی سیاسی ساکھ ہی نہیں رہی ہے۔ شایداسی حقیقت کو برملا تسلیم کر تے ہوئے حکومت کے ا یک اہم وزیر نے بہت پہلے مزاحمتی قیادت سے اپیل بھی کی تھی کہ وزیراعلیٰ کو ریاست میں حالات کو سنبھالا دینے کا ایک موقع دیا جائے ۔ بہرصورت عوامی مفاد میں حقیقت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے عوامی حکومت کا فرض عین بنتاہے کہ مزاحمتی گروپوں کی بالائی قیادت کو نہ صرف باہمی مشاورت کے لئے موزوں ومعقول سیاسی اسپیس دیا جائے بلکہ انہیں وقت وقت پر آپس میںملنے جلنے پر کوئی قدغن عائد نہ کی جائے ۔ نیز زور زبردستی کی ان کارروائیوں سے بھی اجتناب کیا جائے جو سر دست آنچار صورہ سری نگر اور پلوامہ میں گزشتہ دنوں سی آر پی ایف ا ور پولیس کے ہاتھوں شہر یوں کے خلاف جنگ جیسی صورت حال پیدا کر گئیں۔ نیز اگر حکومت دل سے چاہتی ہے کہ کشمیر میں حالاتِ امن لوٹ آئیں تو اس پرلازم ہے کہ وادی کے طول وعرض میں کر یک ڈاؤنوں ، نوجوانوں کی گرفتاریوں اور شہریوں کا تنگ طلبیوں کا سلسلہ فوراً سے پیش تر بند کر ے۔