سرینگر//تحریک حریت نے رواں عوامی جدوجہد کے دوران تحریک حریت کے قائدین وکارکنان کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اورپھر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظربند کرکے وادی اور وادی سے باہر کی جیلوں میں منتقل کرنے کو انتہائی تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت فوجی لاؤ لشکر کی بنیاد پر تحریکِ آزادی کو کچلنے کی کوششوں میں مصروفِ عمل ہے۔پارٹی کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت انتقام گیرانہ پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے اور اسی انتقام گیرانہ پالیسی کے تحت گزشتہ چار ماہ کے دوران 11,300افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے ہزاروں جوانوں کا ٹارچر کرکے ذاتی مچلکہ یا عدالتی ضمانتوں پر رہا کیا گیا جبکہ 1500کے قریب افراد ابھی بھی مختلف جیلوں، تھانوں ، انٹروگیشن سینٹروں اور اپنے گھروں میں نظربند ہیں جن میں تحریک حریت کے جنرل سیکریٹری محمد اشرف صحرائی، شاہ ولی محمد، غلام محمد بٹ، امیرِ حمزہ شاہ، ایاز اکبر، محمد یوسف لون، بشیر احمد قریشی، محمد اشرف لایا، محمد شعبان ڈار، رئیس احمد میر، عبدالسبحان وانی، غلام مصطفی وانی، حاجی محمد رستم بٹ، شکیل احمد ایتو، شاکر احمد میر، شکیل احمد بٹ، سلمان یوسف، عبدالمجید راتھر، محمد شعبان خان، مفتی عبدالاحد، غلام محمد تانترے اور اس کے دو بیٹے، بشیر احمد صوفی، بشیر احمد صالح، عبدالرحمان تانترے، نذیر احمد مانتو، ادریس جان میر، حاجی غلام محمد میر، محمد شفیع وگے، مشتاق احمد کھانڈے، محمد شفیع خان، عبدالحمید وانی، ماسٹر علی محمد، خالد حسین، شوکت احمد ڈار، عبدالحمید پرے، بشیر احمد شیخ، غلام محمد لون، محمد امین پرے، جاوید احمد فلے، غلام حسن ملک، بشیر احمد خان، محمد یونس نجار، محمد مقبول گنائی، بشیر احمد بٹ، منظور احمد بھگت، شمیم احمد صوفی جمشید، منظر احمد، نذیر احمد راتھر، وحید احمد، توصیف احمد اور دیگر تنظیموں کے لیڈران اور کارکنان کی بڑی تعداد پی ایس اے کے تحت جیلوں میں نظربند ہے۔ تحریک حریت نے ان تمام نظربندوں کی رہائی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کے پاس ان بیجا اور وسیع گرفتاریوں کا کوئی قانونی، اخلاقی اور انسانی جواز نہیں ہے کیونکہ موجودہ تحریک کے ذریعے یہاں کے لوگ اجتماعی طور اپنے پیدائشی اور بنیادی حق کے حصول کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔