اس سال کا موسم سر ما کشمیری عوام کے لئے عذاب اور پر یشانیوں کی کیاکیا سوغات لے کر وادی میںقدم رنجہ ہوگا ، تین چِلّوں کے تیور کیا ہوں گے ، گراں بازاری کیا کیاگل کھلا ئیں گے ،اس با رے میں کسی تو ضیح وتشریح کی چنداں ضرورت نہیں کیو نکہ عیاں راچہ بیاں کے مصداق عام آ دمی کو بخوبی معلوم ہے کہ سرما اُس کے لئے ہر سال کون کون سی نئی اذیتیں اور شامتیںلے کرآ تا ہے۔ بایں ہمہ اس برس چار ماہ طویل نامساعد حالات کے پس منظر میں ان حوالوں سے عوامی مسائل دو چند ہو نا طے لگتا ہے ۔ سردست بجلی کی آنکھ مچولی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی ہی جارہی ہے۔ بغیر کسی پیشگی شیڈول کے بر قی رو کے آنے اور جانے کا معاملہ عوام کے لئے ابھی سے سوہان ِ روح بنا ہوا ہے ۔ عوام الناس کو اب کے جاڑا کچھ زیادہ ہی شدید ہونے کا خدشہ لاحق ہے کیوںکہ ایک جانب مہنگائی کا گراف بتدریج بڑھتا جارہاہے ، ساگ سبزیوں کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں ، گراں بازاری کے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں، گیس اور تیل خاکی کا بھی خدا ہی حافظ ہے ،اوپر سے بارشوں اور برف باری سے قبل ہی اشیائے خوردنی سمیت بازار میںکانگڑی کا کوئلہ سونے کے بھاؤ بکنے لگاہے ۔ یہ بات محتاج تشریح نہیں کہ عام لوگوں کی قوتِ خرید کب کی دم توڑ چکی ہے ۔ اس پر مستزاد یہ کہ مہنگائی کا بھوت دندناتے پھر رہاہے ۔ ظاہر ہے جب کوئی پوچھنے والا نہ ہو تو گراں فروشوں کے وارے نیارے کیوں نہ ہوں ؟دوسری جانب بجلی کا کٹوتی شیڈول بے یقینی اور بے اعتباری کا اشتہار بنا ہواہے اور میٹر اور نان میٹر علاقوں میں معقول پاور سپلائی محض خواب وخیال حسب سابق بنی ہوئی ہے۔ عام شکایت یہ ہے کہ بجلی کی آنکھ مچولیاں صارفین کو تواتر کے ساتھ مختلف النوع مسائل سے ودچار کر تی جا رہی ہیں ۔ ممکنہ طور جوں جوں ٹھنڈ شدت اختیار کر تی جائے گی بجلی کی سپلا ئی پو زیشن بھی ہمیشہ کی طرح نا تسلی بخش ہوتی جا ئے گی ۔ عام لوگ کس سے فریاد کریں کس سے منصفی چاہیے جب عوامی مشکلات ومصائب کونظر انداز کر نے کی روایت پہلے ہی ارباب ِ اقتدار کی فطرت ثانیہ بنی چلی آ رہی ہے ۔ ظلم بالائے ظلم یہ کہ محکمہ بجلی صارفین کے ہاتھ میں ماہانہ بھاری بجلی بلیں تھما نے کی روایت برقرار رکھے ہوا ہے ۔ ماضی ٔ قریب تک اس کے ردعمل میں صارفین کا پیما نہ ٔ صبر لبریز ہو جاتا تو سڑکوں پر آکرحکو مت مخالف مظاہرے کرتے اور کچھ نہ کچھ ان کی شنوائی ہوتی مگر اب دوسرے قسم کی فضامیں یہ فسانہ ایک بھولی بسری داستان ہے ۔ جاڑے کے ایام میںوادی ٔ کشمیر جب شدید سردیوں کی لپیٹ میں ہو تی ہے تو یہاں ہر فرد بشر کی زندگی پرٹھنڈ اور ٹھٹھراہٹ سے جمود اور تعطل کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔ ان حا لا ت میں اگرچہ بجلی کی کھپت بڑ ھنا قدرتی امرہے مگر چونکہ یہاں ہر معاملے میں اُلٹی گنگا بہتی ہے اس لئے سر ما کا بگل بجنے کے ساتھ ہی پہلے پاور کی بے وفائی سے لوگوں کا پالا پڑتا ہے۔ بے شک بجلی کا نا جا ئز یا غیر ضروری استعمال بھی حالات کو گھمبیر بنا دیتاہے مگر اس حوالے سے تمام صارفین کو ایک لاٹھی سے ہانکا نہیں جاسکتا ۔ ہمارے حکومتی اکابرین کو اس بات کا لازماً علم ہے کہ بجلی کے غلط استعمال کا سرشتہ اس بد عنو ان نظم و نسق اوربے ہنگم سیا ست کا ری سے جڑا ہے جس کی گہر ی جڑ یں یہا ں کی سیاسی تا ریخ میں پیو ست ہیں۔ عوامی حا فظے میں یہ اب بھی یہ بات تروتازہ ہے جب قائد ین نے انہیں یہ پٹی پڑھائی کہ بجلی لا ئین مین اگر بجلی کھمبے سے سیڑ ھی لگائے تو نیچے سے سیڑھی نکا ل دو۔ اس طرزِ سیاست سے بجلی کے نا روا استعمال کا روگ صارفین کو ورثے میں ملا ہوا ہے ۔ بہرصورت پا ور کرائسس کا حقیقت پسندانہ علا ج ڈھو نڈنا ہر حکومت کے واسطے روز اول سے وقت کی اہم ترین ضرورت رہا مگر اس جانب کبھی کوئی سنجیدہ توجہ نہ دی گئی ۔ بہ ایں ہمہ اس بارہ میں حکو مت کو بلاتاخیر کوئی موثر اور کا رگر حکمت عملی اپنا نی چاہیے جو اگر ٹھوس بنیادوں پرا ستوار ہواور کسی انتقامی جذبے یا ایڈہاک اِزم سے عبارت نہ ہو تبھی اس کے بہتر ثمرات حا صل ہو سکتے ہیں ۔ اس تعلق سے عوام کی ضروریات اور ان کی اجتما عی نفسیا ت کو بھی مدنظر رکھا جاناچاہیے۔ یہ امر واقع بھی زیر نظررہنا چاہیے کہ جس ریا ست کے سیا سی و انتظا می صیغوں میں بد عنوانی کا پیپ اور کورپشن کاسر طا ن مو جو د ہو، وہا ں کسی بھی جا دو ئی چھڑی کو گھما کر بذات خود بجلی محکمہ یا بجلی کا ناجائز استعمال کے عادی لوگوں کو بیک جنبش قلم فرض شناس نہیں بنا یا جا سکتا۔ نیزپا ور سیکٹر کے حو الے سے اس تلخ حقیقت سے کو ئی بھی حاکم ِ بالا نا بلد نہیں ہو سکتا کہ بجلی کا نا جائز استعمال صرف اس ریا ست سے مخصوص نہیں، دلی ممبئی اور دیگر ریاستو ں میں بھی کسی نہ کسی شکل میں یہ ناپسندیدہ روش مو جو دہے، البتہ وہا ں کی ریا ستی حکو متیں ایک طبقے کی غلطی کا خمیازہ تما م بجلی صارفین سے نہیںاُٹھوا رہے ہیں۔ ہما رے یہا ں اس با ب میں عجیب وغر یب سوچ پا ئی جا تی ہے۔ ایک مرحلے پرحکومت نے مسئلے کا حل زر کثیر خرچ کر کے میٹرو ں کی تنصیب میں ڈھو نڈا مگر معاملہ’’مرض بڑ ھتا گیا جوں جوں دواکی‘ ‘ کے مصداق ابتر ہی رہا۔ پھراس کا حل یہ سمجھا گیا کہ بجلی فیسیں بڑھائی جائیں ، نتیجہ ندارد، اب بے ضابطہ کٹو تی شیڈول عوام کے گلے ڈالا جاتا ہے تا کہ بجلی کی کھپت میں کمی آ ئے مگر اصل مرض پھر بھی ثابوت کا ثابوت ہی ہے۔ ایک وقت محکمہ بجلی کو پرائیوٹائز کر نے کی ہوائیاں بھی چل رہی تھیں، وثوق اور اعتماد سے نہیں کہا جا سکتا کہ مجوزہ نسخہ درد کا درماں ثابت بھی ہو گا یا یہ بھی محض دائرے کا سفر بنے گا۔ لہٰذا ایک حلقے کا کہنا یہ ہے کہ حکو مت کواپنے تما م نت نئے تجر بات تر ک کر کے صارفین سے لو ڈ کے مطابق میٹر یا فلیٹ ریٹ میں سے ایک آ پشن پہ عمل درآ مد کروا نا چا ہیے اور پھر انہیں اس با ت کا سختی سے پابند بنا نا چا ہیے کہ وہ وقت پر بجلی فیس کی ادائیگی کر یں۔ شایدمو جو دہ زمینی حالا ت کی منا سبت سے یہ تجویز ایک قابل عمل چیز ہوجس پر سنجیدہ غور وفکر کیاجانا محکمہ بجلی اور صارفین کے لئے بہتر ثابت ہو سکتا ہے ۔ مختصراً یہ کہ اگر بجلی کی سپلائی پوزیشن میں فی الحال کم ا زکم معقولیت لائی جا ئے تو یہ کشمیری عوام کے دکھوں میں کمی لانے کا باعث بنے گا۔