سرینگر//شالیمار کے17سالہ طالب علم کی ہلاکت کو حراستی قتل قرار دیتے ہوئے لواحقین اور رشتہ داروں نے اتوار کو پر یس کالونی میں دھرنا دیا اور پولیس کے اس بیان کو مسترد کردیا جس میں پولیس نے دعویٰ کیا تھاکہ نوجوان کے موت کی وجہ زہر خوری ہے ۔احتجاجیوں نے پولیس کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ایس او جی نے ان کے بیٹے کو پکڑنے کے بعدتشدد کا نشانہ بنایا اور زبردستی زہر کھلانے کے بعد اسے نیم مردہ حالت میں ڈرین میں چھوڑ دیا ۔اتوار بعد دوپہر شالیمار سے آئے ہوئے مرد و زن نے ہاتھوں میں پلے کاڑدس لئے پریس کالونی میں احتجاجی دھرنا دیا اور ’’قاتلوں کو پیش کرو ،غلط افواہوں کو بند کرو ،ہمارے ساتھ انصاف کرو ،معصوم قیصر کے قاتلوں کو بے نقاب کرو ‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے الزام لگایا کہ 27اکتوبر کو ایس او جی اہلکاروں نے قیصر حمید صوفی ولد عبدالحمید صوفی ساکن دودھ محلہ شالیمار نامی میٹرک طالب علم کو اس وقت پکڑ لیا جب علاقہ میں محرم کا جلوس نکلنے والا تھا اور اس وجہ سے علاقہ میں بندشیں تھیں ۔انہوں نے بتایا کہ اسی دوران قیصر حمید گھر سے باہر نکلا جس دوران وہاں ایس او جی اہلکاروں نے 3لڑکوں کو پکڑ لیا اور بعد میں اگرچہ2کو چھوڑ دیا گیا تاہم قیصر کو شام دیر گئے نیم مردہ حالت میں چھوڑ دیا گیا ۔احتجاج میں شامل قیصر کے والد عبدالحمید صوفی نے بتایا ’’27اکتوبر کی صبح میرا بیٹاشالیمار بازار گیا ،تاہم اْسے یہ پتہ نہیں تھا کہ محرم کا جلوس نکلنے والا ہے اور اس وجہ سے پولیس نے یہاں بندشیں عائد کی تھیں‘‘۔ انہوں نے کہا’’دوپہر ایک بجے جب میرا بیٹا کھانا کھانے نہیں آیا تو ہم پریشان ہوئے اور اسے ڈھونڈنا شروع کیا‘‘۔انہوں نے بتایا’’شام دیر گئے تک جب وہ گھر نہیں لوٹا تو ہم نے اْس کی تلاش ہر ممکنہ جگہ پر شروع کی اور رشتہ داروں کے یہاں پر بھی فون کئے لیکن اس کا کوئی سراغ نہیں مل سکا‘‘۔انہوں نے بتایا کہ’’شام 4بجے ہم نے نشاط پولیس سٹیشن میںقیصر کی گمشدگی کی رپوٹ درج کرائی اورپولیس کو قیصر کی تصویر بھی دی‘‘۔احتجاج میں شامل قیصر کے پھپھیرے بھائی محمد عیاش صوفی نے بتایا ’’شالیمار بازار میں راہ گیروں نے بتایا کہ ایس او جی نے یہاں 3لڑکوں کو پکڑ لیا اور بعد میں 2کو واپس چھوڑ دیا اور قیصر ،جو کہ ان تینوں میں سے کم عمر کا تھا ،کو پکڑ کرلے گئے ‘‘۔انہوں نے بتایا ’’ہم نشاط کے ساتھ ساتھ ہارون پولیس اسٹیشن بھی گئے تاہم وہاں کچھ معلوم نہیں ہوا ‘‘۔قیصر کے بڑے بھائی تنویر احمد نے بتایا ’’میرے والد کے موبائیل نمبر پر ایک نا معلوم نمبر سے فون آیا اور بتایا گیا کہ قیصرکی لاش شالیمار میںایک زیر تعمیر ہوٹل کے نزدیک ڈرین میںپڑی ہے‘‘۔انہوں نے کہا’’یہ سنتے ہی ہم وہاں پہنچے اور قیصر کو نیم مردہ حالت میں پایا‘‘۔انہوں نے بتایا’’ ہم نے مقامی لوگوں کی مدد نے اسے صورہ ہسپتال پہنچایاجہاںڈاکٹروں نے اسکا علاج و معالجہ شروع کیا ‘‘۔قیصر کی والدہ نے روتے بلکتے ہوئے بتایا ’’ہسپتال میں قیصر نے مجھے اور ڈاکٹروں کو کو صرف اتنا ہی بتایا کہ ’ماں اب میں زندہ نہیں رہوں گا کیونکہ پولیس والوں نے مجھے مارا پیٹا اور پھر زہر دے دی‘‘۔انہوں نے بتایا ’’میرے بیٹے کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد زہر دینے والوں نے قیصر کو قتل کیا ہے اور اب اس قتل کو خود کشی قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے ‘‘۔قیصر کے ایک قریبی رشتہ دار نے بتایا ’’قیصرکی چھاتی ،ٹانگوں ،بازئوں اور بدن کے ہر حصے پر تشدد کے نشانات تھے اور ڈاکٹروں نے اس کے معدہ سے ’نیوان ‘زہر بھی نکالا تھا،جس کی تصدیق میڈیکل رپورٹ میں بھی ہوئی ہے ‘‘۔انہوں نے بتایا’’8دن تک انتہائی نگہداشت والے وارڈ میں وینٹی لیٹر پر رہنے کے بعد جب قیصر کی موت واقع ہوئی تو پولیس نے یہ بیان دیا کہ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ نوجوان نے زہر کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی تھی اور یہی اسکی موت کی وجہ بھی بنی،جو کہ سراسر جھوٹ ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قیصر کو پہلے جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور جب ایس او جی اہلکاروں کو لگا کہ اب یہ مر گیا تو اسکے منہ میں زبردستی زہر ڈالا گیا تاکہ یہی لگے کہ زہر ہی موت کی وجہ ہے‘‘۔پریس کالونی میں ایک گھنٹے تک احتجاج اور نعرہ بازی کرنے کے دوران دھرنے میں شامل شرکاء نے مانگ کی کہ قیصر کی ہلاکت کی تحقیقات کی جائے اور ملوث اہلکاروں کی نشاندہی کرکے انہیں سزا دی جائے ۔بعد میں احتجاجی مرد و ن پرامن طور منتشر ہوئے۔